Baseerat Online News Portal

قوموں کے زوال کا تاریخی احتساب ضروری

عادل فراز
[email protected]
انگریز وںنے طویل مدت تک ہندوستان پر حکومت کی ۔مغلیہ اقتدار کے خاتمے سے پہلے برطانوی نظام ہندوستان میں رائج ہوچکا تھا۔ملک کی بڑی آبادی اس نظام کو تسلیم کرچکی تھی ،کیونکہ انگریز مسلمانوں کی تضعیف اور ہندوئوں کی تقویت کے لئے جدوجہد کررہے تھے ۔چونکہ مسلمان عرصۂ دراز تک ہندوستان پر حکومت کرچکا تھا اس لئے ان کی حکمراں نفسیات کو کچلنے کے لئےمحکوم قوموں کو بڑھاوادینا ضروری تھا ۔اس کے لئے مسلمانوں کو اقتصادی طورپر کمزور کرنے کی کوشش کی گئی ۔انہیں سرکاری ملازمتوں اور اعلیٰ حکومتی مناصب سے برطرف کردیا گیا ۔ان کے درمیان تعلیمی پسماندگی کو فروغ دیاگیا جس کی بناپر وہ اعلیٰ سرکاری عہدوں کے اہل نہیں رہے ۔سرسید نے اس راہ میں بڑی جدوجہد کی ۔جبکہ ایریل مایو سرسید سے پہلے انگریزوں کو مسلمانوں کی حالت زار پر رپورٹ پیش کرچکے تھے ،مگر اس پر کوئی خاص کاروائی نہیں ہوسکی ۔سرسید نے انگریز حکومت کو مسلمانوں کی تعلیمی ،اقتصادی اور تمدنی صورت حال سے نمٹنے کے لئے مضبوط لایحۂ عمل اختیار کرنے پر آمادہ کیا ۔انہوں نے انگریزوں کے دل و دماغ سے مسلمانوں کے ’غدار‘ہونے کے نقوش مندمل کئے اور ملت کو حکومتی دھارے میں لانے کا کام کیا۔تقسیم ہند کے وقت مسلمانوں کو اختیار حاصل تھاکہ خواہ وہ پاکستان چلے جائیں یا ہندوستان میں رہنے کو ترجیح دیں ۔مگر ہمارے بزرگوں نے پاکستان کے قومی نظریے کو مسترد کرتے ہوئے ہندوستان میں رہنے کو ترجیح دی۔اس کا صلہ یہ دیاجارہاہے کہ برطانوی سامراج کی طرز پر ہمیں ’غدار ‘ کہاجاتاہے ۔جنہوں نے پاکستان کے قومی نظریے کو مسترد کیاآج انہیں پاکستان جانے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں ۔سوال یہ ہے کہ اس پر حکومت خاموش کیوں ہے؟ اگر حکومت کی نگاہ میں بھی مسلمان ’غدار‘ اور ’پاکستان جانے کا حق دار ہے ‘ تو پھر تمام سیاسی رہنما ایک رائے کیوں نہیں ہوجاتے ،تاکہ کوئی حتمی فیصلہ ممکن ہوسکے؟
۱۸۵۷ میں بغاوت کی ناکامی کے بعد انگریزافسروں نے بغاوت کاسارا الزام مسلمانوں کے سر منڈھ دیا ۔ان کا الزام تھاکہ مسلمان اس بغاوت کے ذریعہ اپنےکھوئے ہوئے اقتدار کی بازیافت چاہتے تھے۔یہ بغاوت کامیاب ہوسکتی تھی اگر مسلمانوں کے پاس مضبوط قیادت اور منظم لایحۂ عمل ہوتا ۔انگریز وں نے اس بغاوت کو ’رسوا شدہ وقار‘ اور ’محرومیٔ اقتدار‘کے غم کے اندمال کی سعی ٔ لاحاصل قراردیا۔برطانوی عہدیداروں میں دیگر مذاہب کی بہ نسبت مسلمانوں کےخلاف زیادہ غم و غصہ تھا ۔کیونکہ انہوں نے کئی صدیوں تک ہندوستان پر حکومت کی تھی اور اب بھی حکومت کا خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے تھے ۔اس لئے انگریز مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت ،فنون لطیفہ کے شاہکار وں اور تعمیری فن پاروں کو مٹانے کے درپے تھے۔انہوں نے دہلی ،لکھنؤ،کلکتہ سمیت پورے ہندوستان میں مسلمانوں کی عظمت آثار نشانیوں کو مٹانا شروع کردیا ۔