کھودا پہاڑ نکلا چوہے کا بچہ
ڈاکٹر سلیم خان
’اچھے دن ‘ کیا ہوتے ہیں ؟ وہ تو کسی نے نہیں دیکھا مگر ایوانِ پارلیمان کے خصوصی اجلاس کا ایجنڈا دیکھنے کے بعد برے دن کیسے آتے ہیں اس کا مشاہدہ ہوگیا اور ہنسی بھی آگئی۔ یہ تو ’کھودا پہاڑ نکلا چوہا ‘ سے بھی بدترصورتحال ہے ۔ اس ’ دال میں کالا‘ تو اسی وقت محسوس ہوگیا جب سرکار نے ایجنڈا کو صیغۂ راز میں رکھا ۔ اس کے بعد شور ہوا اور دباو بڑھا ۔یہاں تک کہ سونیا گاندھی نے باقائدہ خط لکھ دیا تو جا کر حکومت کو شرم محسوس ہوئی اور ایک عارضی (کام چلاو) ایجنڈا پیش کردیا گیا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اجلاس تو پانچ یومیہ ہے مگر ایجنڈاصرف ایک دن کا ہے اور اس میں ہذف و اضافہ کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ ایسا تو عام اجلاس کے ساتھ بھی نہیں ہوتا یہ تو خصوصی اجلاس ہے۔ اس طرح کا اجلاس غیر معمولی حالات میں منعقد کیا جاتا ہے اور اس کے مباحث کے لیے ممکنہ نکات ازخود زبان زدِ عام ہوتے ہیں لیکن یہاں تو سرکار دربار کے خاص لوگ بھی آئیں بائیں شائیں بک رہے ہیں ۔
مرکزی حکومت عام طور دو ہفتہ قبل ایجنڈا ظاہر کردیتی ہے تاکہ متعلقہ لوگ ان موضوعات پر مطالعہ اور تیاری وغیرہ کرلیں۔ اس بار پندرہ کے بجائے پانچ دن قبل 13 ستمبرکو پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس میں پیش کیے جانے والے جن چار بلوں کی فہرست جاری کی گئی۔ ان میں ایک کے علاوہ باقی تین تو پوپ کارن کی طرح ہلکی پھلکی چیزیں ہیں۔ پہلا مدعا یعنی چیف الیکشن کمشنر اور دیگر الیکشن کمشنرز کی تقرری کا بل بھی بلا اعلان ایوانِ بالا میں پیش کیا جاچکا ہے ۔ اس کے لیے ایسی عجلت درکار نہیں تھی بلکہ سرمائی اجلاس تک بڑے آرام سے رکا جاسکتا تھا ۔ اس کے علاوہ ایڈوکیٹ بل، پریس اینڈ رجسٹریشن آف پیریڈیکل بل اور پوسٹ آفس بل کی حالت فرسودہ پوسٹل نظام کی مانند ہے جس کی معنویت تقریبا ً ختم ہوچکی ہے اور وہ دن دور نہیں جب شہروں کی حد تک تو ان میں سے بیشتر پر قفل لگ جائے گا ۔
مرکزی حکومت چونکہ ایجنڈے سے متعلق رازداری برت رہی تھی اس لیے حزب اختلاف کو شور شرابہ کرنے موقع مل گیا اور اس کے بعد جب سرکار نے بحالتِ مجبوری اپنی چونچ کھولی تو کانگریس کے ترجمان جے رام رمیش نے اس کا کریڈٹ لینے کی اپنی سی کوشش کی۔ انہوں نے ٹویٹر پر لکھا، "آخر کار، وزیر اعظم پرسونیا گاندھی کے خط کا دباؤ پڑا اس لیےمرکزی حکومت نے 18 ستمبر سے شروع ہونے والے پارلیمنٹ کے 5 روزہ خصوصی اجلاس کے ایجنڈے کا اعلان کر دیا ہے۔‘‘ کانگریسی ر ہنمانے مزید کہا کہ ، "اس وقت جو ایجنڈا شائع ہوا ہے اس میں کچھ بھی خاص نہیں ہے۔ اس کے لیے نومبر میں ہونے والے سرمائی اجلاس تک انتظار کیا سکتا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ قانون سازی پر ہینڈ گرنیڈ پھینکے جائیں گے۔ پردے کے پیچھے کچھ اور ہو رہا ہے۔ اس کے باوجود، انڈیا اتحاد کی جماعتیں سی الیکشن کمیشن والے بل کی سخت مخالفت کریں گی‘‘۔ مودی سرکار نے چونکہ اس سے قبل کئی بار چوری چھپے اچانک شب خون مارنے کی حرکت کی ہے اس لیےجئے رام رمیش کے اندیشوں کو یکسرخارج کرنا مشکل ہے۔
