فقہ کی تین اہم غیر درسی کتابیں

از : ڈاکٹر محمد واسع ظفر
استاذ و سابق ڈین، شعبہ تعلیم، پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ
اسلام ایک مکمل اور جامع نظام حیات کا نام ہے۔ اس کی ہدایات و تعلیمات انسانی زندگی کے تمام شعبوں کو محیط ہیں۔ کوئی بھی مسئلہ خواہ وہ عقائد و نظریات سے متعلق ہو یا عبادات سے یا اخلاق و معاملات سے یا پھر معاشرت و معیشت اور کاروبار سے ، اسلامی شریعت میں اس کے حل کے لئے کامل رہنمائی موجود ہے۔ ایک مسلمان سے یہ توقع کی جاتی ہے وہ ان تمام شعبوںسے متعلق اسلامی احکام کو جانے اور ان کے مطابق ہی اپنی زندگی کا سفر طے کرے تاکہ اس کی دنیا اور آخرت دونوں ہی کامیابی سے ہمکنار ہو۔ لیکن افسوس ! صد افسوس کہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ شرعی علوم سے بالکل بے بہرہ بنا ہوا ہے، اس نے نہ ہی کبھی مکمل دین پر چلنے کا ارادہ کیا اور نہ ہی کبھی اسے سمجھنے کی کوشش کی۔یہ کام پوری امت نے ایک مخصوص طبقہ کے حوالے کر رکھا ہے۔ بدقسمتی سے اس طبقہ نے بھی شرعی علوم پر اپنی ایک اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔ گو کہ ایک مخصوص دائرے میں ان کی علمی سرگرمیاں چلتی ہیں لیکن عام مسلمانوں میں شرعی علوم کی تشنگی پیدا کرنے میں وہ یکسر ناکام رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ان کی قائم کردہ نہج سے ہٹ کر اگر کوئی شخص علوم شریعہ کو حاصل کرنے کی طرف راغب بھی ہوتا ہے تو بجائے حوصلہ افزائی کے اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور یہ تأثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ تم دین کو سمجھ ہی نہیں سکتے اور اس کے حاصل کردہ علوم پر بھی سوالیہ نشان لگائے جاتے ہیں!
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ عام مسلمانوں نے بھی یہ سمجھ لیا ہے کہ دین کو سمجھنا ان کے بس کی بات نہیںاور اسی لئے وہ اس کا رادہ بھی نہیں کرتے۔ حالانکہ دین تو بالکل آسان ہے اور یہ عام انسانوں کی ہی زندگی بدلنے کے لئے آیا ہے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص اسے سمجھنے کی کوشش کرے اور نہ سمجھ سکے۔ اہل علم حضرات کا کمال یہی تو ہے کہ وہ مشکل سے مشکل علوم کو اتنا آسان بناکر پیش کردیں کہ ہر کسی کے لئے اس کا سمجھنا ممکن ہوجائے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمی و تربیتی نہج پر اگر غور کریں تو یہ نکتہ سمجھ میں آسکتا ہے کہ عرب کے بدوؤں کو کیسے انہوں نے زیور علم اور تفقہ فی الدین سے آراستہ کیا اور ان کی زندگیوں میںکیسا انقلاب برپا کردیا۔ شرعی علوم کو عمومیت دینے کے لئے یہ ضروری ہے کہ علماء اپنے انداز فکر اورنہج میں تبدیلی لائیں جو کہ آنے والے دنوں میں ہندوستان میں ان کے لئے شاید ناگزیر ہوجائے گا۔
