Baseerat Online News Portal

اسرائیل کو آگ لگ گئی  یاہوکے چراغ سے

 

ڈاکٹر سلیم خان

مشرق وسطیٰ کے بدلتے منظر نامہ سے جہاں اسرائیل کے اندر صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے وہیں اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) نے سعودی عرب اور ایران کےدرمیان چین کی ثالثی کو فلسطینی قوم کے نصب العین کے لیے اہم قرار دیا ۔حماس میں  سیاسی امور  کے سربراہ  خلیل الحیا نے سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ  یہ قوم کی صفوں میں اتحاد، سلامتی اور عرب  واسلامی ممالک کے درمیان افہام و تفہیم کو مضبوط بنانے کے راستے میں  ایک اہم سنگ میل ہے۔ اس سے  فلسطینی کاز اوراسرائیل کی  سرزمین وہاں کے باشندوں  اور مقدسات کے خلاف صہیونی  جارحیت کے مقابلے میں فلسطینیوں کے ثابت قدمی کی حمایت ہوتی  ہے۔حالیہ تبدیلی کا براہِ راست اثر فلسطین کے ساتھ یمن پر بھی پڑے گا ۔ اقوام متحدہ کی سلامتی  کونسل کے اجلاس میں نمائندہ برائے یمن  ہینس گرنڈبرگ نے مقامی  جماعتوں کوخطے میں ہونے والے اِس سفارتی قدم سے فائدہ اٹھا کر پرامن مستقبل کے لیے فیصلہ کن اقدامات کرنے کی ترغیب دی ۔

سعودی عرب اور ایران کے درمیان چین کی ثالثی سے ڈرامائی انداز میں سفارتی تعلقات کی بحالی کے اعلان پرعبرانی میڈیا اور اسرائیل کے سیاسی حلقے چراغ پا ہیں۔ یہ  اعلان صہیونی ریاست پر بجلی بن کر گرا ہے۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ  میں اس پیشرفت کو عالمی سیاسی میدان میں ایک بڑی بلکہ  امریکا اور اس کے اتحادیوں کی کمزوری کہہ  رہا ہے۔عبرانی اخبار "گلوبز” کے مطابق  مارچ کے پہلے ہفتے میں سعودیہ – ایران سفارتی معاہدہ تو پہلا جھٹکا تھا،اس کے علاوہ  روس کے یوکرین پر سوپر سونک  میزائلوں کے حملے، امریکا  کی  سلیکن ویلی میں ناکامیاں ، بینک کی بندش یا دیوالیہ ہونا  اور مالیاتی منڈیوں میں عدم استحکام، یہ ساری چیزیں  اسرائیل کے لیے تکلیف دہ چوٹیں ہیں۔ اخبار نے معاہدے کا مطلب یہ لیا ہے کہ  مشرق وسطیٰ میں برسوں کی مخاصمت کے بعد سعودی عرب نے ایران کا مقابلہ کرنا چھوڑ دیا۔یہ بات ملت اسلامیہ کے لیے  نیک فال  مگر اسرائیل کی خاطر بدشگون ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے  بھی معاہدہ کا خیرمقدم کرتے ہوئے خلیجی خطے کے استحکام کی خاطر ایران اورسعودی  کے درمیان خوشگوار تعلقات کو اہم قرار دیا۔ اقوام متحدہ میں چین کے مستقل نمائندے جنگ شانگ نے اجلاس میں کہا کہ معاہدہ آج غیریقینی کی صورت حال سے دوچار دنیا کے لیے ایک خوشی کی خبر ہے اس سے خطے کے امن، استحکام، یکجہتی اور باہمی تعاون کے منظرنامے میں مثبت اضافہ ہوا ہے۔انہوں نے اس معاہدے سے یمن  کی صورت حال میں   بہتری کی امید کا اظہار کیا۔ چینی ایلچی کا کہنا تھا کہ بیجنگ مذاکرات سفارت کاری کی کامیاب کہانی ہے اوران کا ملک یمن تنازع کے حل کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ میں امن اور استحکام کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔امریکی سفیر لیفری ڈی لارینٹس نے بھی امید ظاہر کی کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان معاہدہ یمن کے تنازع کے مستقل حل میں مددگار ثابت ہو گا۔انہوں نےخطے میں قیام امن کے لیے ہونے والی کوششوں کا خیرمقدم کیا۔ان بیانات سے ظاہر ہے کہ پوری دنیا اس پیش رفت سے مسرور ہے اور اگر اس کے ذریعہ ایک کروڑ 70 لاکھ یمنیوں کی زندگی  میں بہتری آئے اور فلسطین کی آزادی کے لیے راہ ہموار ہو تو یہ ایک انقلابی پیش رفت ہوگی۔

