ہندوستانی طلبا میڈیکل تعلیم کیلئے بیرون ملک کیوں جاتے ہیں؟

میڈیکل تعلیم کے لئے ہر سال ہزاروں ہندوستانی طلبا بیرون ملک جاتے ہیں۔ چین‘ یوکرین‘ فلپائن اور روس ان کی نہایت پسندیدہ منزلیں ہیں۔ جنگ زدہ ملک یوکرین‘ یوروپ میں گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ میڈیکل طلبا کی تعداد کے لحاظ سے چوتھے نمبر پر ہے۔ تقریباً 18 ہزار 95 ہندوستانی طلبا یوکرین میں ہیں۔ بعض کو وطن واپس لایا جاچکا ہے۔ 2020 میں یوکرین میں 24 فیصد سمندرپار طلبا کا تعلق ہندوستان سے تھا۔ ہندوستان کے سرکاری کالجوں میں میڈیکل سیٹس کی قلت اور پرائیویٹ میڈیکل کالجس میں بھاری بھرکم فیس ہندوستانی طلبہ کے باہر جانے کی اصل وجہ ہوسکتی ہے لیکن بعض کا کہنا ہے کہ متوازی چلنے والا فیک بزنس ماڈل اس کے لئے ذمہ دار ہے۔
مختلف ملکوں کی فارن یونیورسٹیز کے ساتھ کام کرنے والی ایجنسیوں کو فی امیدوار 50 ہزار تا ایک لاکھ روپے ملتے ہیں۔ مہاراشٹرا سے تعلق رکھنے والاایک طالب علم جن کانام اومکارہے، جو یوکرین کی ایک نیشنل میڈیکل یونیورسٹی سال سوم کا طالب علم ہے‘ اس نے بتایا کہ طلبا یہاں قابل استطاعت فیس کی وجہ سے آنا چاہتے ہیں۔ ہندوستان میں پرائیویٹ میڈیکل کالجس میں سالانہ 10 لاکھ تا 15 لاکھ روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں جبکہ یہاں 3لاکھ تا 4 لاکھ روپے میں کام بن جاتا ہے۔
اومکار نے تاہم مانا کہ تعلیم ہندوستان کے مقابلہ یہاں اچھی نہیں ہے لیکن 6 سال بعد ایم سی آئی/ نیٹ امتحان پاس کرنے کے بعد ہمیں ایم بی بی ایس کی ڈگری مل جاتی ہے۔ ہندوستان میں ہم لوگ نیٹ امتحان پاس کرنے میں کئی سال ضائع کردیتے ہیں۔ یوکرین میں 3 آپشن نیشنل یونیورسٹی‘ اسٹیٹ یونیورسٹی اور پرائیوٹ یونیورسٹی دستیاب ہیں۔ اس نے کہا کہ تعلیم کے کوالٹی پیرامیٹر کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ہندوستان اور بیرون ملک زیادہ فرق نہیں ہے۔ ہمیں 80 فیصد اسٹڈی ویڈیو لکچرس اور کتابوں کے ذریعہ کرنی ہوتی ہے جو بڑی حد تک ہندوستان جیسا معاملہ ہے۔
پریکٹیکل میں ہندوستان کی طرح یہاں زیادہ آپشن نہیں ہیں لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہمیں یہاں ایم بی بی ایس کی ڈگری مل جاتی ہے۔ فیڈریشن آف آل انڈیا میڈیکل اسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر روہن کرشنن کا کہنا ہے کہ ہندوستانی طلبا کے باہر جانے کی اصل وجہ صرف ہندوستان کے پرائیویٹ میڈیکل کالجس میں بھاری بھرکم فیس نہیں ہے بلکہ ملک میں فیک بزنس جاری ہے۔
کئی ایجنسیوں کی یوکرین‘ روس‘ چین اور فلپائن کے کالجوں سے ملی بھگت ہے۔ ان ایجنسیوں کو فی امیدوار 50 ہزار تا ایک لاکھ روپے کا گڈ کٹ (اچھا کمیشن) ملتا ہے جس کے لئے کئی ایجنسیاں نوجوانوں کے ذہنوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتی ہیں۔ وہ نوجوانوں کو خواب دکھاتی ہیں۔ وہ ان سے کہتی ہیں کہ بیرون ملک تعلیمی معیار اچھا ہے۔ بیرونِ ملک میڈیکل تعلیم کے بعد وہ ایک جھٹکے میں فارن میڈیکل گریجویٹ اکزامنیشن پاس کرسکتے ہیں جو حکومت ہند کا نیشنل میڈیکل کمیشن (این ایم سی) منعقد کرتا ہے۔
ڈاکٹر کرشنن نے دعویٰ کیا کہ یہ جاگتی آنکھوں کا خواب ہے کیونکہ ہندوستان میں ایف ایم جی ای میں کامیابی کی شرح صرف 5 فیصد ہے۔روس‘ یوکرین اور دیگر ممالک میں اس امتحان کے لئے تیار نہیں کرایا جاتا۔ وہاں اس کا کوئی انتظام ہی نہیں ہے تاہم بیرون ِ ملک تعلیم سستی ضرور ہے لیکن تربیت ہندوستان کے مقابلہ اچھی نہیں ہے۔ بیشتر ہندوستانی طلبا کا ”کلینکل ایکسپیرینس“زیرو ہوتا ہے۔
بیشتر یوکرینی مریض‘ ہندوستانیوں سے طبی معائنہ نہیں کرانا چاہتے۔ ٹریننگ اتنی خراب ہوتی ہے کہ بیشتر ہندوستانی طلبا ایف ایم جی ای امتحان پاس ہی نہیں کرپاتے۔ ڈائرکٹر پروفیسر اینڈ ہیڈ ڈرمٹالوجی رام منوہر لوہیا ہاسپٹل ڈاکٹر کبیر سردنا نے کہا کہ اس عمل میں ایجنٹوں کی چاندی ہوتی ہے۔میکس ہاسپٹل میں سینئر ڈائرکٹر انٹرنل میڈیسن ڈاکٹر آشوتوش شکلا نے کہا کہ میڈیکل ڈگری کے لئے 3 آپشن ہیں۔
اچھے نمبروں کے ساتھ نیٹ پاس کرکے سرکاری میڈیکل کالج میں یا پرائیوٹ میڈیکل کالج میں داخلہ لیا جائے۔ آخری آپشن کم فیس کے ساتھ بیرون ملک روانگی کا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کم فیس ہی ہندوستانی طلبا کو راغب کرتی ہے لیکن انہیں بیرونی ممالک میں میڈیکل تعلیم کی تکمیل کے بعد ہندوستان میں پریکٹس کے لئے فارن میڈیکل گریجویٹس اکزامنیشن (ایف ایم جی ای) پاس کرنا پڑتا ہے۔
(بشکریہ :منصف ڈاٹ کام)

Comments are closed.