Baseerat Online News Portal

محمد سراج: دنیائے کرکٹ کا روشن چراغ

 

ڈاکٹر سلیم خان

ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں نےآئی پی ایل  میچوں روپیہ تو خوب کمایا مگربرسوں سے کوئی عالمی ٹورنامنٹ نہیں جیت سکے ۔ مودی جی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ایک بھی آئی سی سی ٹورنامنٹ میں  ٹیم انڈیا کا میاب  نہیں ہو سکی  جو امیت شاہ کے بیٹے جئے شاہ کے ماتھے پر کلنک ہے۔ گزشتہ  پانچ سالوں میں تو کسی بھی فارمیٹ کے ٹورنامنٹ فاتح نہیں رہی۔  مشیت نےاس قحط سالی کا خاتمہ محمد سراج نامی  چراغ روشن سے کیا جن کے سامنے سارے دیپک  ماند پڑگئے ۔  سراج نے 21 رنز پر چھ وکٹیں حاصل کرکے پاکستان کے باؤلر وقار یونس  کا ریکارڈ توڑ دیا ۔ 1990 کے ایشیا کپ میں  شارجہ کے اندر وقار نے سری لنکا کے خلاف 26 رنز دے کر چھ وکٹ لیے تھے۔ محمد سراج ایک اوور میں چار وکٹ لینے والا ہندوستان کا پہلا کھلاڑی ہے۔ان  سے قبل پاکستان کے محمد سمیع اور انگلینڈ کے عادل رشید نے بالترتیب 2003 اور 2019 میں یہ ریکارڈ بنایا تھا۔ اتفاق سے یہ تینوں مسلمان ہیں ۔ ہندوستانی کھلاڑیوں میں  ارشد ایوب نے 1988 میں پاکستان کے خلاف 21 دے کر 5 وکٹ لیے تھے ۔ویسے ون ڈے میں  محمد سراج سے زیادہ 37 رن دے کر 7 وکٹ لینے ریکارڈ پاکستان کے کھلاڑی عاقب جاوید کےنام  ہے۔

انڈیا  اور سری فائنل کے میچ پر نظر ڈالیں  تو  پچھلے میں  سخت مقابلہ  کرنے والی میزبان ٹیم نے ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا۔ بدقسمتی سے  پہلے ہی اوور میں بمراہ نے سری لنکا کے اوپنر کو آوٹ کیا ۔ سراج نے  پہلے اوور میں  ایک بھی رن نہیں دیااور اپنے  دوسرےاوور میں  تباہی مچا دی ۔انھوں نے  پہلی گیند پر پتھون نسانکا کو کیچ کروایا اور تیسری گیند پر سدیرا سمارا وکرما کو ایل بی ڈبلیو کیا ۔ اس کے فوراً بعد  چوتھی گیند پر چرتھ اسالنکا کو کیچ کروا دیا اور آخری گیند پر دھنجے ڈی سلواکو بولڈ کیا ۔ چوتھے اوور کے خاتمے پرسری لنکا 12 رنز پر پانچ وکٹیں گنوا چکا تھا ۔ اپنے تیسرے  اوور کی چوتھی گیند پر سراج نے کپتان شناکا کو صفر پر آوٹ کرکے اورسری لنکا  کی کمرتوڑ دی کیونکہ میچ کا سکور صرف  12 رنز تھا اور چھ وکٹیں گر چکی تھیں۔ میچ کےبارہویں اوور کی دوسری گیند پر کُسل مینڈس کو سترہ رن پر آوٹ کرکے محمد سراج نے اپنا چھٹا وکٹ لیااور اس  درمیان   کسی بولر کامیابی نہیں ملی۔  

سن 1994 میں حیدرآباد شہر کے اندر  محمد سراج ایک غریب گھر میں   پید ہوئے۔ان کے والد آٹو ركشا چلاتے تھے اور والدہ دوسرے گھروں میں کام کیا کرتی تھیں۔ سن 2014 تک  انہیں  سیزن بال  سے کھیلنا بھی  نصیب نہیں ہوا اور وہ  ٹینس گیند سے کرکٹ کھیلتے رہے ۔  سن  2015 میں  انہیں    حیدرآباد کی رانجی ٹیم میں جگہ ملی  اور پہلے ہی سیزن میں انھوں نے اپنی باؤلنگ سے سب کی توجہ مبذول کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ سن 2017 میں اچانک آئی پی ایل کے اندر ان کی قسمت ستارہ چمکا ۔   ان کا بیس پرائس صرف  20 لاکھ تھا لیکن انھیں لینے کے لیے حیدرآباد اور بنگلور میں مسابقت قیمت 13 گنا بڑھا دی اور بالآخر’سن رائزرز‘ نے انہیں  ڈھائی کروڑ کی بولی لگا کرخرید لیا۔ اس کے بعد محمد سراج نے کہا تھا کہ اس رقم سے وہ گھر والوں کا قرض ادا کریں گے ۔ اپنی محنت سے آگے بڑھنے والے محمد سراج کا حوصلہ   اس شعر کی مصداق ہے؎