وزیراعظم نیتن یاہو چونکہ  ایران کو اسرائیل کا سب سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں اور اس لیے اس  کا موازنہ نازیوں کے ساتھ کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ امارات کا دورہ منسوخ ہوا تو  برلن پہنچ گئے۔ وہاں  انہوں نےگرونے والڈ ٹرین اسٹیشن پر ہولوکاسٹ کی ایک یادگار پر جرمن چانسلر اولاف شولس سے ملاقات کی ۔ اس موقع پریاہو نے  کہا،”ہم نے جو اہم ترین سبق سیکھا ہے، وہ یہ ہے کہ جب آپ کو اس قسم کی بدی کا سامنا ہو تو اُسے بالکل ابتدائی طور پر روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ‘‘ نیتن یاہو کا مزید کہنا تھا،” اب اسرائیلی ریاست اور لاکھوں یہودیوں کی تباہی کے  دیگر خدشات پیش نظر ہیں اس لیے جرمنی کے ساتھ اسرائیل کی قابل اعتماد شراکت داری ضروری ہے ۔‘‘ بیان کے آخری حصے کا اشارہ  ایران اور سعودی عرب کے معاہدے  کی جانب   تھا ۔ اس کے جواب میں جرمن چانسلر اولاف شوُلس نے کہا کہ جرمنی کو اپنی تاریخ نہیں بھولنی چاہیے۔ ہولوکاسٹ کے واقعے کا ازالہ بھی جرمنی کی ذمہ داری  ہے۔  جرمنی کے اسرائیل کے ساتھ  قریبی تعلقات ہیں اور وہ اسرائیلی ریاست کے دفاع میں ذمہ داری کا حصہ دار ہے۔ اس سے ظاہرہوتا ہے کہ نیتن یاہو کے اندر عدم تحفظ کا شدید احساس انہیں  اپنے بدترین دشمن جرمنی کی چوکھٹ پر لے کر گیا تھا۔

یہ اس ریاست کے سربراہ کا حال ہے جس کی بابت دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ساری دنیا پر راج کرنے والا امریکہ ا س کی مٹھی میں  ہے۔ فی الحال  استاو شاگرد دونوں کی حالت پتلی ہے۔ نیتن یاہو  کو فی الحال دوہری مخالفت کا سامنا ہے جرمن اخبار برلنر سائٹونگ کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم کے برلن دورے کے موقع پر جرمن پارلیمان کی عمارت کے باہرجرمنی میں آبادسینکڑوں یہودیوں نے نیتن یاہو حکومت کے خلافمظاہرہ کیا۔ مظاہرین  نیتن یاہو پر اپنے ملک میں جمہوری اقدار کو محدود کرنے کا الزام لگا رہے تھے۔ یہ احتجاج اس قدر شدید تھا کہ اس کو قابومیں رکھنے  اور نیتن یاہو کے برلن کے دورے کو بغیر کسی ہنگامہ آرائی کے تکمیل تک پہنچانے کے لیے  چار ہزار پولیس اہلکار تعینات کرنے پڑے ۔ اسرائیلی وزیر اعظم کی قیام گاہ  کے اطراف دور تک سکیورٹی حکام نے سخت حفاظتی پہرہ لگا دیا گیا تھا  تاکہ حالات پُر امن رہیں  اور کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔ سوال یہ ہے کہ بیرونی خطرات سے نمٹنے میں توجرمنی مدد کرے گامگر اندرکے خلفشار سے وہ کیسے نمٹے گا؟  جس حکمراں کے خلاف خود اس کے اپنے باشندے ہوں اس کا انجام کیا ہوگا؟

نتن یاہو پر2019 سے  بدعنوانی کے مقدمات  چل رہے ہیں۔ انہیں اس کے سبب اقتدار سے محرومی کا خدشہ ہے اس لیے وہ عدلیہ کے اختیارات کو محدود کرکےخودکو برطرفی سے بچانا چاہتے ہیں ۔ ان نام نہاد اصلاحات کی مخالفت کرتے ہوئےخود  وزیر انصاف یاریو لیون نے  کہا تھا کہ  اس سے   سپریم کورٹ کے اختیارات کو محدودہوں گے اور ججوں کے انتخاب پر عدلیہ کا اثر و رسوخ کو کم ہو  گا۔ یہ ہندوستان کی مانند اپنی پسند کے ایسے چاپلوس ججوں کو بھرتی کرنے کا ناپاک منصوبہ ہے جو سرکار کی غلط کاریوں کو اجاگر نہ کرسکیں ۔اس کی روُ سےوزیر اعظم کو صرف ذہنی و جسمانی معذوری کی صورت میں دو تہائی اراکین کی منظوری کے ساتھ ہی معزول کیا جا سکے گا۔یہ بل پہلی رائے شماری میں 51 کے مقابلے 61 ووٹوں سے منظور تو ہوا مگر وزیر دفاع اور خارجہ تعلقات و دفاعی امورکی کمیٹی کے سربراہ کی تائید سے محروم تھا ۔ اس کے بعد ملک بھر میں احتجاج کا ایک آتش فشاں پھوٹ پڑا۔  یاہو کا اڑیل رویہ اور اسرائیل  کی حالت زار پرتاباں  کا یہ شعرصادق آتا ہے؎

دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے                             اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

 

وزیر اعظم نریندر مودی نے جس طرح کسان قانون بناکر کاشتکاروں کو پریشان کردیا اسی طرح ان کے دوست نیتن یاہو نے عدالتی اصلاحات کرکے اپنے ملک میں خلفشار برپا کردیا۔ اسرائیل کے اندر ان نام نہاد  اصلاحات  خلاف تقریباً 15 ہفتوں سے احتجاج ہورہا ہے۔ ان مظاہروں میں کئی بار لاکھوں لوگ سڑکوں پر آچکے ہیں۔اس مسئلے  پراسرائیلی فوج کے ریڑھ کی  ہڈی یعنی ریزروسٹ نے کام بند کرنے کی دھمکی دی ہے ۔اسرائیلی فضائیہ کے ایک سکواڈرن میں درجنوں ریزرو فائٹر پائلٹس نےپہلے خبردار  کیا کہ وہ ٹریننگ کے لیے رپورٹ نہیں کریں گے مگر بعد میں ارادہ تبدیل کیا اور بات چیت پر رضامند ہو ئے مگر لاوا پک رہا ہے۔ نتن یاہو کی حکومت کا الزام  ہے کہ مظاہروں کو سیاسی مخالفین نے ہوا دی ہے۔اب سوال یہ ہے مخالف کون ہے؟ اب توماہرین قانون ، میڈیا  اور  ٹریڈ یونین کے بعد  یونیورسٹی کے وائس چانسلرس تک  نے تعلیم گاہوں کے دروازے بند کردیئے ہیں۔ ان کے اپنے وزیر دفاع کو برطرف کرنا پڑا ہے  ۔ کیا وہ بھی سیاسی مخالف ہیں ؟

وزیر اعظم نتن یاہو بھی ہو بہو ہندوستان کےوزیر قانون کرن رجیجو جیسی دلیل دیتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اصلاحات عدالتوں کو ان کے اختیارات سے تجاوز سے روکنے کے لیے کی گئی ہیں اور انہیں اسرائیلی عوام نے گزشتہ انتخابات میں اس کے لیے ووٹ دیا تھا۔یعنی جمہوری نظام میں چونکہ عوام خود مختار ہیں اس لیےان کے نمائندے  اگر آئین کے خلاف کوئی قانون بنادیں تب بھی  عدالت مداخلت نہیں کرسکتی۔ یہاں جس عوام کی دہائی دی جارہی ہے ان میں سے ایک شائے ہیرل کا   کہنا ہے کہ  نتن یاہو  ملک کو تباہ کر رہے ہیں، وہ جان دے دیں گے مگر  ایسا نہیں ہونے دیں گے ۔مظاہرین میں  رینا بینی کہتی ہیں’ میں اپنے ملک کو آنے والی نسلوں کے لیے بچانا چاہتی ہوں… کیونکہ یہ ایک عظیم جمہوریت تھی اور اب کسی نے اسے ہم سے چرا لیا‘۔جب میں ایک سپاہی تھی تو ہمیں معلوم تھا کہ ہم کس کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اب میں نہیں جانتی… اور ہم نہیں جانتے کہ یہ کیسے ختم ہونے والا ہے، یہ بہت خوفناک ہے‘۔ مصر کے لوگوں نے تو حسنی مبارک کو تختہ پلٹ دیا تھا اب اسرائیلی یہ کرسکیں گے یا نہیں یہ وقت بتائے گا۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل کوجن داخلی و خارجی  مسائل  کا سامنا ہے اور ان سے  ابھرنا محال ہے۔ایک غاصب ریاست کا آئی سی یو میں داخل ہوجانا  فلسطین کی آزادی کے لیے ایک نوید صبح   ہے۔  بقول اقبال؎

دلیلِ صبحِ روشن ہے ستاروں کی تنک تابی              افق سے آفتاب ابھرا گیا دورِ گراں خوابی

Comments are closed.