اللہ رحم کرے!

سمیع اللہ ملک
عالمی منظرنامے میں امر یکااورچین کے درمیان کشمکش کی جھیل وسیع ترہوتی جارہی ہے۔اس کابرملااظہارامریکابہا درنیعالمی جمہو ری ورچوئل کانفرنس میں چین کی بجائے تائیوان کو مدعوکرکے کیاتھا۔پاکستان کیلئیاس امرمیں تشویش یوں اورزیا دہ بڑھ گئی تھی کہ اس نے پا کستان کوبھی مدعو کرلیاتھا۔امریکاکیلئیپاکستان کے چین سے برادرانہ تعلقات ڈھکے چھپے نہیں۔پاکستان میں کسی بھی سیاسی پارٹی کی حکومت ہو،وہ امریکااورچین کے ایک دوسرے کے آمنے سامنے آجانے کی صورت میں اپناوزن چین ہی کے پلڑے میں ڈالے گی خصوصا ًاس نازک مو قع پراسلام آبادمیں”کانکیلو2021″سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کایہ کہنادرست تھا کہ پاکستان کسی سیاسی بلاک کاحصہ بننے کی بجائے امریکااور چین کے درمیان فاصلے کم کرنے کیلئے اپنا کرداراداکرنے کا خواہش مندہے۔
چین امریکاتعلقات میں پاکستان کاتاریخی کرداردونوں ملکوں کی یادداشت کاحصہ ہے،اگرچہ اس وقت معاشی اورعالمی سیاسی بالادستی کی رسہ کشی نے چین اورامریکاکوایک دوسرے کے مقابل لاکھڑاکیاہے مگراس کے اثرات عالمی معیشت اورامنِ عالم کیلئے سودمندنہیں چنانچہ پاکستان کی یہ خواہش دوطرفہ اخلاص پرمبنی ہے لیکن اس کے اثرات کیاہوں گے،اس حوالے سے کچھ کہنا آسان نہیں کیونکہ جب مفادت کاٹکرااتناکھل کرسامنے آجائے اوردرپیش حالات مزیدسنگین ٹکراؤکی جانب اشارہ کرتے ہوں تودو عالمی طاقتوں کے مابین خلیج کوکم کرنے کی خواہش کی تکمیل کے امکانات بہت کم ہوجاتے ہیں۔بہرکیف اس صورتحال کوسمجھنے میں امریکاکومزیدتاخیرنہیں کرنی چاہیے کیونکہ آج کاچین سردجنگ کے دنوں والے روس جیسانہیں بلکہ یوں کہناچاہیے کہ موجودہ روس بھی ماضی کے سوویت یونین سانہیں۔یہ ایک ایسی بدیہی حقیقت ہے کہ دنیامیں طاقت کے محورتبدیل ہوچکے ہیں۔
پچھلی دو دہائیوں کے دوران امریکاکے اپنے مس ایڈونچرزنے اس عمل کی رفتارکومہمیزکیا۔ہم افغانستان کے حالات کے تناظرمیں اس خطے کی صورت حال اورعلاقائی اقوام کی ترجیحات کا اندازہ کرسکتے ہیں کہ دہشتگردی،امریکی جنگ اورعدم تحفظ کے ماحول نے ان ممالک کوعلاقائی سطح پرمضبوط گٹھ جوڑبنانے کی جانب راغب کیاہے۔چین کے تعلقات اس خطے کے ممالک کے ساتھ پہلے بھی بہت بہترتھے،پاک چین تعلقات کے حوالے سے یہ بڑی واضح حقیقت ہے،مگرپچھلے بیس برسوں کے دوران اس خطے میں امریکی مداخلت کے نتیجے میں پیداہونے والے حالات نے یہاں کے ممالک کیلئیچین کے ساتھ علاقائی معاشی تعلق کومضبوط کرنے کے آپشن کوحالات کالازمہ بنادیاہے۔ان دودہائیوں کے دوران جب امریکی جنوبی ایشیااورمشرقی وسطی میں مس ایڈونچرزمیں مصروفِ عمل تھے،چین اورروس نے خودکومعاشی،صنعتی،دفاعی اورسیاسی لحاظ سے بامِ عروج تک پہنچایااورخودکو ایسا پارٹنربناکرپیش کیا جس پراعتبارکیاجاسکتاہے۔