کچھ نہیں ہو گا اندھیروں کو بُرا کہنے سے                         اپنے حصے کا دیا خود ہی جلانا ہو گا

نیوزی لینڈ کے خلاف دوسرے ٹی ٹوئنٹی میچ میں راجکوٹ کے اندر(2017) انھیں ٹیم انڈیا  کاحصہ بنایا گیا ۔ اپنے پہلے میچ  میں انہوں نے  نیوزی لینڈ کے کپتان کو آوٹ تو کیا مگر چار اوورز میں 50 سے زیادہ رنز دے دیئے ۔ وراٹ کوہلی کو محمد سراج پر بہت بھروسہ تھا اس لیے انہوں نے  2019 میں انہیں  آسٹریلیا کے خلاف  ایڈیلیڈ میدان پر ون ڈےٹیم میں انہیں  شامل کیا ۔ آسٹریلیا کے بلے بازوں نے سراج کے 10 اوورز میں 76 رنز بنائے  اوروہ کوئی وکٹ بھی نہیں ملے سکے۔ ا س کے باوجود 2020 میں انہیں  آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ ٹیم میں بھی کھلایا گیا  لیکن  محمد  سراج 2022 تک ہندوستان کی ون ڈے ٹیم سے باہر رہے۔  امسال فروری میں  ایک  ویڈیو نے محمد سراج کو میڈیا میں بحث کا موضوع بنا دیا۔ اس کے اندر  ایک ہوٹل کے اندر استقبال کے دوران کھلاڑیوں کے ماتھے پر تلک لگایا جا رہا تھا ایسے میں   محمد سراج اور عمران ملک نے تلک لگوانے سے اجتناب کیا تو بھگت ناراض ہوگئے۔ سدرشن ٹی وی کے بدنام ِ زمانہ مدیر اعلیٰ  سریش چوہانکے نے اس پرتنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ ’محمد سراج اور عمران ملک نے استقبال کے دوران ماتھے پر تلک نہیں لگوایا۔ وہ پاکستان نہیں انڈین ٹیم کے کھلاڑی ہیں۔ انٹرنیشنل (سطح) کے کھلاڑی بننے کے بعد بھی وہ اپنے مذہب کے متعلق سخت گیر ہیں۔‘

چوہانکے کے  اس  نفرت انگیز ٹویٹ کو دس لاکھ بار دیکھا گيا جبکہ 11 ہزار سے زیادہ افراد نے اسے لا‏ئیک کیا اور پانچ ہزار سے زائد مرتبہ وہ  ری ٹویٹ ہوا۔ اس تبصرہ کرنے والوں کی تعداد 600 سے زیادہ تھی ۔ اس پر ورن دیو نامی احمق نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ ’تلک لگوانے میں کوئی غلط بات تو نہیں ہے، ایسا کرکےان  کھلاڑیوں نے توہین  کی ہے اس لیے ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔‘اس کے جواب میں  محمد زبیر نے سکرین شاٹ کے ساتھ ثابت کیا  کہ وکرم راٹھور اور ہری پرساد موہن نے بھی تلک نہیں لگوایا لیکن سوریش چوہانکے اور دوسرے دائیں بازو کے اکاؤنٹس کی تمام توجہ صرف عمران ملک اور محمد سراج جیسے مسلم کھلاڑیوں پر ہے۔‘ اس کے علاوہ سنہا نام کے صارف نے تلک نہیں لگانے کے حق کو تسلیم کیا  اور دھاول چوپڑا نے لکھا  تلک لگوانا نہ لگوانا ان کی مرضی۔ مودی جی بھی تو جالی والی ٹوپی نہیں پہنتے۔ یہی تو آزادی ہے جو جمہوریت آپ کو دیتی ہے۔ اس احمقانہ نفرت کو بند کریں۔احمد اسحاق نے لکھا: یوگی جی مزار پر جا کر ٹوپی پہننے سے انکار کردیں توخاموشی ۔ مودی جی ٹوپی پہننے سے انکار کر دیں تو یہ چپ رہتے ہیں۔ لیکن اگر محمد سراج، عمران ملک تلک لگانے سے منع کر دیں تو انھیں کھجلی ہونے لگتی ہے۔