بہرحال احقر نے ہمیشہ علم دین کو عام کرنے کی وکالت کی ہے اور اس کے لئے راہیں بھی سجھائی ہیں بالخصوص پڑھے لکھے اور عصری علوم سے وابستہ نوجوانوں کو تحصیل علم دین کی طرف متوجہ کرنے کے لئے تقریری و تحریری کاوشیں بھی کی ہیں۔ احقر کے مضامین ـ’’اسلام میں علم کی اہمیت‘‘، ’’علم دین کے حصول سے غفلت کیوں؟ـ‘‘،’’ عصری تعلیم سے وابستہ افراد کے لئے علم دین کیوں ضروری ہے؟‘‘، ’’فضیلت علم: قرآن کریم کی روشنی میں‘‘، ’’قرآن حکیم کو سمجھ کر پڑھنا ہی مطلوب ہے‘‘ وغیرہ اس امر پر شاہد ہیں۔ بندہ اس بات کا داعی اور متمنی ہے کہ عصری تعلیم سے وابستہ یا فارغ نوجوان نسل تحصیل علم دین اور مطالعہ کتب کی طرف راغب ہو اور علماء ان کی اس سلسلے میں رہنمایٔ کریں۔ ظاہر ہے کہ آج کے دور میں ہر شخص سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ مدرسہ میں جاکر علم حاصل کرے لیکن اتنی توقع تو کی ہی جاسکتی ہے کہ وہ کتب بینی اور علماء کی رہنمایٔ کے ذریعے دین کا بنیادی علم حاصل کرلے شرط یہ ہے کہ اس میں اس کی طلب پیدا کردی جائے اور معاشرے میں ایسا ماحول بھی بنایا جائے۔ جو افراد بھی اس کی طرف مائل ہوں ان کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کی جائے۔ الحمد للہ نوجوانوں کا ایک طبقہ دین کی طرف راغب بھی ہوا ہے ، اسے علم دین کے حصول کی طرف راغب کرنے کی ضرورت ہے۔
کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں عربی زبان نہیں آتی تو وہ شرعی علوم کو کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟ ایسا سوچنا کلی طو پر صحیح نہیں!عربی کا جاننا شرعی علوم کو سمجھنے میں یقینا مددگار ہے لیکن یہ اب بالکلیہ لازم نہیں۔ اصل چیز شرعی احکام کاجانناہے خواہ کسی بھی زبان میں جانے۔ الحمد للہ اب اردو، ہندی اور انگلش ہر زبان میں وافر اسلامی لٹریچر موجود ہے جس کی مدد سے شرعی احکام کو جانا اور سمجھا جاسکتا ہے۔ لیکن بہت سے نوجوانوں کو ان کی طرف رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں۔راقم کا ارادہ یہ ہے کہ چند مضامین کے ذریعے ایسے افراد کی رہنمائی قرآن کے تراجم و تفسیر، حدیث ، فقہ ، سیرت، اسلامی تاریخ اور دیگر علوم کی غیر عربی کتابوں کی طرف کرے تاکہ لوگ اس سے مستفیض ہوں۔
زیر نظر مضمون اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے جس میں فقہ کی تین اہم کتابوں کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔ فقہ وہ علم ہے جس میں احکام شرعیہ فرعیہ کو تفصیلی دلائل کی روشنی میںسمجھا جاتا ہے۔ اسے عام زبان میں مسائل کا علم کہہ سکتے ہیں جس کا سیکھنا اپنی زندگی کو اسلامی خطوط پر ڈھالنے کے لئے بے حد ضروری ہے۔ عصری تعلیمی اداروں سے وابستہ نوجوانوں سے مکالمے کی بنیاد پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ آج کا نوجوان مسائل کو قرآن اور صحیح احادیث کی روشنی میں سمجھنا چاہتا ہے جس میں مروجہ مدارس کے فارغین انہیں مطمئن نہیں کرپاتے کیوں کہ فقہ اور فتویٰ نویسی کی روش اس سے مختلف رہی ہے اور ائمہ کے اقوال سے تو وہ واقف ہوتے ہیں لیکن ان کے دلائل اور مآخذ سے وہ عام طور پر واقف نہیں ہوتے۔ کچھ لوگ واقف بھی ہوتے ہیںتو اسے عوام کے سامنے لانا نہیں چاہتے ہیں کیوں کہ انہیں اپنا مسلک خطرے میں نظر آتا ہے۔ اس طرح کی تصانیف بھی جو کہ عام فہم ہوں اور جن میں ہر مسئلہ کی وضاحت قرآن اور صحیح احادیث کی روشنی میں کی گئی ہوں، کم ہیں۔ یہی وہ صفت ہے جو ان تینوں کتابوں کو اہم اور ممتاز بناتی ہے۔ اس لئے ان کا تعارف اس نیت سے پیش کیا جارہا ہے کہ لوگ ان سے واقف ہوکر مستفیض ہوں۔