کانگریس کے علاوہ دیگر جماعتیں بھی پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کے ایجنڈےکو شک شبہ کی نظر سے دیکھ رہی ہیں۔ ترنمول کانگریس کے رہنما ڈیرک اوبرائن نے پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کے ایجنڈے کے حوالے سے کہا کہ ’’پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کے مکمل ایجنڈے کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ میں یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ فہرست میں لکھا ہے کہ یہ کاموں کی جامع فہرست نہیں ہےیعنی وہ (مرکزی حکومت) آخری لمحات میں اس کے اندر کچھ بھی شامل کر سکتی ہے‘‘۔ اس فہرست میں سب سے خطرناک قانون چیف الیکشن کمشنر اور دیگر الیکشن کمشنروں کی تقرری سے متعلق بل ہے۔ اس کو آخری لمحات میں اچانک جب حکمراں جماعت نے اسے ایوان بالا میں پیش کیا تو حزب اختلاف نے خوب جم کر مخالفت کی اور ایوان کی کارروائی تعطل کا شکار ہوگئی ۔ اس بل میں چیف الیکشن کمشنر اور کمشنرز کے انتخاب کے لیے بنائی گئی کمیٹی میں چیف جسٹس کی جگہ کابینہ کے وزیر کو شامل کرناایک معنیٰ میں الیکشن کمیشن کی آزادانہ حیثیت کو ختم کرنے کی سازش ہے۔
مودی سرکار اس بار دنیا کے سب سے قدیم اور سب سے بڑے پوسٹل نیٹ ورکس میں سے ایک ہے ہندوستانی ڈاک کے نظام کو بہتر اور موثر بنانے کی خاطر پوسٹ آفس بل، 2023 کو بھی منظور کروانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ منسوخی اور ترمیمی بل، 2023 کچھ متروک قوانین کو منسوخ کرے گا اور ایک موجودہ قانون میں ترمیم کرے گا۔وکالت ایکٹ، 1961 میں ترمیم کرنے کی خاطروکالت (ترمیمی) بل، 2023 پیش کیا جائے گا تاکہ قانونی پیشے کو منظم کیا جا سکے اور اس کی جوابدہی اور شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔ یعنی الیکشن کمیشن کی شفافیت کا خاتمہ کرکے وکلاء پر شکنجہ کسا جائے گا۔ گودی میڈیا کے ذریعہ ذرائع ابلاغ کا گلا گھونٹنے والی سرکار اب پریس اینڈ رجسٹریشن آف پیریڈیکل بل، 2023 لاکر پریس اینڈ رجسٹریشن آف بکس ایکٹ، 1867 کو بدلنے کی کوشش کرے گی۔ حکومت کا دعویٰ تو یہ ہے کہ اس کے ذریعہ جریدوں کے رجسٹریشن کو منظم کیا جا سکے گااور پریس کی آزادی کا تحفظ ہوگا لیکن موجودہ حکومت سے اس توقع کرنا احمقوں کی جنت میں رہنے جیسا ہے ۔
مذکورہ بالا چار بلوں سے نکلنے والے چوہوں کو نگلنے کے لیے ایک بلی کا انتظام بھی کیا گیا ہے اور وہ دستور ساز اسمبی کی 75؍ ویں سالگرہ کا جشن ہے۔ اس کے تحت ’ سو چوہے کھاکر حج پر جانے والی بلی‘ کی مانند مودی جی ایک لمبی چوڑی تقریر ہوگی۔ سرکارتو کہہ رہی ہے کہ ہندوستانی پارلیمنٹ خصوصی اجلاس کے ساتھ اپنی 75 ویں سالگرہ منانے کے لیے تیار ہے حالانکہ یہ 71؍ واں سال ہے اور اقتدار میں رہنے کے باوجود پارلیمانی امور میں رکاوٹ کھڑی کرنے والوں کو چار سال بعد بھی یہ جشن منانے کا حق نہیں ہے۔ یہ اجلاس اگر متنوع پارلیمانی سفر کی یاد دلائے گا تو اس میں یہ بات بھی آئے گی کہ یہاں برسرِ اقتدار آنے والی ایک جماعت نے اعظم خان کوبغیر کسی معقول وجہ کے پارلیمانی رکنیت سے محروم کردیا تھا۔ ان کی اہلیہ جب اس حلقۂ انتخاب سے منتخب ہوئیں تو انہیں بلاوجہ جیل بھیج دیا گیا۔ اڈانی جیسے بدعنوان سرمایہ دار کو بچانے کی خاطر راہل گاندھی کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی گئی اور انہیں ایک بے کار کے مقدمہ میں پھنسا کر رکنیت چھین لی گئی ۔ آگے چل کر عدالتِ عظمیٰ کا جوتا کھانے کے بعد مرتا کیا نہ کرتا کی مصداق رکنیت بحال کی گئی ۔
