غزہ میں امدادکی ترسیل: امریکہ اور اسرائیل میں تناؤ

خورشید عالم داؤد قاسمی
نتن یاہو مذاکرات سے کیوں گریزاں ہیں؟
غزہ کی پٹی اس وقت نہایت ہی سنگین انسانی بحران کا شکار ہے۔ اسرائیلی قابض ریاست کسی بھی قسم کی انسانی امداد غزہ تک پہنچنے نہیں دے رہی، جس کے باعث وہاں کے عوام شدید اذیت اور اضطراب میں مبتلا ہیں۔ متعدد بار جنگ بندی اور انسانی بنیادوں پر مذاکرات کی کوششیں ہو چکی ہیں؛ مگر اسرائیلی حکومت نے ان تمام کوششوں کو ناکام بنا دیا۔ وزیراعظم نتن یاہو بخوبی جانتے ہیں کہ اگر اسرائیلی یرغمالوں کی رہائی کے بدلے مذاکرات کامیاب ہو گئے؛ تو ان کی حکومت کو شدید سیاسی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ نتن یاہو حکومت کا خاتمہ بھی ممکن ہے۔ یہی اندیشہ انھیں مذاکرات سے گریز پر مجبور کر رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ اور دیگر بین الاقوامی امدادی اداروں نے اسرائیل کی جانب سے امداد کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کو انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ان اداروں نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں قحط اور غذائی قلت کے خطرات تیزی سے بڑھ رہے ہیں، اور اگر فوری امداد نہ پہنچی؛ تو ایک سنگین انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔
خیرسگالی کے طور پر ایڈن الیگزینڈر کی رہائی:
ایسے میں جب اسرائیل اور غزہ کے درمیان کشیدگی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے، حماس اور امریکہ کے درمیان براہِ راست مذاکرات اسرائیل کے لیے ایک غیر متوقع اور پریشان کن پیش رفت ثابت ہوئے ہیں۔ ایڈن الیگزینڈر، ایک اکیس سالہ امریکی-اسرائیلی فوجی، جسے حماس نے 7 اکتوبر 2023 کو یرغمال بنایا تھا، چار سو چوراسی دنوں تک حماس کی قید میں رہا۔ اس دوران صہیونی ریاست غزہ میں بے گناہ شہریوں پر حملے کرتی رہی؛ لیکن اپنے فوجی کو آزاد کرانے میں مکمل طور پر ناکام رہی۔ اب، امریکہ کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کے نتیجے میں، حماس نے 12/مئی 2025 کو ایڈن کو خیرسگالی کے طور پر رہا کر دیا ہے۔ اسے ریڈ کراس کے نمائندوں کے حوالے کیا گیا، جس کے بعد وہ اسرائیل واپس پہنچا۔ تاہم، اس نے وزیراعظم نتن یاہو سے ملاقات سے انکار کر دیا، جو اسرائیلی حکومت کے لیے ایک علامتی دھچکہ تصور کیا جا رہا ہے۔ ایڈن کی واپسی پر تل ابیب اور امریکہ کے شہر ٹینافلائی، نیو جرسی میں خوشی منائی گئی۔
یہ مذاکرات مارچ 2025 کے اوائل میں دوحہ، قطر میں بالواسطہ طور پر منعقد ہوئے تھے، جن میں امریکی نمائندہ اسٹیو وٹکوف (صدر ٹرمپ کے مشیر)، حماس کے نمائندے اور قطری حکام شریک تھے۔ ان مذاکرات کا محور نہ صرف ایڈن الیگزینڈر کی رہائی تھا؛ بلکہ جنگ بندی کے دوسرے مرحلے پر بھی تفصیلی گفتگو ہوئی تھی۔ پھر 14/ مارچ کو حماس نے اعلان کیا تھا کہ وہ ایڈن کے علاوہ چار ایسے افراد کی لاشیں بھی واپس کرنے کے لیے تیار ہے جو دوہری شہریت رکھتے تھے۔ تاہم، اسرائیل نے ان مذاکرات کو حماس کی "نفسیاتی چال” اور "چالاکی پر مبنی حکمتِ عملی” قرار دے کر یکسر مسترد کر دیا۔
