میری یادوں میں برلن: ڈاکٹر عشرت ناہید کا خوب صورت سفرنامہ

کامران غنی صبا
شعبۂ اردو نتیشور کالج، مظفرپور
موسمی بخار اور نزلے سے طبیعت کافی بوجھل سی تھی۔ بچوں کو پیشگی اطلاع نہیں دی تھی اس لیے چھٹی لیتے ہوئے اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ اردو کا اکلوتا فیکلٹی ہونے کی وجہ سے اچانک سے چھٹی لینا غیر اخلاقی سا لگتا ہے. بچے دور دراز سے آتے ہیں۔ مجھے نہ پاکر یقیناً مایوس ہوں گے۔
کالج پہنچتے ہی ڈاکٹر عشرت ناہید (اسسٹنٹ پروفیسر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، لکھنؤ کیمپس) کی ڈاک ملی۔ لفاف میں ان کا سفر نامہ تھا، "میری یادوں میں برلن”۔ اس سفر نامہ کا سرورق فیس بک پر نظر سے گزرا تھا۔ سفرنامہ میں شامل پروفیسر خالد محمود کا تفصیلی مقدمہ روزنامہ "نیا نظریہ”(بھوپال) میں دو قسطوں میں شائع ہوا تھا، جسے پڑھ کر سفرنامہ تک رسائی کی تمنا مزید شدید تر ہو گئی تھی۔پھر یہ کہ جرمنی کے تعلق سے جاننے کا اشتیاق مجھے زمانۂ طالب علمی سے ہی رہا ہے۔جب میں آٹھویں جماعت میں تھاتو ڈوئچے ویلے کی اردو اور ہندی نشریات سننا میرا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ڈوئچے ویلے سے نہ جانے کتنی بار چھوٹے بڑے تحائف مجھے موصول ہوئے۔ اس وقت ریڈیو پر اپنے خطوط سن کر جو خوشی ملتی تھی اسے بیان کرنا مشکل ہے۔ اگر یہ کہوں کہ میری تحریری صلاحیت کو جلا بخشنے اور میرے اعتماد کو بحال کرنے میں ڈوئچے ویلے کا بہت اہم کردار ہے، تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا ۔
طبیعت کے اضمحلال کے وقت اگر کوئی تمنا پوری ہو جائےتو اضمحلال دور ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر عشرت ناہید کا سفرنامہ، میں نے سرسری نگاہ ڈالنے کی نیت سے کھولا تھا لیکن شاید میں یہ بھول گیا تھا کہ میں ایک افسانہ نگار کی نثر کا مطالعہ کرنے چلا ہوں۔ پروفیسر خالد محمود کا مقدمہ، اخبار میں پہلے ہی پڑھ چکا تھا۔ اظہار تشکر کے بعد سفرنامے کا پہلا باب "ان دیکھے خواب نے مانگی تعبیر” شروع کرتے ہی میں ڈاکٹر عشرت ناہید کے طلسمِ تحریر میں ایسا کھویا کہ ایک بجے سے کچھ پہلے ہمارے ایک کولیگ نے جب گھڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مخاطب کیا”سر آج جمعہ ہے، نماز پڑھنے نہیں جائیں گے آپ؟”تب کہیں جا کرمیں برلن سے واپس اپنے کالج پہنچا۔ ۔۔ شام کو کالج سے واپس آنے کے بعد میں نے پہلی فرصت میں سفرنامہ کے بچے ہوئے ابواب مکمل کیے۔
’’یادوں میں برلن‘‘ ایک مکمل اور کامیاب سفرنامہ ہے۔ اس میں صرف واقعات اور مناظر نہیں ہیں۔ایک معلمہ کا شعور ہے۔ ایک فن کار کی آگہی ہے۔ ایک مشرقی عورت کا زاویۂ نظر ہے۔ایک ہندوستانی کی تہذیبی و ثقافتی حس ہے۔کہیں افسانوی انداز ہےتو کہیں خاکہ اور انشائیہ کا حسن۔ کہیں فلش بیک کے ذریعہ حال سے ماضی اور ماضی سے حال کا سفر۔
ڈاکٹر عشرت ناہید ایک سنجیدہ اور معتبر افسانہ نگار کے طور پر اپنی شناخت رکھتی ہیں۔ انہیں اپنی بات کہنے کا سلیقہ آتا ہے۔ اظہار خوشی ہو یا اظہار رنج و غم، زمانے کا گلہ ہو یا تہذیب کا نوحہ، احتجاج کا سُر ہویا محبت کی راگنی، ڈاکٹر عشرت ناہید اعتدال اور توازن کی ڈور کو اپنے ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیتیں۔ ان کے اِ س سفرنامہ میں بھی یہ ساری خوبیاں اپنے کمال پر ہیں۔
ایک مردتخلیق کار یا فنکار جب کسی ملک کے سفر پر روانہ ہوتا ہے تو اس کے ساتھ صرف سامان سفر ہوتا ہےلیکن ایک مشرقی عورت سفر پر نکلتی ہے تو اپنے ساتھ سامان سفر کے علاوہ تفکرات کی ایک دنیا لے کر چلتی ہے۔ بچوں کو کون دیکھے گا؟ ان کے ہوم ورک کیسے بنیں گے؟انہیں اسکول کون بھیجے گا؟
مجھے بھی لمحۂ ہجرت نے کر دیا تقسیم
نگاہ گھر کی طرف ہے قدم سفر کی طرف
