پروفیسر احمد دانش کے انتقال سے ادبی حلقہ سوگوار، موجودہ وقت کے نامور ادیب کی رحلت پر مولانا مظفر رحمانی کا اظہار تعزیت

 

جالے ۔10/جولائی (محمد رفیع ساگر) اردو اور فارسی ادب کے گیسو سنوار کر ان دونوں ادب کو سلیقے سے چلنے کا ہنر بتانے والے وقت کے نامور ادیب وانشاء پرداز پروفیسر احمد دانش ادب کی دنیا کا وہ نام ہے جن کی جدائی کے غم کو برسوں تک محسوس کیا جاتا رہے گا بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ ان کی رحلت سے ادبی حلقے کا جو بڑا خسارہ ہوا ہے اس کی بھرپائی میں برسوں لگ جائیں گے،انہوں نے جس خود اعتمادی سے ادب کی دنیا میں اپنے لئے جگہ بنائی اس کی مثال نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے یہ باتیں موقر عالم دین مولانا مظفر احسن رحمانی نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہیں انہوں نے کہا کہ موصوف اردو اور فارسی کے ایک اچھے اور باکمال ادیب تھے ،ادب و انشا ان کی خمیر کا ایک حصہ تھا،انہوں نےاپنی زندگی کو پڑھنے پڑھانے کے لئے وقف کردیا تھا،وہ اپنے شاگردوں سے بے پناہ محبت کرتے اور ان کے علمی مشکلات کے حل کے لئے ہمیشہ کھڑے نظر آتے تھے ،بسا اوقات تو وہ اپنے اہم کام کو چھوڑ کر دوسروں کے علمی کا موں کے کرنے کو فوقیت دیتے تھے جسے اہل ذوق ان کی اعلی ظرفی کا نام دیا کرتے تھے،شعرو شاعری کا بھی انہیں بہت صاف ستھرا ذوق ملاتھا جس کے سبب شعر وشاعری کی دنیا کا بھی انہیں بے تاج بادشاہ تصور کیا جاتا تھا،انہوں نے کہا کہ سیمانچل کا ہر ادبی پروگرام پروفیسر احمد دانش کے بغیر نامکمل اور ادھورا سمجھا جاتا تھا بلکہ ان کی موجودگی کسی بھی ادبی پروگرام کے لئے کامیابی کی ضمانت ثابت ہوتی تھی،انہوں نے کہا کہ مجھ سے ان کا رشتہ برادرانہ تھا ،میرے ابو کو وہ ماموں کہ کر پکارتےاور ان کا احترام کرتے تھے،جب کبھی ابا بیمار ہوکر پور نیہ علاج کے لئے جاتے تو وہ اپنا سارا کام چھوڑ کر ان سے ملنے ضرور جاتے اور ایک ایک بات کا خیال رکھتے ،انہوں نے کہا کہ وہ مجھ سے بھی بے حد محبت کا سلوک رکھتے تھے اور ہمارے علمی کاموں کے بارے میں اکثر پوچھ گچھ کرتے رہتے تھے ،میرے بارے میں جب ان کو یہ علم ہوا کہ "میں للت نارائن متھلا یونیورسٹی”سے عالمی شہرت یافتہ عالم دین فقیہ عصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ پر "مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی علمی وصحافتی خدمات اور ان کے معاصرین ” کے عنوان پر کام کر رہا ہوں تو وہ بہت خوش ہوئے اور ضروری ہدایات دیں تاکہ یہ طویل مرحلہ آسانی کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچ جائے،پروفیسر احمد دانش بھاگلپور ضلع کے نوگھچیا سے قریب مکھہ تکیہ کے رہنے والے تھے ،ان کا پورا خاندان ہمیشہ سے پڑھا لکھا رہا ہے،اپنے بچوں کی تربیت بھی انہوں نے ایک خاص انداز سے کی جو آج ان کی نیک نامی کا سبب بنے ہوئے ہیں ،مولانا رحمانی نے کہا کہ موصوف کی نثری تحریروں میں بلا کی سلاست وروانی اور معنویت ہوتی تھی وہ برجستگی کے ساتھ لکھتے اور یہی وہ ان کا انداز تھا جس نے انہیں ادیبوں کی فہرست کا منفرد نام بنا دیا تھا،وہ موجودہ دور کے معتبر ادیب تو تھے ہی مگر اسی کے ساتھ وہ افراد شناش بھی تھے اور سماج کے ہر طبقے کے ساتھ ان کا رویہ قابل رشک تھا اس لئے ان کی جدائی کا غم مجھ جیسے نہ جانے کتنے ہی لوگوں کو برسوں تک نڈھال رکھے گا۔

Comments are closed.