امداد کی ترسیل پر اسرائیل کا مؤقف:
صہیونی قابض ریاست اسرائیل امدادی سامان کی فراہمی کو روکنے کے لیے یہ مؤقف اختیار کرتی ہے کہ حماس ان امدادی اشیاء کو ذخیرہ کر کے یا فروخت کر کے جنگی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے۔ اسرائیلی حکام کا دعویٰ ہے کہ یہ امداد دہشت گرد نیٹ ورک کو مضبوط کرنے اور اسرائیلی شہریوں کی سلامتی کے لیے خطرہ بننے کا سبب بنتی ہے۔ ان کے مطابق، امداد کی ترسیل پر عائد پابندیاں دراصل حماس کی عسکری طاقت کو محدود کرنے کی ایک حکمت عملی ہیں۔ تاہم، حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق، غزہ پٹی کی اسّی فیصد آبادی کو فوری انسانی امداد کی ضرورت ہے، اوردس لاکھ سے زائد افراد غذائی قلت کا شکار ہیں۔ عالمی ادارۂ خوراک (وی ایف پی) اور ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی "انروا” بارہا خبردار کر چکے ہیں کہ اگر فوری طور پر مکمل رسائی نہ دی گئی؛ تو غزہ میں "مہلک قحط” جنم لے سکتا ہے۔
امدادی سامان پر پابندیاں لگا کر اسرائیل درحقیقت فلسطین کے معصوم بچوں، بے گناہ شہریوں اور عام لوگوں کی زندگیوں سے سنگین کھیل کھیل رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے نے اسرائیلی رکاوٹوں کو انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے، اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد روکنے کو "اجتماعی سزا” سے تعبیر کیا ہے۔ یہ عمل صرف انسانی حقوق کی پامالی ہی نہیں؛ بلکہ عملی طور پر نسل کشی کے زمرے میں آتا ہے۔ آج غزہ اور دیگر فلسطینی علاقوں میں رہنے والے لوگ مختلف نوعیت کی نسل کش پالیسیوں کا سامنا کر رہے ہیں، جن میں بھوک، بیماری، پانی کی قلت اور قحط جیسے ہتھیار شامل ہو چکے ہیں، جو انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں۔
اسرائیلی صہیونی میڈیا کا پراپیگنڈہ:
جس طرح صہیونی ریاست فلسطینیوں کے خلاف جارحیت میں پیش پیش ہے، اُسی طرح اسرائیلی صہیونی میڈیا نے بھی حماس، فلسطینی مزاحمت اور انسانی امدادی تنظیموں کے خلاف ایک منظم اور وسیع پراپیگنڈہ مہم شروع کر رکھی ہے۔ اس مہم کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ امداد کو دہشت گردی سے جوڑ کر پیش کیا جائے؛ تاکہ عالمی رائے عامہ کو گمراہ کیا جا سکے۔ اسرائیلی میڈیا بارہا یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ انسانی امداد درحقیقت حماس کی عسکری سرگرمیوں کو سہارا دے رہی ہے، اور اقوامِ متحدہ سے وابستہ ایجنسیاں، خصوصاً "انروا” درپردہ حماس سے ملی ہوئی ہیں۔ اس پراپیگنڈہ مہم کا بنیادی مقصد بین الاقوامی امدادی اداروں کے کردار کو مشکوک بنانا، فلسطینی عوام کی مظلومیت پر پردہ ڈالنا اور عالمی سطح پر اسرائیلی موقف کو اخلاقی جواز فراہم کرنا ہے۔ اسرائیلی میڈیا اپنے اثر و رسوخ اور نیٹ ورکنگ کا استعمال کرتے ہوئے مغربی عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ غزہ میں جاری تباہی دراصل ایک "دفاعی جنگ” کا نتیجہ ہے، نہ کہ جارحیت یا نسل کشی۔
