راہ میں چھوڑ کے سایہ بھی چلا جاتا ہے

شعر پھر آج محبت کا پڑھا جاتا ہے
رنگ محفل کا حسیں اور ہوا جاتا ہے
ہمنواؤں پہ بھلا کیسے بھروسہ کرلیں
راہ میں چھوڑ کے سایہ بھی چلا جاتا ہے
منزل عشق طلب کرنے کی خاطر سب کچھ
ایک دیوانہ محبت میں لٹا جاتا ہے
مرے زخموں کو کریدو نہ مسیحا اتنا
خون زخموں سے مرے دیکھو بہا جاتا ہے
ایک انجان مری ذات سے ہو کر منسوب
سلسلہ اپنی محبت کا ملا جاتا ہے
لوگ جس راہ پہ جانے کو سمجھتے معیوب
ایسی راہوں پہ بھی دیوانہ چلا جاتا ہے
کیا عجب شخص ہے جب سامنے آتا عفت
کیفیت دل کی وہ آنکھوں سے بتا جاتا ہے
شہناز عِفّت
ممبئی
Comments are closed.