ڈاکٹر عشرت ناہید ایک اچھی معلمہ اور کامیاب افسانہ نویس ہیں لیکن جب وہ ایک ماں کے روپ میں ہمارے سامنے آتی ہیں تو صرف ماں نظر آتی ہیں۔ جرمنی کے لیے روانہ ہونے سے قبل بچوں سے رخصت ہوتے وقت کی کیفیت بہت ہی نفسیاتی ہے۔ وہ لکھتی ہیں:
’’کسی مفکر نے کہا ہے کہ عورت مکمل ہی تب ہوتی ہے جب وہ ماں بنتی ہے لیکن میں سمجھتی ہوں کہ عورت تو ماں بننے کے بعد صرف ماں ہی رہ جاتی ہے، اس کے لیے یہ جہاں، یہ کائنات، زمین آسمان سب سمٹ کر صرف ماں کا وجود بن جاتے ہیں، اس کی تمام تر سوچیں صرف اولاد تک محدود ہو کر رہ جاتی ہیں۔‘‘
ڈاکٹر عشرت ناہید نے اپنے سفرنامے کو سترہ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ یہ سبھی ابواب پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہیں پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم خود بھی شریک سفر ہیں۔ اہل جرمن کی طرز رہائش، ان کی تہذیب و ثقافت، ان کی مہمان نوازی، ادب دوستی، وفا شعاری، صداقت و راست بازی کا بیان کرنے کے باوجود یہ احساس باقی رہتا ہے کہ ڈاکٹر عشرت ناہید کو اپنے ملک کی تہذیب و ثقافت سے کس قدر پیار ہے۔
سفر نامہ کے بیچ بیچ میں چھوٹے چھوٹے جملے مصنفہ کی حساسیت کا پتہ دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر دہلی ایئر پورٹ پر مہاتما بدھ کے مجسمہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں:
’’وہیں لاؤنج کے بیچ میں راجکمار سدھارتھ (مہاتما بدھ) کا کانسے کا ایک بڑا سا مجسمہ نصب تھا، راجکمار کے لبوں پر وہی ازلی دلفریب مسکراہٹ سجی ہوئی تھی جو ان کی شخصیت کا خاصہ رہی تھی لیکن جانےکیوں مہاتما بدھ کے مجسمہ کو دیکھ کر عقیدت کے جذبات پیدا نہیں ہوئے بلکہ میانمار یاد آ گیا۔ میں نے مجسمے سے نظریں ہٹا لیں۔‘‘
بدھ کا مجسمہ دوسری بار برلن کے ایک ریسٹورنٹ میں مصنفہ کے سامنےآیا۔ یہاں بھی وہ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکیں:’’۔۔۔۔ لیکن پھر!!! یہ لیکن پھر، لمحہ بھر میں میری سوچ کو میانمار لے گیا جہاں رہنے والے مہاتما بدھ کے سفاک بھگتوں نے انہیں شرمندہ کر ڈالا اور لاکھوں مسلمانوں کے قتل کے مرتکب ٹھہرے۔ اب بدھ، میانمار لازم و ملزوم ہوگئے ہیں۔ یعنی جب بھی بدھ کی مورت سامنے آئے گی ایک سفاک قوم اور درد کا سمندر بھی ساتھ لائے گی۔ ‘‘
ڈاکٹر عشرت ناہید کے برلن سفر کی محرک وہ تقریب تھی جو سر سید ڈے کی مناسبت سے اردو انجمن برلن نے منعقد کی تھی۔ اس کا تذکرہ چوتھے باب میں ہے۔سفرنامہ کا یہ باب نسبتاً مختصر ہے۔ اس باب کو پڑھنے کے بعد تشنگی کا احساس باقی رہ جاتا ہے۔ یہ باب اگر رپورتاژ کے انداز کا ہوتا تو اسے مزید دلچسپ بنایا جا سکتاتھا۔
’’سلام اے خاتونِ اول‘‘عنوان کے تحت مصنفہ نے جرمنی کی سابق چانسلر انجیلا میریکل کے سیاسی اور سماجی کارناموں کا جائزہ لیا ہے۔ انجیلا میریکل تین بار جرمنی کی چانسلر رہ چکی ہیں۔وہ 22 نومبر 2005 سے 8 دسمبر 2021 تک جرمنی کی چانسلر رہیں۔ چانسلر رہتے ہوئے بھی ان کی زندگی انتہائی سادہ تھی۔مصنفہ نے انجیلا میریکل کا تقابل رضیہ سلطانہ سے کرتے ہوئےمرد سماج معاشرہ میں عورت کی جدوجہد اور اس کے عزم و حوصلے کی کئی ان کہی داستان پیش کر دی ہے۔
ڈاکٹر عشرت ناہید نے اپنے سفرنامے میں کئی جگہ تاریخی حوالوں کو بھی ٹچ کرنے کی کوشش کی ہے۔ مختلف واقعات کے بیان میں جزئیات نگاری قاری کو باندھے رکھتی ہے۔ کئی جگہ تہذیب اور حالات و اقعات کا تقابل مصنفہ کے گہرے فکری شعور کا غماز ہے۔
مجموعی اعتبار سے برلن کا یہ سفرنامہ ایک دلچسپ، اثر انگیز اور بھرپور سفرنامہ ہے۔ اس کا انداز تحریر ہر خاص و عام کو اپنی طرف کھینچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ کتاب کے آخر میں شامل رنگین البم ذوقِ بصارت کو تسکین فراہم کر رہا ہے۔
164 صفحات پر مشتمل یہ خوب صورت سفرنامہ جی این کے پبلی کیشنز، بڈگام سے شائع ہوا ہے۔ قیمت صرف 250 روپے ہے۔ رابطہ جی این کے پبلی کیشنز 7006738304
Comments are closed.