فرقہ وارانہ تشدد،افواہیں،انٹرنیٹ بند،دربھنگہ کیوں سلگ رہا ہے؟

پٹنہ (چندن کمار ججواڑے)
بہار کے دربھنگہ ضلع میں گزشتہ ایک ہفتے میں دو فرقوں کے درمیان تصادم کے کئی واقعات ہو چکے ہیں۔ اس سےفرقہ وارانہ تناؤپیدا ہوگیا ہے۔ حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے ضلع میں انٹرنیٹ خدمات پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔
بہار میں اس سال رام نومی کے موقع پر بہار شریف اور ساسارام میں تشدد پھوٹ پڑا۔ اس کے بعد یہ ایک اور موقع ہے جب انتظامیہ کو امن برقرار رکھنے کے لیے ایسے اقدامات کرنے پڑتے ہیں۔
انتظامیہ کا الزام ہے کہ دربھنگہ سے متعلق کئی افواہیں اور غلط خبریں سوشل میڈیا پر پھیلائی جا رہی ہیں۔ اس لیے عوام میں ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے جمعرات 27 جولائی کی شام سے 30 جولائی تک انٹرنیٹ خدمات بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔
بہار کے اے ڈی جی پولیس ہیڈکوارٹر جے ایس گنگوار کے مطابق دربھنگہ میں حالات پوری طرح پرامن ہیں۔ اس کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور ضرورت پڑنے پر انٹرنیٹ سروسز پر پابندی کو بڑھایا یا کم کیا جا سکتا ہے۔
یہ تنازع دربھنگہ میں گزشتہ ہفتہ یعنی 22 جولائی کو محرم کے جھنڈے کی تنصیب کو لے کر شروع ہوا تھا۔ جس کی وجہ سے دونوں فریقوں میں جھگڑا بہت بڑھ گیا۔ خبر کے مطابق اس کشیدگی کے بعد تشدد بھی شروع ہو گیا۔
ہفتہ کے روز، مبی او پی علاقے میں بازار سمیتی چوک کے قریب ایک مندر کے باہر محرم کے جھنڈے (نشان) لگانے پر دو برادریوں کے درمیان جھگڑا ہوا۔ جب دوسری برادری نے وہاں جھنڈا لگانے کی مخالفت کی تو انتظامیہ نے دونوں پارٹیوں کو جھنڈا ہٹانے پر راضی کر لیا۔
دربھنگہ کے ضلع مجسٹریٹ راجیو روشن کہتے ہیں، "حالانکہ یہ جھنڈا تہواروں کے دوران کچھ وقت کے لیے لہرایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود دونوں فریقوں کو جھنڈا ہٹانے پر آمادہ کیا گیا لیکن دونوں طرف کے کچھ نوجوانوں نے بدامنی پھیلانے کی کوشش کی۔
خبر کے مطابق اس کے بعد دونوں جانب سے اینٹ اور پتھر بھی برسائے گئے۔ بعد ازاں پولیس کی مداخلت کے بعد معاملہ پرامن ہوگیا۔ دربھنگہ پولیس نے بھی اس معاملے کو لے کر کسی بھی افواہ سے بچنے کا مشورہ دیا تھا۔
انتظامیہ کی مداخلت کے بعد معاملہ دربھنگہ کے شہری علاقے میں تو پرسکون ہوا لیکن سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر پھیلی افواہوں کی وجہ سے یہ کشیدگی ضلع کے دیگر علاقوں تک بھی پہنچ گئی۔
اس واقعہ کے اگلے دن یعنی اتوار کو کمٹول تھانہ کے دھرم پور مالپٹی گاؤں کے شمشان گھاٹ میں ایک لاش کو جلانے کو لے کر جھگڑا ہوا اور پیر کو دونوں برادریوں کے درمیان پھر کشیدگی پیدا ہوگئی۔ مذہبی رسومات کے لیے کربلا کی مٹی لانے کے راستے میں جھگڑا شروع ہوگیا۔
دربھنگہ ڈی ایم کے مطابق جس راستے سے کربلا کی مٹی لائی جا رہی تھی اس کے پاس لائسنس تھا اور اجازت دی گئی تھی۔ اس راستے سے ہر سال مٹی لائی جاتی ہے۔
ڈی ایم کے مطابق، "اس کے باوجود کچھ لوگوں نے کہا کہ اس بار وہ اس راستے سے مٹی نہیں لینے دیں گے۔”اوریہیں سے تنازعہ شروع ہوا۔ یہ نئے لوگ تھے جو باہر سے آئے تھے اور مٹی دینے سے انکار کر رہے تھے۔ ان سب کی شناخت کی جا رہی ہے۔‘‘
دربھنگہ پولیس نے ان تینوں معاملات میں ایف آئی آر درج کی ہے اور کئی لوگوں کو گرفتار بھی کیا ہے۔ اس وقت پولیس اور انتظامیہ کی موجودگی کی وجہ سے ضلع میں حالات پرامن ہیں۔ لیکن انتظامیہ کو افواہوں کا خوف اب بھی منڈلا رہا ہے۔ فی الحال پولیس اور انتظامیہ کی نگرانی میں دربھنگہ شہر میں کشیدگی کو قابو میں کر لیا گیا ہے لیکن انٹرنیٹ پر سے پابندی ہٹائے جانے کے بعد افواہوں اور گمراہ کن خبروں کے پھیلنے کا امکان ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔(بشکریہ بی بی سی ہندی)
Comments are closed.