ہندوستان کی پارلیمانی تاریخ پر یہ بھی ایک بدنما داغ ہے کہ چیف جسٹس کو بلیک میل کرکے جسٹس بابری مسجد پر غلط فیصلہ لکھوانے کے بعد ان کو فوراً ایوان بالا کی رکنیت سے نواز دیا گیا۔ پربھات گپتا کےقتل میں ملزم اجئے مشرا ٹینی کوایوان رکن بنانے کے بعد وزیر مملکت برائے داخلہ بنوایا گیا ۔ اس کے بیٹے آشیش مشرا نے جان بوجھ کر کسانوں پر گاڑی چڑھا دی اس کے باوجود باپ اور بیٹے کا بال بیکا نہیں ہوا۔ پہلوانوں کے ساتھ بدسلوکی کرنے والے برج بھوش سرن سنگھ نامی رکن پارلیمان کو نکال باہر کرنے کے بجائے کو ہر طرح کا تحفظ دے کر ایوان کو شرمندہ کیا گیا ۔ منی پور کے تشدد پر عدم اعتماد کی تحریک کے جواب میں وزیر اعظم نے دو گھنٹے سے زائد تقریر میں تین منٹ بھی نہیں بولے۔ الیکشن کمیشن کو اپنے پنجرے کا طوطا بنانے کی خاطر چیف جسٹس کو اس سے دور رکھنے کی سازش رچی گئی اور اس تاریخی اجلاس میں اس کو عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ یہ ایسی ناکامیاں ہیں کہ جنھیں کلنک کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
اصل سوال یہ ہے اس خصوصی سیشن کا شوشہ کیوں چھوڑا گیا؟ ممبئی میں انڈیا کا تیسرا اجلاس ہورہا تھا۔ اس سے فقط ایک دن قبل اڈانی کی بدعنوانی کو بے نقاب کرنے والی ایک رپورٹ منظر عام پر آگئی۔ اس طرح سرکار کے خلاف آگ دو آتشہ ہوگئی۔ اس کی جانب سے توجہ ہٹانے کے لیے گودی میڈیا کو خصوصی اجلاس کا چورن تھمایا گیا تاکہ مذکورہ بالا دونوں مصیبتوں سے نجات مل سکے۔ اس اجلاس کے ایجنڈا کو پوشیدہ رکھ کر طرح طرح کی خوش گمانیاں پھیلائی گئیں اور بدگمانیوں کو ہوا دی گئی ۔ میڈیا مصروف ہوگیا عوام کا دھیان ہٹانے کے لیےپہلے’ ون نیشن ون الیکشن ‘پر بحث چھیڑ دی گئی لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ فی الحال ناقابلِ عمل ہے۔ اس کے بعد’ بھارت مقابلہ انڈیا‘ کی جنگ چھڑ گئی اور یہ قیاس آرائی ہونے لگی کہ آئین میں تبدیلی کی جائے گی۔ وہ معاملہ ٹھنڈے بستے میں جانے لگاتو سونیا گاندھی کے دباو میں ایک نہایت کمزور اور آدھا ادھورا ایجنڈا جاری کردیا گیا۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ سرکار خود نہیں جانتی کہ اسے کیاکرنا ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ جلد بازی میں اس نے ایک اتنا بڑا نوالہ منہ میں ڈال لیا ہے کہ جو نہ چبائے بنتا ہے اور نہ نگلا جاتا ہے۔ کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک زبردست اکثریت والی حکومت اس طرح کی آزمائش کا شکار ہوجائے گی۔مودی سرکار نےجوش میں آکر بغیر سوچے سمجھے خصوصی اجلاس کا ایک بوجھ تو اٹھایا مگر سنبھال نہیں پائی اس لیے گرا دیا ۔ اب اس کی حالت مرزا غالب کے اس شعر کی مصداق ہوگئی ہے کہ؎
بوجھ وہ سر سے گرا ہے کہ اٹھائے نہ اٹھے کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے
Comments are closed.