Baseerat Online News Portal

دینی تعلیم اور مدارس کی جانب سے مسلمانوں کے رجحانات میں کمی باعث تشویش

میرا مطالعہ
( مولانا ڈاکٹر ) ابوالکلام قاسمی شمسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلمانوں کے لئے دین سب سے اہم ہے ، اور دین اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسلام ہے ، دین اسلام کے ماننے والے ہی مسلم اور مسلمان کے نام سے پکارے جاتے ہیں ،دین اور دین کے سلسلہ میں ضروری معلومات ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے ، دین عقائد ، نماز ، روزہ ،حج ، زکوۃ اور اور دیگر نیک اعمال کا مجموعہ ہے ، اس لئے ان کی ادائیگی کے لئے دین کی تعلیم ضروری ہے ، یہی وجہ ہے کہ دین اسلام میں تعلیم پر بہت زور دیا گیا ہے ، تعلیم کی اہمیت کا اظہار اس سے بھی ہوتا ہے کہ پہلی وحی ” اقراء ” سے شروع ہوئی ، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تعلیم کا سلسلہ جاری کیا ، اور اس کی ابتداء ” صفہ ” سے کی ، یہ تعلیم کی جگہ تھی ، جس پر صحابہ کرام بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے تھے ، اس طرح یہ پہلا مدرسہ تھا ، ھو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا ، اور اس صفہ مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے والے صحابہ کرام اصحاب صفہ کے لقب سے مشہور ہوئے ، اس طرح یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہا ، اور آج بھی جاری ہے
جب اسلام ملک عرب سے نکل کر دنیا میں پھیلا ، تو عجمی ممالک کے لوگوں کو دین کی باتیں بتانے اور سکھانے کے لئے ایسے اداروں کی ضرورت محسوس ہوئی ، جن میں دینی تعلیم اور مقامی ضرورتوں کی تعلیم دی جائے ، چنانچہ مسلمانوں نے سب سے زیادہ دینی تعلیم کی اشاعت اور فروغ کی جانب توجہ دی ،اور ان کو مکاتب اور مدارس کے نام سے موسوم کیا گیا ، مدارس و مکاتب دینی تعلیم کے فروغ کے اہم ذرائع تھے ، اسی لئے مسلم سماج کے اہل خیر حضرات نے اس کی تعمیر و ترقی میں بھرپور حصہ لیا ، مسلم حکمرانوں نے بھی دینی تعلیم کی ترویج و اشاعت کو مدنظر رکھتے ہوئے مدارس و مکاتب کے لیے جاگیریں وقف کیں ، یہی نہیں ، بلکہ ان کو اپنی نگرانی میں چلایا ، جس کی وجہ سے علمائے کرام نے معاش سے بے فکر ہوکر یکسوئی کے ساتھ دین کی اشاعت اور دینی تعلیم کے فروغ میں جم کر حصہ لیا ، حکومت کی جانب سے کفالت اور نگرانی کی وجہ سے ان کو خوب ترقی کے مواقع حاصل ہوئے
ہندوستان میں مسلم حکومت کے زوال اور انگریزی حکومت کے تسلط کے بعد مدارس و مکاتب کو جاری رکھنے میں دشواری شروع ہوگئی ، مدارس و مکاتب کی کفالت حکومت کرتی تھی ، مسلم حکمرانوں کی حکومت ختم ہونے کے بعد یہ سلسلہ بند ہوگیا ، یہی نہیں ،انگریزی حکومت بھی مدارس اور مذہب اسلام کے خلاف سازش کرنے لگی ، جس کی وجہ سے مدارس و مکاتب کی بے بسی بڑھتی گئی ،اور انجام یہاں تک پہنچ گیا کہ مدارس و مکاتب کا انحصار عوامی چندہ پر رہ گیا ، اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے
بر صغیر کے مسلمانوں کا جذبہ قابل قدر رہا کہ انہوں نے مدارس و مکاتب کو دین کی اشاعت کا ذریعہ سمجھا ، اور انہوں نے اپنے بل بوتے پر ان کو چلانے کی ذمہ داری قبول کی ، دینی تعلیم کے فروغ کے لئے بڑے بڑے مدارس قائم کئے ، جن میں ہزاروں طلبہ کی کفالت کی جاتی ہے , طالبات کے لئے الگ مدارس قائم کئے ، جن میں بچیوں کی تعلیم کا انتظام ہے ، یہ سب انتظامات عوامی چندے سے کئے جاتے ہیں ، مسلم سماج کے لوگ قابل مبارکباد ہیں کہ انہوں نے اتنے بڑے نظام کے اخراجات کو اپنے ذمہ لیا ، اور اس کو چلا رہے ہیں ،
ملک کی آزادی کے بعد مسلم سماج میں دینی تعلیم کی جانب سے رجحانات میں کمی دیکھنے میں آتی ہے ، مسلمانوں میں تعلیم کا جائزہ لینے کے لیے حکومت کی جانب سے سچر کمیٹی کی تشکیل عمل میں آئی ،اس کمیٹی نے بڑی محنت سے مسلم سماج کے درمیان تعلیم کا جائزہ لیا ، سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کی تعداد 3 سے 4 فیصد ہے ، بقیہ مدارس سے باہر ہیں
ابتدائی دور میں مسلمانوں میں تعلیم کے ادارے مدارس و مکاتب ہی رہے ، اسی میں ہر طرح کی تعلیم دی جاتی تھی ، جیسے جیسے وقت اور حالات بدلتے گئے تعلیم کے شعبے الگ الگ ہوتے گئے ، اسی کے زیر اثر مدارس اور مکاتب کے لئے تعلیم کا دائرہ صرف دینی تعلیم تک محدود ہوگیا ، ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کے زوال کے بعد ان کو چلانے کی دشواریوں کے پیش نظر یہاں کے علماء نے بھی مدارس کو دینی استحکام اور دینی ضروریات تک محدود رکھا گیا ، اس طرح مدارس و مکاتب کے قیام کے بنیادی مقاصد دینی تعلیم اور اس میں رسوخ قرار پایا ، تاکہ مدارس و مکاتب سے جید اور باصلاحیت علماء پیدا ہوں ،جو مسلمانوں کی دینی ضروریات کی تکمیل کر سکیں ، چونکہ عوامی تعاون اور چندہ سے اس کے دائرہ کار کو وسیع کرنے میں دشواری تھی ، اس لئے اس کے دائرہ کار کو محدود رکھا گیا ، جس کی وجہ سے اہل مدارس کو اس میں کامیابی ملی ، چنانچہ یہ مدارس و مکاتب اپنے قیام کے مقاصد میں کامیاب ہیں ، ان کے فضلاء مسلم سماج کی دینی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں ، ان میں جید عالم ، امام ، خطیب ، مفتی ،قاضی ہیں ، جو دینی ضروریات کی تکمیل کر رہے ہیں
ماضی میں تعلیم کے شعبے متعین نہیں تھے ، اسی لئے ہر شعبہ کی تعلیم ایک ہی ادارہ میں دی جاتی ہے ، مدارس میں بھی یہی رواج تھا ، مدارس میں جہاں قرآن ، احادیث ،فقہ اور دیگر اسلامی علوم و فنون کی تعلیم دی جاتی تھی ، وہیں علم کیمیاء ،علم طبیعیات ،علم معدنیات وغیرہ کی بھی تعلیم دی جاتی تھی ، اسی لئے مدارس سے مفسر ،محدث ، فقیہ وغیرہ بھی پیدا ہوتے تھے ، اور اسی مدارس سے علم فلکیات ،علم نجوم ،علم جمادات ، علم نباتات