فِقْہُ السُّنّہ از محمد عاصم الحداد : یہ مشہور و معروف عالم دین جناب محمد عاصم الحدادؒ کی تالیف ہے۔ کتاب اردو میں ہے اور دو حصوں پر مشتمل ہے جسے عام طور پر یکجا ہی شائع کیا گیا ہے۔ پہلا حصہ کتاب الطہارت، کتاب الصلوٰۃ اور کتاب الجنائز پر مشتمل ہے جب کہ دوسرا حصہ کتاب الزکوٰۃ، کتاب الصیام اور کتاب الحج و العمرۃ کے مسائل پر مشتمل ہے۔ مؤلف نے اس بات کا التزام کیا ہے کہ ہر باب اور ذیلی باب کے متن میں وہ مسائل نقل کئے ہیں جن پر مسالک اربعہ اور جمہور اہل حدیث کا اتفاق ہے یا پھر کم از کم ان مذاہب خمسہ کی اکثریت کا اتفاق ہے۔ اس سلسلے میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ قرآن و حدیث سے یا ان دونوں میں نص نہ ہونے کی صورت میں اجماع سے اس کی بنیاد کا ذکر کیا جائے۔ اس بات کا بھی التزام کیا گیا ہے کہ جو حدیث بھی نقل کی جائے وہ سند اور کتب حدیث کے حوالہ کے ساتھ نقل کی جائے۔ بعض ایسے مسائل جن میں ان پانچ مذاہب کا تو اتفاق ہے لیکن صحابہ یا ائمہ سلف میں سے کسی کا اختلاف ہے تو اسے حاشیہ پر دے دیا گیا ہے۔ اسی طرح جن مسائل میں حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ، حنبلیہ اور اہل حدیث علماء کا موقف الگ الگ ہے، ان کا ذکر متن میں نمبرات دے کر حاشیہ میں کیا گیاہے اور اختلاف کی وجہ بھی بتایٔ گئی ہے۔ واضح ہو کہ مسائل فقہیہ کے یہ اختلافات ترجیحات (Preferences)، تعبیرات اور تاویلات (Interpretations)کے اختلافات ہیں اور بیش تر فروعی اور جزیٔ مسائل میں ہی ہیں۔ ہر مسلک کی بنیاد کسی نہ کسی قرآنی آیت یا حدیث پر ہے، مسائل کے استخراج (Deduction) و استدلال (Argumentation) میں کسی نے ایک آیت یا حدیث کو ترجیح دی ہے تو دوسرے نے کسی اور آیت یا حدیث کو۔
چنانچہ مؤلف نے ہر مسلک کی بنیاد کس آیت یا حدیث پر ہے اسے اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے اور اسے بھی کہ فریقین کی ان آیات و احادیث کے متعلق کیا رائے ہے۔ مؤلف کا مقصد یہ ہے کہ ہر مسلک والے کو اپنے مسلک کی بنیاد معلوم ہو تاکہ قرآن و سنت پر عمل کا جذبہ بنا رہے، ساتھ ہی دوسرے مسالک کے مآخذ و دلائل کا بھی علم ہو تاکہ فکروں میں رواداری پیدا ہو اور تعصب دور ہو جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہر شخص صرف اپنے مسلک کا علم رکھتا ہے اور اسے ہی صحیح سمجھتا ہے اور دوسرے مسالک کو بے بنیاد خیال کرتا ہے۔ اس کتاب کو پاکستان میں الفیصل ناشران و تاجران کتب، اردو بازار، لاہور نے پہلی بار 1960ء میں شائع کیا اور اب تک اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ سنہ 2016 ء میں اس کا سولہواں ایڈیشن شائع ہوا جو راقم کے پیش نظر ہے جس کا پہلا حصہ 404 اور دوسرا حصہ 348 صفحات پر مشتمل ہے۔ ہندوستان میں اسے مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی نے کئی بار شائع کیا ہے، تازہ ترین ایڈیشن 2018 ء کا ہے جو 549 صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب کی زبان بھی سلیس ہے جسے اردو داں طبقہ بہ آسانی سمجھ سکتاہے۔
