جھگڑتے تھے لیکن نہ جھگڑوں میں شر تھا

✍️: مفتی شکیل منصور القاسمی

مولانا سعد کاندہلوی صاحب سے پھر کبھی جی بھر کے لڑ لیجئے گا، ہم بھی آپ کا ساتھ دیں گے ، بحث و مباحثے کے لئے پورا وقت باقی ہے ۔ لیکن اِس وقت شخص واحد نہیں ، ہمارا متاع گراں مایہ تبلیغی جماعت ، یہودی وفسطائی یلغار کی زد میں ہے، دعوت وتبلیغ دین پہ میلی آنکھیں اٹھ رہی ہیں ، ملی غیرت وحمیت کا تقاضہ ہے ان کا ساتھ دیں! نظریاتی اختلاف کی وجہ سے شادیانے بجانے کا نہیں ، مکمل ملی ہم آہنگی دکھانے اور بڑے دل کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا وقت ہے ۔ خدارا ٹکڑوں میں بنٹ کر دشمن کا دست و بازو نہ بنئے! کلمے کی بنیاد پر ایک آواز اور ایک طاقت بنئیے!
مولانا سعد سے ہمارا اختلاف اتنا شدید نہیں ، جتنا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا اختلاف حضرت علی رضی اللہ عنہ سے تھا ، ( نوعیت اختلاف مختلف تھی ) ذرا یاد کیجئے !جب بادشاہ قیصر نے ان اختلافات سے فائدہ اٹھانا چاہا اور شام کے سرحدی علاقوں پہ لشکر کشی کرنے کا پلان تیار کیا ، حضرت معاویہ کو جب اس کا علم ہوا تو انہوں نے قیصر روم کو جو رد عمل دیا وہی رد عمل آج ہمیں قیصر عرب “ ابن سلمان اینڈ کمپنی“ کو دینے کی ضرورت ہے ۔
حضرت معاویہ نے لکھا “
مجھے اس بات کا علم ہوا ہے کہ تُم سرحد پہ لشکر کشی کرنا چاہتے ہو ، یاد رکھو ! اگر تم نے ایسا کیا تو میں اپنے ساتھی ( حضرت علی ) سے صلح کرلوں گا اور ان کا لشکر جو تم سے لڑنے کے لیے روانہ ہوگا اس کے ہر اول دستے میں شامل ہوکر قسطنطینیہ کو تہس نہس کردوں گا “
آج ہمیں یہی جواب یہودی مہرہ ابن سلمان کو دینا ہے ۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے ، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں ، اور بیرون دریا کچھ نہیں

اگر اختلاف ان میں باہم دگر تھا
تو بالکل مدار اس کا اخلاص پر تھا
جھگڑتے تھے لیکن نہ جھگڑوں میں شر تھا
خلاف آشتی سے خوش آئند تر تھا
یہ تھی موج پہلی اس آزاد گی کی
ہرا جس سے ہونے کو تھا باغ گیتی

آج ہمیں بھی نظریاتی اختلافات کے وقت اصحاب رسول کی زندگیوں سے اسی طرح روشنی کشید کرنے اور رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے ، کسی فردسے اختلاف و ناپسندیدگی کا جذبہ ہمیں اس کی مخالفت و عداوت پہ ہر گز آمادہ نہ کرسکے ۔وما توفيقي إلا بالله .
شکیل منصور القاسمی
مركز البحوث الإسلامية العالمي .
٦جمادى الأولي ١٤٤٣هج

Comments are closed.