Baseerat Online News Portal

سناتن کے ساتھ بائیڈن : یک نہ شد دو شد

 

ڈاکٹر سلیم خان

بی جے پی کے ستارے فی الحال گردش میں ہیں۔ وہ  ایک مصیبت کو دعوت دیتی ہے تو اس کے  ساتھ دوسری مفت میں چلی آتی ہے۔ مثلاً جی ٹوینٹی کا اجلاس ہی کیا کم تھا کہ اس کے ہمراہ امریکی صدر کو سرکاری دورے پر بلا لیا ۔ چین اور روس کے انکار سے ویسے ہی جی ٹوینٹی کا دم نکالدیا اب اگر بائیڈن بھی نہ آتے تو رنگ میں بھنگ پڑ جاتا۔ ان کی  آمد تو یقینی بنانے کی خاطراجلاس کے ساتھ  سرکاری دورہ نتھی کردیا  گیا۔ امریکی  صدر  کسی سربراہ سے ملاقات  کے بعد  منہ نہیں چھپاتا بلکہ اخباری نمائندوں کو بات چیت سے واقف کرا کر ان کے سوالات کا جواب دیتا  ہے ۔  مودی جی سے تو اپنی رٹی رٹائی تقریر کے سوا کچھ ہوتا ۔امریکہ میں انہوں نے ہمت کرکے  دوسوالات کا جواب دینے کی جرأت دکھائی تو صبرینا صدیقی نے انہیں پانی پلا دیا۔ مودی جی کا وہ خوف اپنے ملک میں بھی نہیں گیا اس لیے  امریکی صدر جو بائیڈن کی ٹیم کو دہلی میں دو طرفہ میٹنگ کے بعد میڈیا  نےسوالات  کی اجازت نہیں دی۔

 دنیا کی تاریخ  میں  صحافیوں سے اس قدرخوفزدہ  اور بزدل حکمراں کی مثال دینے سے قاصر ہے ۔ صدر بائیڈن کوصحافیوں کے ساتھ  اپنے من کی بات کہنے کے لیے  ویتنام  جانا پڑا ۔ اس طرح ثابت ہوگیا کہ ہندوستان کے اندر صحافتی آزادی ویتنام جیسے پسماندہ ملک سے بھی بدتر ہے۔ امریکہ سے بائیڈن کے ساتھ آنے والےصحافیوں کو جس طرح یرغمال بناکر اپنے فرض منصبی سے روکا گیا اس سے تو سارے عالم میں ہندوستان کی ناک کٹ گئی  پھر اس کے بعد نکٹے نایک کے تماشے میں بھلا کیا دم رہا؟ عالمی خبر رساں ایجنسی  رائٹرز نے انکشاف کیا کہ 8؍ ستمبر کو نئی دہلی پہنچنے کے  بعد مودی نے بائیڈن  کے ساتھ بند کمرے میں ملاقات کی۔اس دوران امریکی   نامہ نگاروں کو ایک بس میں یرغال بنا کر رکھا گیا۔ امریکی صدر کو دنیا بھر میں کور کرنے والےصحافیوں پر امریکہ میں مودی کے چہیتے دوست ڈونالڈ ٹرمپ نے  بھی  ایسی پابندی لگانے  کی حماقت  نہیں کی تھی ۔ فی الحال  احمقوں کی بارات  میں  ہندوستانی وزیر اعظم سے بہتر دولہا نہیں  ہے۔ ان   کو سب پر فوقیت حاصل ہے۔

بائیڈن نے مودی  کے ساتھ انسانی حقوق اور آزادی صحافت کے احترام کا مسئلہ پر گفتگو کی۔  امریکی صدر کو ان مسائل  بولنے سے روکنے کے  عمل نے بتا دیا کہ  یہاں اظہار رائے کی آزادی کس طرح دم توڑ چکی  ہے۔ مودی کا احساسِ جرم انہیں ’نہ خود بولوں گا اور نہ کسی کو بولنے دوں ‘ کی حکمت عملی  اختیار کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ ارے بھائی اتنا ڈر لگتا ہے تو احمد آباد جاکر آرام کریں۔ دنیا کے سامنے ملک کا نام بدنام کرنے سے کیا حاصل؟ سی این این نے امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کے حوالہ سے  کہا’’چونکہ یہ ملاقات وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر تھی  اس لیے ہندوستانی سرکارنے پریس کو سوال پوچھنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ وزیر اعظم کے گھر میں رہتا ہی کون ہے کہ جس  کی خاطرپریس والوں کو دور رکھا گیا۔ مودی جی کو صحافیوں کے گھر آنے سے اتنا ڈر لگتا ہے مذکورہ ملاقات کہیں اور رکھ دیتے۔ ویسے وزیر اعظم سرکاری محل  تو کافی کشادہ ہے مگر دل کی تنگی انہیں لے ڈوبتی ہے ۔