فقہ السّنّہ از سید سابق: یہ مصر کے معروف عالم سید سابق ؒ (1915-2000 ء) کی مشہور عربی تصنیف ’’فِقْہُ السُّنَّۃ‘‘ کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ کتاب کافی جامع ہے اور اسے اگر احکام و مسائل کا انسائیکلوپیڈیا کہا جائے تو مناسب ہے۔ اس میں عام فہم انداز میں زندگی کے تمام مسائل کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور سارے مسائل کتاب و سنت اور اجماع امت کے حوالوں کے ساتھ ذکر کئے گئے ہیں ۔ کتاب عوام الناس کے استفادہ کے لئے تحریر کی گئی ہے اس لئے اس میں دقیق بحثوں اور غیر ضروری فقہی اختلاف آراء کے بیان سے گریز کیا گیا ہے، ساتھ ہی دقیق فقہی اصطلاحات (Terminology) کے استعمال سے بھی پرہیز کیا گیا ہے۔یہ کتاب دراصل سید سابقؒ کی اجتہادی تحریر ہے جس پر انہیں 1994 میں شاہ فیصل ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا، انہوں نے کسی مسئلہ کو قرآن و سنت اور اجماع امت کی روشنی میں جس طرح سمجھا ہے اسے اسی طرح اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔ اختلافی مسائل میں عموماً اسی مسلک کا ذکر کیا ہے اور اسی کے دلائل نقل کئے ہیں جس کو انہوں نے اپنے نزدیک صحیح تر سمجھا ہے، دوسرے مسالک کو وہ نظرانداز کرگئے ہیں اور اگر کہیں دوسرے مسلک کا ذکر کیا بھی ہے تو اس کے دلائل کی طرف صرف اشارہ کردینے پر ہی اکتفا کیا ہے۔ تاہم انہوں نے حضرات ائمہ اربعہ اور دیگر فقہاء کی آراء کا احترام ملحوظ رکھا ہے اور ان پر تنقید سے گریز کیا ہے، کسی ایک فقہی مسلک کی تقلید نہیں کی ہے اور نہ ہی کسی مسلک کے لئے تعصب کا مظاہرہ کیا ہے بلکہ کھلے ذہن سے کتاب و سنت کی روشنی میں مسائل کا جائزہ لیا ہے اور جو رائے صائب و درست نظر آیٔ اس کی وکالت کی ہے۔ وہ خود لکھتے ہیں (ترجمہ): ’’یہ کتاب اس فقہ اسلامی کا ایک صحیح اور جامع تصور پیش کرتی ہے جسے ہمارے نبی کریم ﷺ پر مبعوث کیا گیا، یہ لوگوں کے لئے دین کے فہم کا باب کھولے گی اور انہیں اندھی تقلید اور مسلکی تعصب سے بچاکر کتاب و سنت پر جمع کرے گی اور اس باطل نظریہ کا رد کرے گی کہ اجتہاد کا دروازہ بند ہوچکا ہے۔‘‘
احقر کے پیش نظر جو ترجمہ ہے ، وہ پروفیسر ڈاکٹر عبد الکبیر محسن صاحب کا ہے جو کہ عام فہم، سادہ اور محاوراتی ہے۔اس میں ہر روایت کی تخریج کی گئی ہے جسے حاشیہ پر نقل کیا گیا ہے اور ہر روایت پر حضرت علامہ ناصر الدین البانیؒ کی تحقیق کے مطابق صحیح یا ضعیف کا حکم بھی لگایا گیا ہے۔ جہاں علامہ البانیؒ کا حکم نہیں ملا وہاں محدث حافظ زبیر علی زئی کا تحقیقی حکم لگایا گیا ہے ۔ مکتبہ اسلامیہ، لاہور سے 2015 ء کا شائع شدہ یہ نسخہ دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ پہلی جلد جو 687 صفحات پر مشتمل ہے ، اس میں طہارت کے مسائل، نماز کے مسائل، زکوٰۃ کے مسائل، روزوں کے مسائل، جنازے کے مسائل، ذکر کے مسائل ، اور حج و عمرۃ کے مسائل کی تفصیلات ہیں۔ دوسری جلد جو 848 صفحات پر مشتمل ہے، اس میں نکاح، طلاق، حدود و تعزیرات، جہاد ، غنائم و انفال، قسم، تجارت، زراعت، اجارت، لین دین، لقطہ، شکار، قربانی، عقیقہ، مشارکت، صلح، عدالتی معاملات، معاشرت، وقف و ہبہ، وصیت اور وراثت وغیرہ کے احکام و مسائل شامل ہیں۔
