قرآن کریم کی روشنی میں دعوت اتحاد و اتفاق

کلیم شاہد دھنبادی
مدیر: فراست ( آن لائن میڈیا )
9693675520
kalimshahid5@gmail
عصر حاضر میں قوم مسلم کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو دین کے کسی بھی شعبہ سے منسلک و وابستہ ہے، وہ اپنے ہی شعبہ کو مکمل دین سمجھ کر دیگر تمام شعبوں سے قطع نظر کرلیتا ہے اور آیت "كُلُّ حِزبٍ بِمَا لَدَيهِم فَرِحُون [ مؤمنون ۵۳ ] ( ہر گروہ کے لوگ اسی پر سرمست ہیں جو ان کے پاس ہے ) کے مصداق ہو جاتا ہے۔
صاحب تیسیرالقرآن اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : انبیاء کرام علیہم السلام کی شریعت میں زمان و مکان کی وجہ سے احکامات میں فرق ہوا کرتا تھا ؛ لیکن ان کا دین ایک اور اس دین کے کچھ بنیادی اصول یکساں تھے جو مندرجہ ذیل ہیں :۔
۱. توحید، ۲. قیامت، ۳. اکل حلال، ۴. عمل صالح۔
لیکن لوگوں نے اصول دین میں اختلاف کر کے سیکڑوں فِرقے بنالیے اور ان فرقوں میں بھی آپسی انتشار و رنجش کے شعلے اس قدر بھڑکے ہیں کہ باہمی محبتیں خاکستر ہو گئیں اور نفرتوں کی اونچی اونچی عمارتیں تعمیر ہو گئیں ۔
صاحب تیسیرالقرآن آگے تفسیر کرتے ہیں : ان کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا لازمی نتیجہ ہے کہ جب کوئی شخص ہر حال میں اپنے گروہ کو قائم رکھنے پر اَڑ جاتا ہے تو اس کے دل میں حقیقت کی تلاش و جستجو کا جذبہ ناپید ہوجاتا ہے اور اسے اپنے ہی شعبہ کی ہر بات بھلی معلوم ہوتی ہے اور وہ اسی پر خوش و خرم رہتا ہے ؛ حالانکہ ہمارے پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ایسا معلم بناکر مبعوث فرمایا ہے کہ گمراہ کو راہ راست کی راہنمائی کرے۔
اللہ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا :” لَقَد مَنَّ اللّٰه عَلَى المُؤمنين إذ بَعَثَ فِيهِم رَسُولاً مِن أنفُسِهِم يَتلُوا عَلَيهِم آيٰتِهٖ وَيُزَكّيهِم وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتٰبَ وَالحِكمَةَ وَإن كَانُوا مِن قَبلُ لَفِى ضَلٰلٍ مُّبِين [ آل عمران ۱۶۴ ] ( بلاشبہ یقیناً اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں پر احسان کیا جب اس نے ان میں ایک رسول انہیں میں سے مبعوث فرمایا، جو ان پر اس کی آیات پڑھتا، انہیں پاک کرتا اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ بلاشبہ وہ اس سے قبل یقیناً کھلی گمراہی میں تھے )۔
اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ ارشاد فرمایا! (رب خلیل کی دعا ) رَبَّنَا وَابعَث فِيهِم رَسُولاً مِنهُم يَتلُوا عَلَيهِم آيٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتٰبَ وَالحِكمَةَ وَيُزَكِّيهِم [ البقرۃ ۱۲۹ ] ( اے ہمارے رب! ایک ایسا پیغمبر مبعوث فرما جو آپ کے کلام کی تلاوت لوگوں کو سنائے، آپ کی کتاب و حکمت کی تعلیم دیوے اور لوگوں کے قلوب کا تزکیہ یعنی پاکی و صفائی کردے )