اب امریکاکیلئے اس حقیقت کوماننامشکل ہورہاہے مگریہ حقیقت ہے اوراس کوقبول کیاجاناہی اس سیارے کے باسیوں کیلئے موزوں ہوگا۔آج دنیاجن مصائب کاسامناکررہی ہے وہ ماضی کے مقابلے میں کہیں بڑے ہیں مگرہم نہیں کہہ سکتے کہ انسانوں کودرپیش چیلنجوں کی یہی آخری حدہے۔کوروناوائرس کی مسلسل تغیرپذیرصورتوں کوہی دیکھ لیں،یہ واضح اشارہ ہے کہ قدرت اس عالمِ رنگ وبومیں ہم انسانوں کوچیلنجوں سے مسلسل نبردآزمادیکھناچاہتی ہے۔کوروناوباہی سے ہمیں یہ سمجھنے کاموقع ملتاہے کہ دنیاکی بڑی معاشی اورسائنسی قوتیں بھی انفرادی سطح پران چیلنجوں سے نہیں نمٹ پارہی ہیں۔ویکسین کے معاملے میں بھی دنیادھڑے بندی اورسیاست کا شکارہوئی اورچینی اورروسی ویکسینزکوقابل اعتبارسائنسی شواہد کے بغیرمغرب اورمغرب کے حاشیہ نشین کم تردرجے کاثابت کرنے پرتلے رہے۔
جس وقت دنیاکووائرس سے دفاع کے کسی بھی ذریعے کی اشدضرورت تھی مغرب نے ویکسین سیاست سے عالمی سطح پرخوفناک ابہام پیداکیااوراس کے اثرات کوروناوباکے خطرات میں اضافے کی صورت میں سامنے آئے۔اگرکوروناکے خلاف جدوجہدمیں دنیاایک پیج پرہوتی توبعیدنہیں کہ یہ وبااب تک ماضی کاایک قصہ بن چکی ہوتی، مگرسیاست کی نذرہونے سے اس کے خطرے بدستورموجودہیں اوران دنوں دنیاامیکرون سے نمٹنے کی تیاری کررہی ہے۔یہ حالات ہمیں اجازت نہیں دیتے کہ عالمی تفرقہ بندی کی حمایت کریں۔اس پس منظرمیں پاکستان کایہ موقف حقیقت پرمبنی اورقومی مفادکا تقاضاہے۔اس دوران جب دنیابڑی تیزی سے بلاکس میں تقسیم ہورہی ہے،کوئی توہوجوبلاکس کی بجائے پوری انسانیت کے مفادکی بات کرے،مگرپاکستان یادیگرہم خیال ممالک کچھ نہیں کرسکتے اگرعالمی قوتیں خودہی ٹکراؤسے اجتناب کی واضح کوشش نہ کریں۔ تاہم عالمی قوتیں کس طرح حالات کو تناؤ کاشکاررکھنے کاکوئی موقع جانے نہیں دیتیں اس کی ایک مثال ہمیں امریکی صدرکی حالیہ ورچوئل عالم جمہوری کانفرنس کے دوران ملی جس میں امریکاکی جانب سے چین کودعوت دینے کے بجائے تائیوان کواس کانفرنس میں مدعوکیاگیا۔چین کیلئے یہ صورت حال کسی طورقابل برداشت نہیں ہوسکتی تھی چنانچہ اس پرچین کاجوردعمل آیااسے فطری ہی کہاجائے گا۔ کسی عالمی مقصدپرکوئی کانفرنس ہو،عالمی معیشت کومتحرک کرنے کے مواقع یاانسانوں کودرپیش چیلنجز،تسلی بخش پیش رفت عالمی یکجہتی سے مشروط ہے۔چاہیے تو یہ کہ عالمی رہنمااس مشن میں دنیاکی رہنمائی کرتے مگرسیاست میں الجھ کران مواقع کوضائع کیاجارہاہے۔
یقیناعالمی حالات اورافغانستان کے معاملات نے اس خطے کوایک تغیرپذیرصورت حال سے دوچارکردیاہے،جس میں پاکستان ایک دوراہے پرکھڑاہے۔ہمیں کیاراستہ اختیارکرنا ہے؟اس کاواضح تعین کرنے کی ضرورت ہے اوریہ واضح تعین ہونے تک محتاط حکمت عملی اختیار کرناہمارے لیے زیادہ سودمندہوگا۔تاہم ایک بات طے ہے کہ پا کستان کسی بھی صورت میں چین کوناراض کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتاچنانچہ خطے میں پاکستان جوبھی فیصلہ کرے،اسے چین کواعتمادمیں لے کرکرناہوگا۔تاہم پاکستان کودباؤمیں لانے کیلئے ابھی تک ایف اے ٹی ایف نے گرے لسٹ سے نکالانہیں اوراس پرمستزاداب آئی ایم ایف کے دباؤمیں لاکرسی پیک میں بڑی تبدیلی کی سازش کی جارہی ہے تاکہ پاکستان کے تعلقات چین کے ساتھ خراب کرکے اسے خطے میں تنہاکیاجاسکے جس طرح 1970 میں پاکستان کودولخت کرنے کیلئے پیشگی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔۔۔۔اب حالات بہت مختلف ہیں لیکن دشمن بھی بڑاشاطر ہے اورہماری قوم میں درجنوں کے حساب سے ایجنٹ ہروقت میسررہتے ہیں۔اللہ رحم کرے!
Comments are closed.