میڈیا والوں نے اپنی تضحیک کا انتقام لینے کی خاطرمودی اور بائیڈن کے درمیان دو طرفہ بات چیت کے بعد جاری ہونے والے  مشترکہ بیان   کو امریکی نظر انداز کردیا ۔ سی این بی سی سمیت سی این این نے مودی پر اس  سربراہی کانفرنس کو اپنے سیاسی مفاد کی خاطر استعمال کرنے کا سنگین الزام لگا دیا۔  امریکی میڈیا نے نہ صرف دوطرفہ بات چیت کو نظر انداز کیا  بلکہ پورے جی ٹوئنٹی  پر نزلہ اتار دیا۔ سربراہی اجلاس کے  مشترکہ بیان میں   آزادی، جمہوریت، انسانی حقوق، شمولیت، تکثیریت اور تمام شہریوں کے لیے مساوی مواقع ، مشترکہ اقدار اور  باہمی  تعلقات کی  مضبوطی پر زور دینا منافقت کی عظیم ترین منزل تھی کیونکہ  ان  اقدار کو میزبان ملک سے زیادہ کوئی  اور پامال نہیں کرتا ۔

 بائیڈن کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں سناتن دھرم کا مدعا فی الحال مودی سرکار کی خوب   مٹی پلید کررہا ہے  ۔ حکومت ہند نے جی ٹوینٹی کی دعوتِ طعام میں  ملک ارجن کھڑگے کو نظر انداز کرکے اودے ندھی اسٹالن  کے سارے الزامات کو درست ثابت کردیا  ۔     کھڑگے  ملک کی سب سے بڑی حزب اختلاف کے صدر اور ایوان بالا میں رہنما ہیں  لیکن ان کا تعلق دلت سماج سے ہے۔ ا نہیں نہیں بلانے کا معاملہ  محض کینہ پروری تک محدود نہیں رہا بلکہ اسے بجا طور  ذات پات کی تفریق سے جوڑ دیا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایوان پارلیمان کی عمارت کاجب افتتاح ہوا تو اس  وقت بھی  صدر مملکت کو نظر انداز کرکے تمل ناڈو کے پنڈوں کو بلایا گیاجن کا وہاں کوئی کام نہیں تھا ۔ ایسا اس لیے ہوا کہ عزت مآب دروپدی مرمو کا تعلق قبائلی سماج ہے جسے منو نواز حقیر سمجھتے ہیں ۔ ملک کی اولین شہری ہونے کے باوجود ان کو دہلی کے اندر جگن ناتھ مندر میں اندر تک  داخل ہونے سے منع کردیا گیا تھا ۔ حزب اختلاف کے رہنما اور صدر مملکت کے ساتھ یہ سلوک  اودے ندھی اسٹالن کےالزامات کا منہ بولتا  ثبوت  ہے ۔اس طرح کی ڈھٹائی کا مظاہرہ مودی سرکار کی عادت بن گئی اور دنیا بھر کی لعنت ملامت سے بھی اسے عار محسوس نہیں ہوتی ۔

   رام مندر کے شیلانیاس  میں بھی یہی  ہوا تھا ۔ اتر پردیش کے رہنے والے رام کے ہم نام صدر مملکت  رام ناتھ کووند کو ایودھیا  سے قریب پھٹکنے تک نہیں دیا گیا۔رام ناتھ کووند  کے  ساتھ روا رکھے جانے والے  معاندانہ سلوک   کی وجہ   ان کا دلت سماج سے  تعلق  تھا ۔ کسی صدر کو سبکدوشی کے بعد ’ایک ملک ایک انتخاب ‘ کمیٹی کی  سر براہی سونپ دینا  بھی  توہین سے کم نہیں  ہے ۔ جناب رام ناتھ کووند نے بھی اسے برداشت کرلیا کہ کیونکہ انکار کی صورت میں انہیں بھی کسی خود ساختہ الزام پھنسانے سے پس و پیش نہیں  ہوگا۔ ایودھیا میں ملک کے   اولین  شہری  کے بجائے موہن بھاگوت کو دعوت دینا مضحکہ خیز تھا   کیونکہ ان کے پاس نہ  کوئی سرکاری عہدہ  ہے اور نہ   وہ رام جنم بھومی  نیاس کا  حصہ  ہیں۔ اس اعزاز کے لیے ان کا برہمن ہونا کافی ہوگیا ۔ یہی الزام  تو سوامی پرشاد موریہ  لگاتے ہیں کہ  ہندو دھرم کے نام پر ساڑھے تین ہزار سال سے دلتوں کوجھانسہ دیا جارہا ہے۔   