حضرت سید عشرت جمیل میر صاحب مدظلہ العالی نے اپنے پیر و مرشد ” عارف باللہ مجدد زمانہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب نوراللہ مرقدہ خلیفۂ مجاز محی السنہ حضرت مولانا شاہ ابرارالحق ہردوئی رحمۃ اللّٰہ علیہ ” کے مواعظ سے خزانہ جمع کرتے ہوئے اپنی کتاب ” بعثت نبوت کے مقاصد ” میں لکھتے ہیں : يُعَلِّمُهُمُ الكِتٰبَ وَالحِكمَةَ” سے مدارس و مکاتب کے قیام و نفاذ کی طرف اشارہ ہے۔
صاحب تفسیر روح المعانی علامہ آلوسی بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے يُعَلِّمُهُمُ الكِتٰبَ کی تفسیر يُفَهِّمُهُم ألفَاظَهُ یعنی جو قرآن کے الفاظ کو سمجھائے اور اس سے عربی درجات کی تعلیم کا ثبوت ہے وَيُبَيِّنُ لَهُم كَيفِيَّةَ أدائِهٖ اور ہر لفظ کی کیفیتِ ادا کو سمجھائے اور اس سے درجۂ تجوید و قرأت کا ثبوت ملتا ہے، اور اگر اسے حدیث کے باب میں دیکھیں تو اللہ کے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: ألقُرآن نُزّلَ عَلىٰ سَبعَةَ أحرُفٍ یعنی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو سات لغات پر نازل فرمایا ہے اور اس حدیث سے قرأت سبعہ مراد ہیں ۔
وَيُبَلِّغُ إلَيهِم أحكَامَه یعنی اس کے احکامات لوگوں تک پہنچا دیوے اور اس سے تبلیغ کا ثبوت ملتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے حکم دیا!يَا أيُّها الرّسُولُ بَلِّغ مَا اُنزِلَ إلَيكَ مِن رَّبِّك کہ اے نبی جی! جو کچھ بھی آپ پر آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اسے لوگوں تک پہنچا دیجئے۔
اور وَيزَكِّيهِم سے خانقاہوں کے قیام و نفاذ کی طرف اشارہ ہے کیونکہ اس میں گندے دل کو صاف کیا جاتا ہے، خدا کے عشق و محبت سے لبریز کیا جاتا ہے اور لَا إلٰهَ کے ذریعے تمام آلائشات و غیراللہ کو دل سے خالی کیا جاتا ہے اور إلَّا اللّٰه کے ذریعے خدا کی وحدانیت و کبریائی کی شناخت سے دل کو پرنور کیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے خانقاہوں کو مصفی و مزکی کا مرکز بھی کہا جاتا ہے۔
وَالحِكمَةَ کی تفسیر صاحب تفسیر روح المعانی علامہ آلوسی بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ کرتے ہیں حَقَائقَ الكِتٰبِ وَ دَقَائِقَه یعنی وہ معلم کتاب اللہ کے حقائق و اَسرار و حِکَم اور اس کی باریکیاں بتائے طَرِيقَ السُّنَّةِ جو حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سنت کا طریقہ سکھلائے اور سنت کا ہر طریقہ حکیمانہ ہے۔
دین ایک جسم اور اس کے شعبے اعضائے جسمانی کے مانند ہیں اگر جسم کے کسی بھی عضو میں تکلیف ہو تو پورا جسم بے قابو ہوجاتا ہے، اسی طرح دین کے کسی بھی حصے میں کمی آئے تو تمام شعبے بے قابو ہوجاتے ہیں اور دین میں کمزوری پیدا ہوجاتی ہے، اس لئے لازم ہے کہ ہم فرقوں میں نہ بٹیں ، اور اتحاد و اتفاق کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھیں ، دین و دنیا کی کامیابی اسی میں مضمر ہے ۔ اللہ ہمیں اس کی توفیق دے ۔
خالد تمام جسم سے رشتہ ہے درد کا
کیسے بتاؤں کہ ٹوٹے ہیں کتنے کہاں سے ہم
Comments are closed.