ہندوستان میں اس کتاب کا ترجمہ جناب ولی اللہ مجید قاسمی نے کیا ہے جسے المنار پبلشنگ ھاؤس، جامعہ نگر، نئی دہلی نے 2019 ء میں شائع کیا ہے۔ فاضل مترجم نے متن کتاب پر حواشی و تعلیقات کا اضافہ بھی کیا ہے جن میں بعض نکتوں کی وضاحت اور ان کی اپنی آراء شامل ہیں۔ یہ ترجمہ تین جلدوں اور کل 1700 صفحات پر مشتمل ہے۔ فقہ السنہ کا انگریزی ترجمہ بھی دستیاب ہے جسے امیریکن ٹرسٹ پبلی کیشن نے شائع کیا ہے۔ یہ پانچ جلدوں پر مشتمل ہے؛ پہلی جلد 214 صفحات، دوسری 176، تیسری 166، چوتھی 155 اور پانچویں 141 صفحات پر مشتمل ہے لیکن ان پانچ جلدوں میں صرف عبادات سے متعلق مسائل ہی شامل ہوپائے ہیں، باقی حصوں کا ترجمہ ایسا لگتا ہے کہ کسی وجہ سے نہیں ہوپایا ہے۔ بہرحال انگریزی جاننے والوں کے لئے یہ ایک بہترین تحفہ ہے جس کے ذریعہ وہ روزمرہ کے مسائل کو قرآن و سنت کی روشنی میں سمجھ سکتے ہیں۔ اس ترجمہ کو وِن سولیوشن (Win Solutions) نے ایپ کی شکل بھی دے دی ہے جو کہ iPhone, iPad, iPod touch, اور Mac سے ہم آہنگ ہے۔
فقہ الحدیث از حافظ عمران ایوب لاہوری : یہ کتاب دراصل امام محمد بن علی الشوکانیؒ کی فقہ کی مشہور کتاب ’’الدرر البھیۃ في المسائل الفقہیۃ‘‘ کی شرح ہے۔ترجمہ ، تشریح ، ترتیب و تخریج کا کام جناب حافظ عمران ایوب لاہوری نے انجام دیا ہے۔ ’’الدرر البھیہ‘‘ بہت سے سلفی مدارس کے نصاب میں شامل ہے لیکن بہت ہی مختصر ہے جس کی عربی زبان میں کئی شروحات لکھی گئی ہیں لیکن اردو زبان میں ’’فقہ الحدیث‘‘ اس کی واحد شرح ہے جو نہایت ہی محقق اور مدلل ہے۔ عبارت کے حل و تفہیم کے ساتھ فاضل مصنف نے احادیث کی تخریج و تحقیق پر پوری توجہ دی ہے، ساتھ ہی فقہی مذاہب کے اختیار کردہ موقف اور ائمہ اربعہ و دیگر ائمہ و فقہاء کے اقوال بھی مع حوالہ ہر مسئلہ کی وضاحت میں نقل کئے ہیں اور ان میں دلائل کی رو سے جو موقف راجح ہے اس کی وضاحت بھی کی ہے۔ مسائل کے استنباط میں قرآن اور صحیح احادیث کو ہی پیش نظر رکھا گیا ہے۔ ہر حدیث کے حوالہ کی ابتداء میںاس کے صحیح، حسن یا ضعیف ہونے کی نشاندہی کی گئی ہے جس میں علامہ ناصر الدین البانیؒ کی تحقیق پر اعتماد کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ جن دیگر محدثین و محققین سے استفادہ کیا گیا ہے ان میں امام نوویؒ، حافظ ابن حجرؒ، امام ہیثمیؒ، امام حاکمؒ، امام ذہبیؒ ، حافظ بوصیریؒ اور عصر حاضر کے محققین میں شیخ شعیب ارنؤط، شیخ عبد القادر ارنؤط، شیخ محمد صبحی حسن خلاق، شیخ علی محمدمعوض، شیخ عادل عبدالموجود اور شیخ حازم علی قاضی وغیرہ شامل ہیں۔
ائمہ اربعہ کے علاوہ جن دیگر ائمہ و فقہاء کے اقوال نقل کئے گئے ہیں ان میں امام ابن تیمیہؒ، امام ابن قیمؒ، امام نوویؒ، حافظ ابن حجرؒ، امام ابن قدامہؒ، امام ابن منذرؒ، علامہ ابن حزمؒ، امام صنعانیؒ، شمس الحق عظیم آبادیؒ، عبد الرحمٰن مبارکپوریؒ، نواب صدیق حسن خاںؒ، سید سابقؒ، علامہ ناصر الدین البانیؒ، شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازؒ، شیخ محمد بن صالح العثیمینؒ،شیخ ابن جبرین، شیخ ابن فوزان، شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ، شیخ عبدالرحمٰن سعدی، شیخ عبداللہ بن حمید اور سعودی مجلس افتاء کے علماء شامل ہیں۔ مذاہب اربعہ کے حوالہ جات کے لئے شیخ وھبۃ الزحیلیؒ کی معروف کتاب ’’الفقہ الاسلامی و أدلتہ‘‘ کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔
