ہندوستان ادب کے زیر اہتمام ایک شام نور جمشیدپوری کے نام

زخم تازہ ہوئے ہواؤں سے : خوف آتا ہے اب گھٹاؤں سے

 

مظفرپور : (پریس ریلیز)

ریاض سعودی عرب میں مقیم معروف شاعرہ نور جمشیدپوری کی مظفرپور آمد پر ہندوستان ادب کے زیر اہتمام "ایک شام نور جمشیدپوری کے نام” کا اہتمام نوجوان سماجی کارکن فہد زماں کی رہائش نیو کالونی مٹھن پورہ میں ہوا. محفل کی صدارت بزرگ شاعر پروفیسر صبغۃ اللہ حمیدی نے فرمائی جبکہ نظامت کا فریضہ ڈاکٹر جلال اصغر فریدی نے انجام دیا. پروگرام میں مہمان ذی وقار کی حیثیت سے عبدالغفار خاں (تبوک، سعودی عرب) بھی شریک تھے. ناظم مشاعرہ نے مہمان شاعرہ کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ محترمہ نور جمشیدپوری کی ادبی اور تدریسی خدمات تقریباً دو دہائیوں پر محیط ہیں. انہوں نے متعدد قومی اور بین الاقوامی مشاعروں میں شرکت کی ہے. اخبارات و رسائل میں ان کی تخلیقات شائع ہوتی رہی ہیں. انہوں نے آل انڈیا ریڈیو اور سعودی ریڈیو کو بھی اپنی خدمات پیش کی ہیں. ڈاکٹر جلال اصغر فریدی نے مظفرپور کی ادبی تاریخ پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی. پروگرام میں مہمانان کے علاوہ محفوظ احمد عارف، خلیل الرحمٰن قاسمی، پروفیسر حسن رضا (صدر شعبہ اردو آر ڈی ایس کالج)، کامران غنی صبا، عالم صدیقی، شاہنواز احمد، ہیم چندر دیپک، مفتی عرفان قاسمی، اسلم رحمانی، غلام علی، محمد فرزان، تسنیم فاطمہ وغیرہ شریک ہوئے. کامران غنی صبا کے شکریہ کے ساتھ یہ یادگار ادبی شام اختتام کو پہنچی. پروگرام میں پیش کیے گئے کلام کا منتخب حصہ پیش خدمت ہے

 

اپنے الفاظ کو بازاری نہیں کرتے ہیں

دل کی کہتے ہیں اداکاری نہیں کرتے ہیں

(صبغۃ اللہ حمیدی)

زخم تازہ ہوئے ہواؤں سے

خوف آتا ہے اب گھٹاؤں سے

ساتھ اس کا نہیں میسر جب

کیوں بھلا ہم ملیں فضاؤں سے

(نور جمشیدپوری)

نئی تہذیب کی اب تتلیاں نازک نہیں ہوتیں

یہ وہ شیشہ ہیں جن سے سنگ بھی اب خوف کھاتا ہے

(محفوظ عارف)

زندگی تجھ کو سمجھنے میں بہت دیر لگی

کیا بتائیں کہ سمجھنے میں لگا کیا کیا کچھ

(خلیل الرحمٰن قاسمی)

دل کو مضبوط کر لو تم اپنے

خونچکاں واقعات ہیں دل کے

(ڈاکٹر حسن رضا)

میں نے رکھا ہے اسے یاد دلانے کے لیے

میرے شیشے کے گھروندے پہ جو پتھر آیا

(جلال اصغر فریدی)

میرے چاروں سمت آتا ہے نظر پانی کا رقص

ہائے نادانی کہ دریا میں ہے طغیانی کا رقص

(کامران غنی صبا)

عالم یزیدیت کا وہ اٹھتا سر غرور

میدان کربلا میں بہتر سے کٹ گیا

(عالم صدیقی)

وہ خوشی ملی بھی کیسے کسی اور سے لپٹ کے

جسے ہر خوشی میں سوچا اسے خودکشی نے مارا

(ہیم چندر دیپک)

Comments are closed.