مرکزعلم ودانش علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تعلیمی وثقافتی سرگرمیوں کی اہم خبریں

سرسید کی تحریریں ہمیں جمود کی حالت سے باہر نکال سکتی ہیں: عارف محمد خاں
کیرالہ کے گورنر موصوف نے ’مقالات سرسید ‘ کی چار جلدوں کا اجراء کیا
علی گڑھ، 29 اکتوبر: سرسید احمد خاں ایک نابغہ روزگار مفکر اور صاحب عمل انسان تھے ۔ ان کی تحریروں اور مقالوں کی اشاعت وقت کی اہم ضرورت ہے کیوں کہ یہ تحریریں ادارہ ساز ذہن پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور ہمیں جمود کی حالت سے باہر نکال سکتی ہیں۔ ان خیالات کااظہار کیرالہ کے گورنر جناب عارف محمد خاں نے کیا۔ وہ سرسید اکیڈمی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے زیر اہتمام انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر، نئی دہلی میں ’’مقالات سرسید‘‘ کی چار جلدوں کا اجراء کرنے کے بعد خطاب کررہے تھے ۔
مقالات سرسید کی اشاعت پر سرسید اکیڈمی، اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ذمہ داران کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے جناب عارف محمد خاں نے کہاکہ سرسید نے ایسے دور میں اپنی اصلاحی و تعلیمی تحریک شروع کی جب انگریزی اور جدید تعلیم کو برا قرار دے دیا گیا تھا اور قدامت پرستی عام تھی۔ ہندوستان میں پہلی بار سرسید کے ہاتھوں وہ جمود ٹوٹا ۔
انھوں نے کہا’’سرسید کے اندر زبردست قرآن فہمی تھی اور انھوں نے سب سے پہلا زور جدید تعلیم کے حصول پر دیا ۔جوش پر ہوش کا غلبہ سرسید کی فکر کا حاصل ہے‘‘۔
گورنر موصوف نے تہذیبی تاریخ ، ملت و قوم کے سوال اور حالات حاضرہ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ تقلید، فکری جمود کا باعث ہوتی ہے اوریہ تخلیق کی ضد ہے ۔انھوں نے سائنسی علوم، ٹکنالوجی اور جدید علوم کے حصول پر زور دیتے ہوئے کہاکہ قرآن مجید میں جگہ جگہ کائنات کے مظاہر پر تفکر و تدبر کی دعوت دی گئی ہے ، جو عقل و خرد کا استعمال کرنے اور سائنسی علوم میں شغف پیدا کرنے کی بھی دعوت ہے ۔
انھوں نے ملت و قوم کی اصطلاحات پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ سرسید نے جغرافیہ کو ’قوم‘ کی تشکیل کی بنیاد قرار دیا اور سبھی مذاہب کے لوگوں کے ساتھ میل جول سے رہنے پر زور دیا۔
جناب عارف محمد خاں نے سرسید کے خلاف جاری فتاویٰ کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ دوسروں کے دین و ایمان کے بارے میں فیصلے صادر کرنا معقولیت سے پرے بات ہے ۔انھوں نے لوگوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا ’’ ججمنٹل ہونا چھوڑ دیجئے۔ سب کے ساتھ آپ کے معاملے ٹھیک ہوجائیں گے‘‘۔
انھوں نے مزید کہا ’’انسانیت کو نفع پہنچانے والی شئے زندہ رہتی ہے۔ سرسید کی فکر کی افادیت و معنویت آج تسلیم کی جارہی ہے اور ان کی بازیافت ہورہی ہے ۔ آج ضرورت ہے کہ ان کی تحریروں کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایا جائے اور انھیں زیادہ سے زیادہ پڑھا جائے ‘‘۔
سرسید کے پیغام کو علامہ اقبال کی مشہور نظم ’’سید کی لوح تربت‘‘ کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے جناب عارف محمد خاں نے وہ نظم پڑھی اور سرسید اکیڈمی کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا ’’آج ان تحریروں اور تخلیقات کی افادیت بڑھ گئی ہے۔ میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں کہ آپ نے سرسید کی اصل تحریروں اور تخلیقات کو شائع کرنے کا فیصلہ کیا ۔ان کتابوں سے ہمارے سماج میںادارہ ساز ذہن پیدا ہوں گے اور جس جمود میں ہم ہیں اس سے یہ کتابیں ہمیں باہر نکال سکتی ہیں ‘‘۔
اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے اپنے صدارتی کلمات میں کہا کہ سرسید مختلف الجہات شخصیت تھے اور انھوں نے متنوع موضوعات پر لکھا ہے۔ انھوں نے کہا ’’سرسید کی فکر کی اشاعت و ترویج اور اہم کتب و تحریروں کی اشاعت کے لئے ہم نے سرسید اکیڈمی کو ہر ممکن تعاون فراہم کیا ہے۔ ویڈیو کانفرنسنگ کے ایکوپمنٹ دئے ہیں ۔ اس سلسلہ میں مزید جو بھی مشورے آئیں گے ہم ان پر سنجیدگی سے غور کریں گے اور جو چیزیں رہ گئی ہیں انھیں پورا کریں گے‘‘۔
انھوں نے کہاکہ سرسید اکیڈمی نے پچھلے دو تین برسوں میں 35 سے زائد کتابیں شائع کی ہیں۔ سرسید اکیڈمی میں ایک لاکھ پچیس ہزار صفحات میں سے ایک لاکھ صفحات کا ڈجیٹائزیشن کیا جاچکا ہے۔ اگلے دو تین ماہ میں بقیہ صفحات کا ڈجیٹائز یشن مکمل ہوجانے کی امید ہے ۔ مولانا آزاد لائبریری میں بھی قیمتی تحریروں اور دستاویزوں کا ڈجیٹائزیشن ہورہا ہے۔ اس طرح سے قدیم تحریریں اور ریکارڈز آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ ہوجائیں گے اور ان سے عام استفادہ کی راہ آسان ہوجائے گی۔
وائس چانسلر نے مزید کہاکہ سرسید چیئر کے قیام کے سلسلہ میں ایک تجویز یوجی سی میں جمع کی گئی ہے ۔ یونیورسٹی نے سرسید مطالعات ، اسلامی تاریخ و ثقافت اور تعلیم و تحقیق کے میدان کی نامور ہستیوں اور اداروں کو سرسید ایکسیلنس ایوارڈ دئے ہیں۔ ان میں سن 2017میں نامور مصنف و محقق ڈیوڈ لیلیویلڈ ، 2018 میں کرشچیئن ڈبلیو ٹرال، 2020 میں پروفیسر گیل میناؤ، 2021 میں فرانسس کرسٹوفر رابنسن اور 2022 میں باربرا ڈیلی میٹکاف کو انٹرنیشنل سرسید ایکسیلنس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہ سارے پروفیسر ایمیریٹس ہیں اور علم و تحقیق کی دنیا میں ان کا شہرہ ہے۔
پروفیسر منصور نے مزید بتایا کہ حال ہی میں سرسید انڈومنٹ فنڈ کا قیام کیا گیا ، جس کا کارپس 50 لاکھ روپے ہوچکا ہے۔ سرسید دو صد سالہ تقریبات (2017ء ) کے موقع پر سرسید اورعلی گڑھ تحریک پر مبنی ایک اہم کافی ٹیبل بک ’’جہانِ سید‘‘ شائع کی گئی۔ اس دوران سرسید اکیڈمی اور پبلیکیشن ڈویژن سے اشاعتوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
وائس چانسلر نے مقالات سرسید کے اجراء کی خاطر گورنر کیرالہ جناب عارف محمد خاں کی تشریف آوری کے لئے ان کا بطور خاص شکریہ ادا کیا۔
اس سے قبل اپنے کلیدی خطاب میں پروفیسر سعود عالم قاسمی (ڈین، فیکلٹی آف تھیالوجی) نے کہا کہ سرسید نے ابتدائی زندگی سے ہی قلم سنبھال لیا تھا اور قلم و کاغذ سے ان کا رشتہ کبھی نہیں ٹوٹا۔
پروفیسر قاسمی نے کہا ’’معقولیت، جدیدیت اور افادیت سرسید کی کی فکر و شخصیت کے تین بنیادی نکات ہیں۔ سرسید نے کہاکہ جب تک آپ کی بات میں معقولیت نہ ہوگی قابل قبول نہ ہوگی۔ ہر جدید شئے کو نہیں چھوڑنا چاہئے اور روایات زنجیر پا نہ بننے پائیں بلکہ ان کی افادیت یا عدم افادیت کے بارے میں ضرور سوچنا چاہئے‘‘ ۔
پروفیسر سعود عالم قاسمی نے کہا’ ’مقالات سرسید‘ ایک عہد اور انقلابی کارناموں کا ریکارڈ ہے۔ قائد کو دور اندیش ہونا چاہئے۔ یہ صفت ہمیں سرسید میں بار بار نظر آتی ہے۔ ان کے اسلوب میں سادگی اور انداز بیان میں دلپذیری ہے ،مقالات سرسید ان کے علم کے تئیں شوق کا بھی اظہار ہے ۔عہد حاضر میں سرسید کے افکار کی معنویت سے کسی ذی ہوش کو انکار نہیں ہوسکتا‘‘۔
خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر علی محمد نقوی (ڈائرکٹر، سرسید اکیڈمی) نے کہا کہ عقلیت پسندی، سائنسی مزاج، آزادی و لبرل ازم، اور عدم تشدد سرسید کی فکر کی چار نمایاں خصوصیات ہیں۔ سرسید نے اسلام کو امن اور انسانی رشتوں کا احترام کرنے والے مذہب کے طور پر پیش کیا۔ انھوں نے جذباتیت سے دوری، عاقلانہ تفکر، جدید اعلیٰ تعلیم اور دوسری قوموں سے میل جول پر زور دیا ۔اس کے علاوہ حکومت سے ٹکراؤ سے پرہیز ان کی حکمت عملی کا حصہ رہا۔