فاضل مصنف نے بہت سے ایسے جزئی مسائل کو جو نہ اصل کتاب میں موجود ہیں نہ ہی اس کی عربی شروحات میں، دیگر کتب فقہ سے تلاش کرکے کبھی متفرقات کے زیر عنوان تو کبھی بغیر عنوان کے ایک سیریل نمبر کے ذریعے نشاندہی کرتے ہوئے نقل کردیا ہے جس نے اس کتاب کو فقہی طور پر اور بھی جامع بنا دیا ہے۔ ترجمہ میں اردو عبارت کو بھی عام فہم اور آسان رکھا گیا ہے تاکہ عام افراد بھی اس کتاب سے استفادہ کرسکیں۔ نیز قارئین کی سہولت کے پیش نظرعلم حدیث اور فقہ سے متعلق ضروری اصطلاحات (Terms) کی مختصر وضاحت کتاب کے شروع میں ہی کردی گئی ہے۔ مقدمۃ الکتاب بھی کافی معلوماتی ہے جس میں فقہ کی تعریف، علم فقہ کی اہمیت، اس کے مآخذ، مختلف ادوار میں فقہ اسلامی کے ارتقاء، مذاہب اربعہ کا تعارف ، اور اختلاف فقہاء کے اسباب پر روشنی ڈالی گئی ہے نیز اجتہاد و تقلید سے متعلق چند اصولی باتوں کی وضاحت بھی کی گئی ہے۔ ان کے علاوہ امام شوکانیؒ اور شیخ البانیؒ کی سوانح حیات اور علمی خدمات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ فاضل مصنف کے اضافات نے ’’الدرر البھیہ‘‘ کی اس شرح کو ایک مستقل کتاب کی حیثیت دے دی ہے جو کہ عوام الناس کے لئے انتہایٔ مفید ہے۔
پاکستان میں اس کتاب کو فقہ الحدیث پبلی کیشنز، لاہور نے 2004 ء میں اور ہندوستان میں مکتبہ الفہیم، مئوناتھ بھنجن، یوپی نے 2011 ء میںشائع کیا ہے۔ پہلی جلد 752 صفحات اور دوسری جلد 814 صفحات پر مشتمل ہے۔ ہندوستانی ایڈیشن میں تقدیم کتاب ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری نے رقم کیا ہے۔پہلی جلد میں طہارت، نماز، جنازہ، زکوٰۃ اور روزے کے مسائل ہیںجبکہ دوسری جلد میں حج و عمرہ، نکاح، طلاق، تجارت، قسم و نذر، کھانے پینے، لباس، قربانی و عقیقہ، طب، وکالت، ضمانت، صلح، حوالہ، دیوالیہ ہونے، گمشدہ اشیاء، قضا و خصومت، حدود، قصاص، دیت، وصیت، وراثت، جہاد اور سیر کے مسائل شامل ہیں۔
آخر میں اردوداں طبقہ بالخصوص نوجوانوں سے یہ اپیل ہے کہ ان کتابوں کو اپنے گھروں میںضرور رکھیں اور ان کا مطالعہ بھی کریں۔ نیت اپنا جہل دور کرنے، علم کے ذریعہ اپنے اعمال کو درست کرنے اور اللہ کو راضی کرنے کی رکھیں، دوسروں سے بحث، مکالمہ، مناظرہ یا کسی کی تنقید یا تنقیص کرنے کی نیت سے علم حاصل نہ کریں۔ نیت اگر صحیح ہوگی تو اللہ رب العزت دین کی سمجھ ضرور عطا کریں گے۔یاد رہے کہ رسول پاک ؐ کا ارشاد ہے: ’’مَنْ یُرِدِ اﷲُ بِہِ خَیْرًا یُفَقِّھْہُ فِي الدِّیْن‘‘یعنی اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا کردیتا ہے۔(صحیح بخاری،کتاب العلم، جزو من رقم الحدیث 71، بروایت معاویہ بن سفیانؓ)۔ اللہ پاک اپنی اس عنایت سے نوازے اس کے لئے ضروری ہے ہم لوگ اس رخ پر اپنی جدوجہد کو مرکوزکریں اور اس سے ہدایت کے طلبگار ہوں۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو نفع بخش علم کے حصول کے لئے جدوجہد کرنے کا جذبہ عطا کرے ۔ آمین!
(رابطہ: موبائل 9471867108؛ ای میل: [email protected] )

Comments are closed.