Baseerat Online News Portal

جمعہ نامہ: روزہ اور تزکیہ نفس کا ہمہ گیر تصور

 

ڈاکٹر سلیم خان

ارشادِ ربانی ہے:’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیروؤں پر فرض کیے گئے تھے اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی‘‘۔ اس آیت میں روزے کی فرضیت کا مقصد  پرہیزگاری کا حصول بتایا گیا ہے۔ تقویٰ  کا دوسرا نام تزکیہ ہے۔  قرآن مجید کی ایک آیت میں تقویٰ اور تزکیہ کا ذکر ساتھ ساتھ ہوا ہے :’’ اور اس (آگ) سے دور رکھا جائے گا وہ نہایت پرہیز گار (متقی) جو پاکیزہ ہونے (تزکیہ) کی خاطر اپنا مال دیتا ہے‘‘۔متقی وپرہیزگار اہل ایمان  اپنے  تزکیہ  کی خاطر مال خرچ کرتا ہے۔ایک طرف جہاں   روزے کا مقصدمیں تقویٰ شامل ہے وہیں لفظ  زکوٰۃ میں تزکیہ موجود ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ ہر چیز کی زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوۃ روزہ ہے۔‘‘ جس  طرح  زکوٰۃ سے مال پاک ہوتا ہے اور اس میں خیر و برکت   ہوتی ہے اسی طرح روزہ  روح وجسم  کی پاکیزگی اور نشوونما کا ذریعہ بنتا ہے۔زکیٰ کے معنی  بڑھنا، نشو و نما پانا، خیر و صلاح اور تقویٰ کا پایا جانا، عبادت اور پاکیزگی کا حاصل ہونا  ہے۔ یعنی  تزکیہ دراصل   پستی اور زوال کی طرف لے جانے والی فکری و عملی کمزوریوں سے کنارہ کش ہوکرفکراسلامی  اور تقویٰ کی  بنیاد پر کردار کی تعمیر و ترقی کا نام   ہے۔

  فرمان ربانی ہے:’’یقیناً فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا‘‘۔یعنی  کامیابی کی ضمانت تقویٰ کی بنیاد پر اپنی شخصیت کاارتقاء  ’تزکیہ‘ ہے۔  اس کے برعکس  ضمیر کو کچل کر گمراہی و اخلاقی پستی میں پڑے رہنا  باعثِ خسران  ہے۔قرآن حکیم میں عالمِ انسانیت کا  ضلالت فکر و عقیدہ اور اخلاق و کر دار کی پستی سے نکالنے یعنی ان کا تزکیہ کرنا بعثت رسول  ﷺ کا ایک مقصدبیان کیا گیا  ہے۔ ۔ ارشادِ قرآنی ہے:’’وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول خود انہی میں سے اُٹھایا، جو انھیں اُس کی آیات سناتا ہے، ان کا تزکیہ کرتا اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے، حالاں کہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے‘‘۔  اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ تزکیہ کی بنیاد، تلاوتِ آیات اور کتاب و حکمت کی تعلیم  ہونی چاہئے۔ اس کے بغیر حقیقی تزکیہ ناممکن ہے مگر تلاوت آیات اور کتاب اللہ کی تعلیم سے  تزکیہ نفس  نہ ہو تو ان کی حقیقی غرض و غایت پوری نہیں  ہو گی۔

تزکیہ نفس کا دائرہ کار اخلاقایت سے  معاشرت تک پھیلا ہوا ہے ۔ فرمان ربانی ہے:’’مومنوں سے کہو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ۔ اس میں ان کے لیے زیادہ پاکیزگی ہے ۔ بے شک اللہ، جو کچھ وہ کرتے ہیں ،اس سے باخبر ہے ‘‘۔  یعنی مومن بندہ اگر  روزہ تو رکھ لے مگر بدنگاہی سے نہ بچے تو  اس آیت کی روُ سے وہ اپنا تزکیہ نہیں کرسکے گا ۔مفاسدِ روزہ کے حوالے سے نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:’’جس نے جھوٹی بات، اس پر عمل اورگناہ کو نہیں چھوڑا تو اللہ کو کوئی ضرورت نہیں کہ ایسا شخص اپنا کھانا، پینا چھوڑ دے۔‘‘ اس معاملے کو مزید وسعت دوسری  حدیث میں ہے:’’ روزہ محض کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں، بلکہ وہ جھوٹ، باطل اور غیر ضروری کاموں اور حلف سے رکنے کا نام ہے‘‘۔  ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ ماہِ رمضان میں  محض چند روسوم  و رواج کی ادائیگی   اہل ایمان کو تقویٰ و تزکیہ کی بیش بہا دولت سے مالا نہیں کرسکتی ۔ ارشادِ قرآنی ہے:’’ کسی کے مکان میں داخل ہونے سے پہلے اس سے اجازت حاصل کرو اور سلام کرو۔ اس کے بغیر اس میں داخل مت ہو جاؤ۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے ۔ توقع ہے تم نصیحت حاصل کرو گے‘‘۔ان آداب ِ معاشرت  کو بیان کرنے کے فوراً  بعد تذکیر قرآنی ہے کہ :’’اس میں تمہارے لیے زیادہ پاکیزگی ہے ۔ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے‘‘ ۔ یعنی تزکیہ کے حصول کی خاطر ان کا پاس و لحاظ لازمی ہے۔  

تزکیہ نفس کا ایک سیاسی پہلو بھی ہے ۔ فرعون  خدائی کا دعویدار تھا ۔قرآن حکیم میں اس کا یہ دعویٰ موجود ہے کہ:’’  میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں‘‘ ۔ ایک اور موقع پر وہ  کہتا ہے :   ’’اے اہلِ دربار، میں تو اپنے سوا تمھارے کسی خدا کو نہیں جانتا‘‘۔ایسے ظالم و جابر کے سامنے دعوت اسلامی پیش کرنے کا جو اسلوب حضرت موسیٰ ؑ کو سکھایا گیا ہے اس میں تزکیہ پر زور ہے۔ ارشادِ حق ہے :’’جاؤ فرعون کے پاس، بے شک وہ سرکش ہو گیا ہے ۔ اس سے کہو کہ کیا تو اس کے لیے تیار ہے کہ تیرا تزکیہ ہو (اور تو سنور جائے ) اور میں تجھے تیرے رب کا راستہ دکھاؤں کہ اس کا تجھے خوف ہو‘‘۔ اس طرح  فرعون کے ربِّ اعلیٰ ہونے کی تردید کرنے کے بعد  اس کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت و اطاعت کی دعوت کو  تزکیہ سے منسوب کیا  گیا ہے۔ اس کے جواب میں فرعون دھمکی دیتا ہے کہ :’’اگر تو نے میرے سوا کسی دوسرے کو الٰہ بنایا (حاکم ٹھہرایا)تو  بے شک تجھے (قید کر دوں گا اور) قید یوں کے ساتھ ڈال دوں گا‘‘، لیکن اس گیدڑ بھپکی  کی پروا نہیں کی گئی۔   قرآن حکیم کے اندر تزکیہ کی اصطلاح کو جن وسیع  معنیٰ میں استعمال  کیا گیا ہے اسی تناظر میں اسے سمجھنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ماہِ رمضان کی بابرکت ساعتیں اس کے لیے معاون و مددگار ہیں ۔

Comments are closed.