غزہ پٹی پر لگاتار اسرائیلی حملے!! تحریر: محمد صابر حسین ندوی

غزہ پٹی پر پچھلے دو دنوں سے لگاتار میزائیل داغے جارہے ہیں، فضا شعلے اور دھوئیں سے اَٹی ہوئی ہے، گھر مسمار ہے چکے ہیں، عالیشان اور بلند و بانگ عمارتیں زمین دوز ہوچکی ہیں، اسرائیلی فورسز نے اسے ٹویٹ کرتے ہوئے خود دنیا کے سامنے رکھا اور لگاتار فساد مچائے جارہے ہیں، تصاویر دل اندوز ہیں، جس شخص کے سینے میں دل. ہو وہ تبا نہیں لا سکتا کہ ظلم کا یہ ننگا ناچ دیکھے، بچے یتیم ہورہے ہیں، چار بچیوں کی ایک تصویر وائرل ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ان کے گھر کو اجاڑ دیا گیا، ان کے والدین شہید کر دئے گئے، انہیں بے بس اور مجبور کر دیا گیا، ایک تصویر میں معمر خاتون کو زخمی، خون آلود اور بلکتے ہوئے دکھایا گیا ہے، ان کی آنکھوں سے نکلنے والے آنسو چیخ چیخ کر دنیا کو کہہ رہے ہیں کہ اے امن و آشتی کے ٹھیکیدارو! تم کہاں ہو؟ نہتے شہریوں پر حملے ہورہے ہیں، غزہ کو قید خانہ بنا کر ان سب کو فرداً فرداً موت کے گھاٹ اتار جارہا ہے؛ گویا یہ کوئی انسانی مذبح ہے جہاں فلسطینیوں کی قربانی دی جارہی ہے، باری باری سبھوں کو موت میں منہ میں پھینکا جارہا ہے، ہفتہ، مہینہ گزرتا نہیں کہ دوبارہ حملہ کردیا جاتا ہے، چین و راحت کا ایک پل نصیب نہیں ہوتا کہ بے قراری دامن سے چمٹ جاتی ہے، بلاشبہ اسرائیل اپنے گریٹر اسرائیل کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے اور خیبر تک پہنچنے کی راہ ہموار کرنے کی خاطر ہر طرح ہتھیار اور اسلحے استعمال کر رہا ہے، ناجائز طور پر فلسطینی سر زمین پر قابض ہوجانے کے بعد وہاں کے اصل کو باشندوں کو زہر کا گھونٹ دیا جارہا ہے، زمین کی وسعت تنگ کی جارہی ہے، ان کیلئے دانا پانی اور حقہ بند کیا جارہا ہے، ان پر سورج کی شعاعوں کو پڑنے سے بھی روکا جارہا ہے، چاند کی چاندنی سے بھی محروم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، کیا ان کی زندگی میں صرف لاشیں اٹھانا، اپنے بچوں کو یتیم کرنا، عورتوں کو بیوہ کرنا اور مردوں کو بے قصور موت کے گھاٹ اتار دینا ہی لکھا ہے، کیا انہیں جینے کا حق نہیں؟ کیا ان کیلئے عالمی وسائل اور پیداوار میں کوئی حصہ نہیں؟ انہیں یوں تن تنہا کیوں چھوڑ دیا گیا ہے؟ اگر یورپ میں کسی جگہ فساد مچ جائے تو دنیا کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں، امریکہ میں کہیں ایک گولی چل جائے تو ہر طرف سے مذمتی بیانات جاری ہونے لگتے ہیں؛ لیکن کیا بات ہے کہ غزہ و فلسطین کی جانیں رائیگاں جارہی ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں، اگر وہی مظلوم پلٹ کر حملہ کردیں اور میزائل داغنا شروع کردیں تو امن پسندی کے علمبردار چیخنے چلانے لگتے ہیں، سینہ کوبی کرنے لگتے ہیں، ہائے ہائے دیکھئے! یہ دہشت گرد کیا کر رہے ہیں؟ دیکھیے! یہ چند اوباش اور اسلحہ پسند دنیا میں بدامنی پھیلانا چاہتے ہیں؟ لیکن یہی ظالم جب ان مظلوموں کو ٹارگٹ کرتے ہیں تو سبھی کے منہ دہی جم جاتی ہے، اپنے ہونٹ سل لیتے ہیں، آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور اپنے کان میں روئی ڈال لیتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ غزہ کو گویا دنیا سے الگ کردیا گیا ہے، انہیں بَس نقشے سے مٹانے کی دیر ہے جو تقریباً ہو چکا ہے، یہ سمجھ لیا گیا ہے وہ اس دنیا کے باشندے نہیں، وہ کوئی خلائی مخلوق ہیں، انہیں جینے کا کوئی حق نہیں، وہ پیدا ہی مرنے کیلئے ہوئے ہیں، مگر پھر یہ آزادی کے نعرے، حقوق کی تنظیمیں اور عالمی ریفارم کی باتیں کیوں کی جاتی ہیں؟ کیوں اربوں کا بجٹ بنایا جاتا ہے اور فضول خرچی کی جاتی ہے؟ کیوں دنیا کو امن و آشتی کا خواب دکھایا جاتا ہے؛ حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ جنگ میں ہی امن ہے، جو لوگ اس طرح کے نعرے بلند کر رہیں وہ لگاتار جنگ کر رہے ہیں، وہ بھی دو طرفہ نہہ بلکہ یک طرفہ خون کی ہولی کھیل رہے ہیں، مگر افسوس اس حقیقت پر پردہ ڈال دیا گیا ہے! اور اپنی شفافیت کی چادر پھیلا دی گئی ہے، حق تو یہ ہے کہ پوری دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل کا قیام ناجائز ہے، انہوں نے لاکھوں فلسطینیوں کو شہید کیا ہے، اس کے باوجود ابھی اس کے بغل میں کھڑے ہیں، عالم عرب ہو کہ یورپ کے جدید اذہان و ترقی کے معمار، امریکی دنیا ہو کہ ایشیائی و افریقی ممالک ہر طرف سناٹا پسرا ہوا ہے، ہم جانتے ہیں کہ یہ سب قیامت کی نشانیاں ہیں، دنیا اپنے انجام کو پہنچ رہی ہے، یہودی اپنی قبر خود کھود رہے ہیں، چار ہزار سالہ ان کے جرائم کی سزائیں ابھی باقی ہیں، قیامت سے پہلے پہل وہ ضرور بالضرور اپنے انجام کو پہنچیں گے؛ لیکن اس وقت جو لوگ دستور زبان بندی پر عمل پیراں ہیں ان کیلئے بھی مستقبل روشن نہیں، جنہیں لگتا ہے کہ اسرائیل کی گود میں بیٹھ کر اپنے اپنے ممالک کو ترقی دے سکتے ہیں، بڑے بڑے پروجیکٹ اور منصوبے روبہ عمل لاسکتے ہیں، ان کے خواب چکنا چور ہوجائیں گے، دنیا میں حق کی آمد شیطانی نظام میں کھلبلی مچا دینے اور انہیں جڑ سے اکھاڑ دینے کیلئے ہوئی ہے، گرچہ وقتی طور پر وہ گرد آلود ہوجائے یا گردش زمانہ میں اسے فراموش کردیا جائے؛ لیکن یہ وہ بیج ہے جو موسم کی سختی اور وسائل کی کمی کے باوجود زمین کا سینہ پھاڑ کر نکلے گا، وہ بارآور ہوگا، ثمر آور ہوگا اور انسانیت کی یہ کھیتی لہلہائے گی، سو ہر ایک فکر کرے کہ وہ کس صف میں کھڑا ہے، اگر وہ ظالموں کی فہرست میں ہے تو جان لے کہ اس کا انجام دردناک ہے، اس کی اذیتیں ختم نہ ہوں گی؛ اہل حق غالب آئیں گے، آج نہیں تو کل، أم قریباً أم بعیداً عروج ہو کر رہے گا، حق کا سورج افق پر چھائے جائے گا اور تمام جَگ مَگ سیارے ڈوب جائیں۔
[email protected]
7987972043
Comments are closed.