مسجدیں مسمار کردی گئیں ،امام باڑوں کو منہدم کردیا گیا ۔ان کی کوٹھیوں اور قلعوں کو سرکاری دفاتر ،تربیت گاہوں ،فوجی کیمپ اور قید خانوں میں بدل دیا ۔عمارتوں کے نام بدلنے کی روایت کو فروغ دیا گیا تاکہ مسلمانوں کی عظمت کے آثار کو ملک سے ناپید کردیا جائے ۔اس کے باوجود وہ ہندوستان کو مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت اور تاریخی عظمت سے عاری نہیں کرسکے ۔مسلمانوں کے وقار اور عظمت کی پامالی کے لئے کئی انگریز عہدیداروں نے یہ تجویز پیش کی کہ دہلی جامع مسجد کو منہدم کردیاجائے تاکہ مسلمانوں پرظاہر ہوجائے کہ ان کاوقار کس قدر پامال ہوچکاہے ۔بعض نے تاج محل کے انہدام کا مشورہ دیااور کہاکہ اس کے سنگ مرمر کی سلوں کو فروخت کرکے بغاوت میں ہوئے نقصان کی تلافی کی جائے ۔آج بھی تاریخ اسی موڑ پر کھڑی ہوئی ہے ۔یرقانی تنظیمیں حکومتی سرپرستی میں مسلمانوں کو یہ باور کروارہی ہیں کہ اب اس ملک میں ان کی کوئی سیاسی اور سماجی حیثیت نہیں رہ گئی ہے ۔اس کا اعلان مسلسل عبادت گاہوں اور گھروں کوغیر آئینی طریقے سے مسمار کرکےکیاجارہاہے ۔اگر کسی عبادت گاہ پر قبضہ دشوار ہے تو اسےعدلیہ کے ذریعہ ہتھیانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ورنہ بابری مسجد کا فیصلہ دیتے وقت عدلیہ کو یہ تبصرہ نہ کرنا پڑتاکہ بابری مسجد مندر توڑ کربنائی گئی ہے ،اسکے شواہد موجود نہیں ہیں ،لیکن ہندوئوں کی ’آستھا‘ کی بنیاد پر یہ جگہ انہیں مندر تعمیر کے لئے دی جارہی ہے ۔یہ جمہوری نظام میں عدلیہ کی بدتر صورت حال ہے ۔کیا اب بھی مسلمان کو خوب غفلت سے بیدارکرنے کے لئے جھنجھوڑنے کی ضرورت تھی؟یا اسے حالات کی حسّاسیت کا اندازہ بذات خود کرنا چاہیے تھا؟
ملک کا سیاسی منظرنامہ تیزی سے بدل رہاہے ۔اس منظرنامے میں مسلمانوں کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے ۔آج بھی مسلمان تمام سیکولر اور جمہوری جماعتوں کے لئے ایک آلۂ کار سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔اس کے نام پر سیاسی الّو سیدھے کئے جاتے ہیں ،مگر اس کا دامن ہمیشہ خالی رہتاہے ۔اب تو عالم یہ ہے کہ جمہوری ملک کا وزیر اعظم پندرہ اگست کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے اعلان کرتاہے کہ آئندہ بھی لال قلعہ پر قومی پرچم وہی لہرائیں گے ۔انہیں یہ اعلان کرنے کا حق ہے کیونکہ انہیں اپنے سیاسی و سماجی کیڈر پر اعتماد ہے ۔انہیں اپنی تنظیمی قوت کا احساس ہے ۔البتہ جس وقت لال قلعہ کی فصیل سے وزیر اعظم یہ اعلان کررہے تھے ،اس وقت میرے کانوں میں لارڈ رابرٹس کے وہ جملے گونج رہے تھے ،جو ۱۸۵۷ کی بغاوت کچلنے کے بعد اس نے اپنی بہن ہیرٹ کو خط میں لکھے تھے :’’انگریز زندگی کی اعلیٰ ترین صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں اوران بدقماش مسلمانوں پر واضح کردیں کہ خداوند کی نصرت کے سہارے ہم آئندہ بھی ہندوستان کے مالک بنے رہیں گے ‘‘۔یہ خوداعتمادی لارڈ رابرٹس کے لہجے میں اس تنظیمی ڈھانچے کی طاقت نے پیداکی تھی ،جو اس وقت ہندوستان کی سیاست کا رخ طے کررہا تھا۔جس نے ہندوستانیوں کو ہندوستانیوں کے مقابلے پر لاکھڑا کیاتھا ۔جو ’تقسیم کرو،راج کرو‘ کی پالیسی نافذ کرنے میں کامیاب تھا۔آج ہندوستان اسی تاریخی صورت حال سے نبرد آزماہے ،جسے انگریز وراثت کےطورپر چھوڑ گئے تھے ۔