 سناتن دھرم پر اعتراض آیا تو موہن بھاگوت نے یہ کہہ  کر ستیا ناس کردیا کہ ہمارے ملک  میں پچھلے دوہزار سالوں سے بہت سے انسانوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک ہوتا ہے اور اس کو ختم کرنے میں  دو سوسال بھی لگ سکتے ہیں۔ اس کے بعد جی ٹوینٹی میں جب مودی نے ڈھائی ہزار سال سے ہندوستان کو امن و سلامتی کا گہوارہ کہا تو عام لوگوں کو ہنسی آگئی اور اندھے بھگت کنفیوز ہوگئے  کیونکہ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ان میں سے کس کی  بات مانیں ۔  ویسے اس گئی گزری حالت میں بھی کذب گوئی کے اندر بھاگوت کی مجال نہیں کہ مودی کوپچھاڑ سکیں۔  سنگھ کے متضاد  رویہ نے اودےندھی کے ساتھ اے راجہ ، کارتی چدمبرم ،    پرمیشورم ، پرینک کھڑگے،سوامی پرساد موریہ اور بہار کےوزیر تعلیم  چندر شیکھرکو درست  ثابت کردیا ہے ۔  اب یہ معاملہ سناتن کی توہین سے آگےبڑھ کر اسلام کی تعریف تک پہنچ گیا ہے۔ بہار کے وزیر تعلیم چندر شیکھر نے پیغمبر اسلام محمدﷺ کو  ’مریادا پروشوتم‘ کہہ کر سنگھ پریوار کی جان جلا دی کیونکہ  سنسکرت میں  ‘مریادا’ کا ترجمہ ‘عزت و راستبازی’، اور ‘پروشوتم’ کا مطلب  ‘عظیم انسان’ ہوتا ہے۔

مودی جی جس وقت بہار کے وزیر اعلیٰ  نتیش کمار کے ساتھ جی ٹوینٹی کی دعوت اڑا رہے تھے تو ان کا وزیر تعلیم  کرشن جنم اشٹمی کے موقع پر نالندہ کے قریب بابا ابھے ناتھ دھام کے احاطے میں ایک اجتماع سے خطاب کررہا تھا ۔ چند ماہ قبل رام چرت مانس پر تیکھی تنقید کرنے والے چندر شیکھر نے ببانگ دہل کہا کہ : "یب دنیا میں برائی بڑھتی جا رہی تھی، ایمانداری ختم ہو رہی تھی، دھوکے بازوں اور بدکرداروں کی تعداد بڑھ گئی تھی تو اس وقت  ایمانداری لانے کے لیے وسطی ایشیا کے علاقے میں، خدا نے مریادا پرشوتم محمؐد صاحب کو زمین پر بھیجا تھا۔‘‘اس تقریب میں  ریاست کے فن اور ثقافت کے وزیر جتیندر رائے، وزیر محنت وسائل سریندر رام، سائنس اور اطلاعات کے وزیر محمد اسرائیل منصوری، ہلسا کے سابق ایم ایل اے، پارٹی کے ترجمان شکتی سنگھ یادو اور سابق ایم ایل اے چندر شیکھر پرساد بھی موجود تھے۔

 وزیر تعلیم نے یہ بھی کہا کہ ’’مریادا پرشوتم شری رام ذات پات کے ڈھانچے سے خوش نہیں تھے۔ چنانچہ انہوں نے ماتا شبری کا چکھا ہوا  بیرکھا کر  یہ پیغام دیا کہ ذات پات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔  چندر شیکھر نےکہا  کہ ہم  رام کے اس طرز عمل کی توثیق نہیں کر رہے ہیں ‘‘ چندر شیکھر کے اس بیان نے سنگھ پریوار کے تن بدن میں آگ لگا دی ۔ اس نے چندر شیکھر کا جواب دینے کی خاطر بی جے پی  نےاو بی سی مورچہ کے قومی جنرل سکریٹری نکھل آنند کو میدان میں اتارا۔ آنند نے  کہا کہ چندر شیکھر نے جنم اشٹمی کے پروگرام  میں کرشن کے تقدس کو مجروح کرنے کی کوشش کی ہے۔ان کے مطابق وزیر تعلیم چندر شیکھرکا  سناتن دھرم کے خلاف تبصرہ راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کی ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے۔  وہ بولے”ان دنوں، اپوزیشن اتحاد  سناتن دھرم کی توہین کرکے اسلام اور پاکستان کے حمایت کے ذریعہ اپنے ووٹ بینک کو مضبوط  کررہے ہیں ۔  آنند نے مشورہ دیا کہ وہ محمدؐ صاحب کے مقابلے میں بھگوان شری کرشنا کے وجود کو نہیں دیکھ سکتے ہیں، تو انہیں مولانا ٹوپی پہننی چاہیے، نماز پڑھنی چاہیے، ختنہ کرانا کر کر  پاکستان  چلےجانا چاہیے۔ آنند کو پتہ ہونا چاہیے کہ اب اس ملک سے کوئی نہیں جائےگا بلکہ ہندوتوا نوازوں کو اپنا بوریہ بستر گول کرکے ہمالیہ پر بت کے کسی غار میں جاکر دھنی رمانا ہوگا۔ فی الحال بائیڈن اور سناتن دونوں سنگھ پریوار کے لیے مصیبت بنے ہوئے ہیں ۔

Comments are closed.