محمد سراج اس سے قبل بھی میڈیا میں زیر بحث رہے ہیں ۔ 2017 کے اندر ہندوستانی ٹیم میں شامل کیے جانے کے بعد  جب سارے کھلاڑی قطار میں کھڑےتھے اور قومی نغمہ بج رہا تھا  تو فرط جذبات سے ان کی آنکھوں میں  آنسو آگئے  نکل پڑے۔ اس وقت سوشل میڈیا پر سراج کے حوالے سے حب الوطنی  کی بحث چل پڑی  اورسوشل میڈیا اور بطور خاص ٹوئٹر پر  محمد سراج ٹرینڈ کرنےلگا۔وہ ایک ایسا زمانہ تھا  کہ فلم کےآخر میں  قومی ترانے کے وقت  بیٹھے رہنے کے الزام میں  گرفتاریاں ہورہی تھیں اور یوگی ادیتیہ ناتھ مدرسوں کو قومی پر چم لہرانے کی تاکید کررہے تھے ۔ ایسے میں کئی لوگوں نے  ٹوئٹر ہینڈلز پر  لکھا  تھاکہ ’انڈیا سراج جیسا مسلمان چاہتا ہے۔‘ اسعد اختر نےتائید میں لکھاتھا کہ : ‘جب ملک میں قومی ترانہ بجائے جانے کے وقت اٹھنا چاہیے یا نہیں پر بحث ہورہی ہےمیں محمد سراج کی آنکھوں کے آنسوؤں نے بتایا دیا کہ سچا حب الوطن  کیسا ہوتا ہے۔’ گنیش گنانگ نے لکھا تھا: ‘جس کسی نے محمد سراج کو ‘جَن گَن مَن’ پر روتے ہوئے دیکھا وہ کبھی 52 سیکنڈ کے لیے کھڑے ہونے پر اعتراض نہیں کرےگا۔’ ان کے علاوہ آشوتوش پاٹھک نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ ‘قومی ترانے کے درمیان سراج کی آنکھوں میں آنسو آنا یہ بتاتا ہے کہ ملک کے لیے کھیلنا ان کے لیے کتنا عظیم کام ہے‘‘۔

فی الحال محمد سراج کی تعریف و توصیف محض ان  کی   شاندار گیند بازی کے سبب نہیں   بلکہ اپنی انعامی رقم میدان کی دیکھ ریکھ کرنے والوں کو  یہ کہہ   دے  دینے کی وجہ سے ہورہی ہے کہ   انہوں نے یہ ایشیا کپ فائنل میچ کو ممکن بنایا اس لیے وہی  اس ایوارڈ کے حقیقی مستحق وہی  ہیں۔ یہ محمد سراج  کے عجز و انکسار کا ایک نمونہ ہے۔ دھن دولت کمانے کی خاطر تو سبھی کھیلتے ہیں لیکن کارِ خیر روپیہ لٹانے کی مثال محمد سراج نے پیش کی ہے۔    اس اقدام سے امیت شاہ کے بیٹے جئے شاہ اس قدر  شرمندہ ہوئے کہ انہوں نے محمد سراج سے دس گنا زیادہ یعنی پچاس ہزار ڈالر روپیہ تقسیم کرنے کا اعلان کردیا لیکن دونوں میں  بڑا فرق ہے ۔محمد سراج سے پہلے بھی گراونڈز میں نے کئی بار محنت کی مگر جئے شاہ کی جیب سے ایک آنہ نہیں نکلا ۔ محمد سراج  کا انعام اپنی جیب سے دیاگیا  ہے۔  جئے شاہ  نے عوامی خزانے سےحلوائی کی دوکان پر دادا جی کا فاتحہ پڑھ کر حاتم طائی کی قبر پر لات مارنے کی کوشش  کی ہے۔      اس  فراخ دلی کا مظاہرہ کرنے  کے بعد بھی محمد سراج نے شیخی بگھارنے کے بجائے کہا ہمیں وہی ملتا ہے جو ہماری قسمت میں ہے۔ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ نے تقدیر میں لکھا اوریہ کا میابی اس کی عنایت ہے۔ محمد سراج کا  کھیل ، اعانت اورتبصرہ  کرکٹ کی تاریخ میں  سنہری الفاظ سے لکھے  جانے کے قابل ہے۔

Comments are closed.