ہندوئوں کو مسلمانوں کے زوال اور فکری انحطاط سے سبق لیناچاہیے ۔ اگرآج ان کے پاس اقتدار ہے تو وہ اس طریق کار کو ہرگز اختیارنہ کریں جو مسلمانوں کے زوال کی علامت بن گیا۔اقتدار ہمیشہ کسی کے پاس نہیں رہتا ۔اس کی نفسیات طوائف کی طرح ہوتی ہے جو روزگاہک بدلتی ہے ۔اس لئےصاحبان اقتدار کو فلاح و بہبود کے کاموں کی طرف توجہ دینا چاہیے ۔ایک زمانہ وہ تھاکہ جب مسلمان ’پدرم سلطان بود‘ کے نشے میں دُھت عظمت پارینہ پر فخر کیاکرتے تھے ۔برطانوی راج آچکا تھا مگر مسلم امرا اور رؤسا احساس حاکمیت میں گرفتار تھے ۔وہ اب بھی خود کو بابر اور ہمایوں کی طرح اقتدار کے مالک اور ہندوستان کا حکمراں سمجھتے تھے ۔انہوں نے چھوٹی قوموں اور پسماندہ ذاتوں کےتئیں منکسرانہ رویہ اختیار نہیں کیا بلکہ انہیں اپنا غلام سمجھا۔نتیجہ یہ ہواکہ برطانیہ نے ان کی نفسیات پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ وہ پسماندہ ذاتوں سے بھی بدتر زندگی گذارنے پر مجبور ہوگئے۔یہ تاریخی احتساب ہندوئوں کے لئے درس عبرت بن سکتاہے۔
تاریخ میں ٹھہرائو نہیں ہوتا بلکہ وہ خود کو دہراتی ہے ۔ہندوئوں نے عرصۂ دراز تک اس ملک پر حکومت کی لیکن دراوڑوں اور آسٹرکوں نے انہیں تسخیر کرلیا۔اس کے بعد آریہ اس ملک میں داخل ہوئے ۔انہوں نے دراوڑوں اور آسٹرکوں کو زیر کرکے جنگلوں اور صحرائوں میں بدتر زندگی گذارنے پر مجبور کردیا ۔ہندوستان میں طبقاتی نظام کو فروغ دیا اور مغلوب قوموں کو ’اچھوت‘ قراردیتے ہوئے انہیں جانوروں سے بھی بدتر زندگی دی ۔آریائی حکومت پر مسلمانوں نے غلبہ حاصل کیا اور پورے ہندوستان کو اپنے زیر نگیں کرلیا۔۵۰۰ سال سے بھی زیادہ مدت تک مسلمانوں نے ہندوستان پر حکومت کی اور مخلوط نظام تہذیب کو جنم دیا ۔مسلمانوں کے اقتدار پربرطانوی سامراج نے شدید ضرب لگائی ۔بالکل اسی طرح جس طرح مسلمانوں نے آریائی سلطنت پر لگائی تھی ۔انگریز اقتدار کو ہندوستانی عوام کی مزاحمت اور بغاوت نے ختم کردیا اور آمریت کے محلوں میں جمہوریت نے انگڑائی لی ۔یعنی کسی بھی سلطنت اور اقتدار کو دوام نہیں ہوتا ۔بادشاہوں نے ہمیشہ مذہب کو ہتھیار کےطورپراستعمال کیا۔بادشاہت ختم ہوگئی اب جمہوریت کا راج ہے ۔اس لئے ہرمذہب کے پیرکاروں اور ہر قوم کو اپنے دین اورعقیدے کی آزادی حاصل ہونی چاہیے ۔جولوگ تمام ہندوستانیوں کو ہندو بتلارہے ہیں ،ان کا مقصد بھی مذہب کے سہارے اقتدار کا حصول ہے ،اس لئے ہندوئوں کو بیدار رہنے کی ضرورت ہے ،انہیں چاہیے کہ ۱۸۵۷ کے بعد مسلمانوں کی تنزلی کے اسباب و علل کا مطالعہ ضرورکریں تاکہ وہ ان نفسیاتی،ثقافتی اور تمدنی مسائل کاشکار نہ ہوں جس نے مسلمانوں کی عظمت اور وقار کو ختم کردیا۔

Comments are closed.