مہمان خصوصی اور دیگر مہمانوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے پروفیسر نقوی نے سرسید اکیڈمی کو مرکزیت دلانے میں وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور کے کردار کو سراہا اور ان کا شکریہ بھی ادا کیا ۔انھوں نے بتایا کہ مقالات سرسید کی جلد اوّل و دوم کا اجراء علی گڑھ میں ہوا تھا اور تیسری، چوتھی، پانچویں اور چھٹی جلد کا اجراء اس تقریب میں ہورہا ہے ۔
شکریہ کے کلمات ادا کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد شاہد (ڈپٹی ڈائرکٹر، سرسید اکیڈمی) نے کہا’’ جناب عارف محمد خاں کی گفتگو ہمیشہ مواد سے پُر اور مدلل ہوتی ہے۔ انھوں نے اپنی گوناں گوں مصروفیات کے باوجود وقت دیا جس کے لئے ہم سب مشکور ہیں‘‘۔ ڈاکٹر محمد شاہد نے سرسید اکیڈمی کے مستقبل کے اشاعتی منصوبوں کا ذکر کیا اور اکیڈمی کی سرپرستی کے لئے وائس چانسلر کا بطور خاص شکریہ ادا کیا۔
مہمان خصوصی جناب عارف محمد خاں کو وائس چانسلر نے یادگاری نشان پیش کیا ۔ تقریب کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر فائزہ عباسی، ڈائرکٹر، یوجی سی ایچ آر ڈی سی، اے ایم یو نے انجام دئے۔
اس موقع پر اے ایم یو کے اہلکاران، سینئر اساتذہ، ریسرچ اسکالرز اور دیگر معززین موجود رہے۔
٭٭٭٭٭٭
اے ایم یو فیکلٹی ممبر نے بین الاقوامی کانفرنس میں اپنی تحقیق پیش کی
علی گڑھ، 29 اکتوبر: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس کے استاد ڈاکٹر محمد ناظم نے تحقیق اور علم کی تخلیق میں تحقیقی فنڈ کی اہمیت بیان کی۔ وہ ایس ایل ٹی سی ریسرچ یونیورسٹی، کولمبو، سری لنکا کے زیر اہتمام دوسری انٹرنیشنل ورچوئل کانفرنس میں لائبریری و انفارمیشن سائنس میں فنڈیڈ اور نان فنڈیڈ ریسرچ کے تعلیمی اثرات کے موضوع پراپنی تحقیق پیش کررہے تھے۔
انہوں نے گرانٹ ایوارڈ کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کی اور نئے تحقیقی نتائج کی تخلیق اور ان کی ترویج پر اظہار خیال کیا۔
ڈاکٹر ناظم کے مطابق ’’مختلف فنڈنگ ایجنسیاں، لائبریری اور انفارمیشن سائنس ریسرچ کے صرف 14 فیصد حصے کو فنڈ دیتی ہیں اور فنڈیڈ ریسرچ، نان فنڈیڈ ریسرچ کے مقابلے میں زیادہ علمی اثر رکھتی ہے‘‘۔
ڈاکٹر ناظم کے طالب علم الطاف علی نے اس تحقیق میں ان کی مدد کی۔
٭٭٭٭٭٭
آئی اے ایس آفیسر نے اے ایم یو کی تاریخی عمارات کو سراہا
علی گڑھ، 29 اکتوبر: حکومت ہند میں جوائنٹ سکریٹری آئی اے ایس افسر مسٹر گنگا رام نے اپنی اہلیہ کے ہمراہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے تاریخی سرسید ہال-نارتھ اور یونیورسٹی کی جامع مسجد کا دورہ کیا ۔ انھوں نے سر سید احمد خاں کی قبر کو دیکھا اور ان شاندار تعمیرات کو بخوبی سراہا۔
فیکلٹی ممبران پروفیسر محمد طارق (پرووسٹ، سرسید ہال نارتھ) اور پروفیسر جہانگیر وارثی (چیئرمین، شعبہ لسانیات) ان مہمانوں کے ہمراہ تھے۔
مسٹر گنگا رام نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’اے ایم یو کی عمارتیں شاہکار کا درجہ رکھتی ہیں۔ ان کا فن تعمیر اثرپذیری رکھتا ہے اور یہ عمارتیں قدیم طرز تعمیر کا خوبصورت نمونہ ہیں۔ جو شخص بھی اے ایم یو آئے گا وہ ان عمارتوں کی خوبصورتی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا‘‘۔
پروفیسر محمد طارق اور پروفیسر جہانگیر وارثی نے کہا کہ اے ایم یو میں مسٹر گنگا رام اور ان کی اہلیہ کی میزبانی کرنا ہمارے لئے مسرت کی بات ہے۔ ان کے لئے اے ایم یو کی تاریخ و ثقافت سے واقفیت کا یہ ایک سنہرا موقع تھا۔ ان کے اگلے دورے کے لئے بھی ہم چشم براہ ہیں۔

Comments are closed.