تاہم، دنیا کی باشعور عوام، آزاد صحافی اور بین الاقوامی ادارے اب اس صہیونی بیانیے کو مسترد کر رہے ہیں۔ الجزیرہ، بی بی سی اور دیگر عالمی میڈیا ادارے وقتاً فوقتاً اسرائیلی مظالم اور فلسطینیوں کی حالتِ زار کو بے نقاب کرتے رہے ہیں۔ حالیہ رپورٹس اور زمینی حقائق واضح کر چکے ہیں کہ غزہ میں شہری آبادی کو اجتماعی سزا دی جا رہی ہے، جسے کسی بھی مہذب ضمیر کے حامل انسان کے لیے قبول کرنا ممکن نہیں۔ صہیونی میڈیا جو بھی بیانیہ پیش کرے، اب یہ حقیقت چھپائی نہیں جا سکتی کہ اسرائیلی ریاست منظم طریقے سے عام فلسطینیوں کی نسل کشی میں مصروف ہے ، چاہے وہ بمباری ہو، خوراک اور ادویات کی بندش ہو، یا جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے مظلوم کو ظالم بنا کر پیش کرنا ہو۔
اسرائیلی عوام اور بین الاقوامی ردعمل:
اگرچہ اسرائیلی حکومت نتن یاہو کی قیادت میں سخت گیر اور جارحانہ پالیسیوں پر عمل پیرا ہے، تاہم خود اسرائیل کے اندر ایک غیر صہیونی مؤثر طبقہ ایسا بھی موجود ہے جو ان پالیسیوں سے اختلاف رکھتا ہے۔ کئی اسرائیلی شہری غزہ میں پیدا ہونے والے سنگین انسانی بحران پر گہری تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مسلسل جنگ اور محاصرہ نہ صرف فلسطینی عوام کے لیے تباہ کن ہے؛ بلکہ خود اسرائیلی یرغمالوں کی رہائی کی راہ میں بھی رکاوٹ ہے۔ اس طبقے کا مطالبہ ہے کہ حکومت جنگی پالیسی کے بجائے سفارتی راستہ اپنائے اور حماس سے مذاکرات کے ذریعے یرغمالوں کی واپسی ممکن بنائے۔
بین الاقوامی سطح پر بھی اسرائیلی پالیسیوں کے خلاف شدید ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔ یورپ، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور دیگر مغربی ممالک میں عوام، انسانی حقوق کی تنظیمیں، دانشور اور طلبہ کی تحریکیں بڑی تعداد میں فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کر رہی ہیں۔ یونیورسٹی کیمپسز، سڑکیں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے مناظر سے بھرے ہوئے ہیں۔ ان مظاہروں اور تحریکوں نے مغربی حکومتوں پر واضح دباؤ ڈالا ہے کہ وہ اسرائیل کی اندھی حمایت سے باز آئیں اور فلسطینیوں کے انسانی حقوق کا دفاع کریں۔ یہ بدلتا ہوا عالمی رجحان اس بات کا ثبوت ہے کہ صہیونی بیانیے کو اب چیلنج کیا جا رہا ہے، اور عوام الناس کی بڑھتی ہوئی آگاہی اسرائیل کی سفارتی تنہائی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔
امریکہ کی حکمت عملی اور اختلافات:
امریکہ غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کے لیے اقوامِ متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں سے تعاون کر رہا ہے، تاہم اس نے "انروا” کو امداد دینے سے انکار کر دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ "انروا” کے بعض اہلکاروں کے حماس سے روابط کے الزامات ہیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ امداد کی ترسیل یونیسف، ورلڈ فوڈ پروگرام اور دیگر غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعے ہو؛ تاکہ امدادی عمل کو تیز اور مؤثر بنایا جا سکے۔ تاہم، امدادی ادارے ان منصوبوں پر تحفظات رکھتے ہیں جن میں امداد کی تقسیم پر اسرائیلی مداخلت شامل ہے؛ کیوں کہ یہ امدادی سرگرمیوں کی غیر جانبداری پر سوال اٹھاتی ہے۔ غزہ میں امداد کی ترسیل کے حوالے سے امریکہ اور اسرائیل کے درمیان واضح اختلافات ہیں، جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ پیدا ہو گیا ہے۔ امریکہ کی نئی حکمت عملی اسرائیل کے مؤقف سے متصادم ہے، جو فلسطینیوں کی مکمل ناکہ بندی کی حمایت کرتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا غیر متوقع مؤقف:
دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ، جنھوں نے چند مہینے قبل غزہ کو "پکنک پوائنٹ” بنانے اور وہاں سے فلسطینیوں کی جبری منتقلی کی بات کی تھی، اب وہ اسرائیلی کارروائی کو "وحشیانہ جنگ” قرار دے چکے ہیں۔ وہ اسرائیل کو اعتماد میں لیے بغیر یمن کے حوثیوں سے بھی مذاکرات کر چکے ہیں اور امریکی مفادات کے تحت ان سے معاہدہ کیا ہے۔ ٹرمپ کا ایک اور غیر متوقع اقدام یہ تھا کہ انھوں نے اپنے شہری ایڈن الیگزینڈر کی رہائی کے لیے براہِ راست حماس سے مذاکرات کیے، جس پر صہیونی ریاست کو سخت ناراضگی ہوئی۔ ان واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ فلسطین کو ریاست تسلیم کر لیں گے، مگر ان کی پچھلی صدارت کا ریکارڈ اس کے برخلاف ہے۔ ٹرمپ نے ہمیشہ اسرائیل نواز پالیسی اپنائی ہے اور ابھی وہ اپنے سعودی عرب کے دورے پر بھی "معاہدۂ ابراہیمی” کی بات کر رہے ہیں۔ تاہم، اگر امریکی عوام کی جانب سے دباؤ بڑھا؛ تو ممکن ہے ٹرمپ اپنی پالیسی میں نرمی لانے پر مجبور ہو جائیں۔
حماس کا سفارتی فائدہ:
حماس کی جانب سے ایڈن کی رہائی ایک بڑی اسٹریٹیجک کامیابی ہے۔ اس سے حماس کو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ملی ہے، خاص طور پر ان حلقوں میں جو فلسطینیوں کے حقوق کے حامی ہیں۔ یہ اقدام حماس کو ایک "پرامن” قوت کے طور پر پیش کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے، جو اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ علاوہ ازیں، یہ اقدام فلسطینیوں کے درمیان حماس کی مقبولیت میں اضافہ کر سکتا ہےاور امریکہ جیسے طاقتور ملک کے ساتھ حماس کے تعلقات میں نرمی کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔ حماس کی یہ حکمت عملی اسرائیل پر دباؤ بڑھانے، قیدیوں کے تبادلے کی راہ ہموار کرنے اور جنگ بندی کے امکانات کو بڑھا سکتی ہے۔
پیچیدگی کا فائدہ فلسطین کے حق میں:
موجودہ صورت حال کسی حد تک پیچیدہ ہے اور اس پیچیدگی کا فائدہ فلسطین کے حق میں اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس موقع پر کچھ اہم ممالک کی پیش رفت سے اسرائیل اور امریکہ کے تعلقات میں تبدیلی آسکتی ہے۔ مشرق وسطی کی مجموعی پالیسی پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اگر امریکہ نے انصاف اور آزادی کے ساتھ ثالثی کا کردار ادا کرنا شروع کیا؛ تو صہیونی ریاست کی سفارتی تنہائی میں اضافہ ہو سکتا ہے اور فلسطین کے حق میں عالمی رائے مضبوط ہو سکتی ہے۔ کچھ اہم عرب اور مسلم ممالک کو چاہیے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور امریکہ سے مل کر اس حوالے سے بات چیت کریں؛ تاکہ ایک اہم قضیے کا حل ممکن ہو سکے۔ ••••
Comments are closed.