کے ماہرین بھی پیدا ہوتے تھے ، مگر جب تعلیمی اداروں میں شعبے الگ الگ کئے گئے تو مدارس پر بھی اس کا اثر پڑا ، اور بعد کے دور میں مدارس دینی تعلیم تک ہی محدود ہوکر رہ گئے ، میرے مطالعہ کے مطابق بر صغیر میں اس کا اثر زیادہ پڑا ، اہل مدارس انگریزی حکومت کے خلاف تھے ، اس لئے انگریزی حکومت نے مدارس اور علماء کو خاص طور پر نشانہ بنایا ، اس لئے انگریزی دور حکومت اور آزادی کے بعد دین اور دینی تعلیم کا تحفظ بڑا مسئلہ تھا ، اس لئے اہل مدارس دینی تعلیم کے تحفظ میں لگ گئے اور مدارس کے نصاب تعلیم اور نظام تعلیم پر غور نہیں کیا جا سکا ، حالانکہ ملک کی آزادی کے بعد کچھ موقع ملا تھا کہ اس پر غور کیا جاسکتا تھا ، مگر ایسا نہیں ہوسکا
موجودہ وقت میں مدارس اور دینی تعلیم کی جانب سے مسلمانوں کا رجحان گھٹتا جا رہا ہے ، یہی وجہ ہے کہ مدارس اور دینی تعلیم کے ادارے دن بہ دن کمزور ہوتے جا رہے ہیں ، ویسے بھی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے مسلم بچوں کی تعلیم زیادہ سے زیادہ 4/ فیصد تھی ،اب اس میں بھی گراوٹ آرہی ھے ، یہ نہایت ہی باعث تشویش ہے ، ماہرین کا تجزیہ یہ بتا تا ہے کہ مستقبل میں اس میں مزید گراوٹ کا امکان ھے ، پھر تو حالت ایسی نظر آرہی ہے کہ مساجد میں امامت کے لئے امام ، مدارس و مکاتب میں تعلیم کے لئے مدرس اور ممبر و محراب پر خطاب کے لئے خطیب کو تلاش کرنے کی ضرورت پڑے گی ، اور یہ ملت اسلامیہ کے لئے نہایت ہی خراب وقت ہوگا ،جب وہ دین اور دینی تعلیم سے محروم ہو جائیں گے ، یہ علماء اور دانشوران کے لئے لمحہ فکریہ ہے
موجودہ حالات کے مقابلہ کے لئے عام طور پر یہ تجویز سوشل میڈیا پر یہ دیکھنے میں آتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ مسلم اسکول اور کالج قائم کئے جائیں ، تاکہ مسلم بچے اور بچیوں کو ارتداد سے بچایا جائے ، جبکہ یہ تجویز مناسب نہیں ہے ، میرے مطالعہ کے مطابق اس کا مقابلہ اپنے سسٹم کو مضبوط کر کے کیا جا سکتا ہے ، اس سے مدارس و مکاتب میں طلبہ کی کمی بھی دور ہوگی اور اعلی تعلیم کے لیے راستے بھی ہموار ہوں گے ، اس کی صورت یہ ہے کہ وہ مدارس جن کی سند منظور نہیں ہے ،وہ ابتدائی درجات میں چند برسوں کا اضافہ کر کے اپنے نصاب تعلیم میں متوسطات اور ثانوی درجات کے عصری مضامین کو شامل کردیں ، اس طرح مدارس کے نصاب اور نظام تعلیم کو مزید بہتر بنادیا جائے ، نیز مدارس ہی کی عمارت میں تعلیم کا انتظام دو شفٹ میں کردیا جائے ، ایک شفٹ طلبہ کے لئے ہو اور دوسرا شفٹ طالبات کے لئے ہو ، مدارس ہی میں طلبہ اور طالبات کے لئے الگ الگ شفٹ میں کوچنگ کا انتظام کردیا جائے ، اور ان کو اوپین اسکول سسٹم سے یا کسی مدرسہ بورڈ سے امتحان دلادیا جائے ، اس طرح کے انتظام سے بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے ، نیز اس کی بھی ضرورت ہے کہ اہل خیر حضرات مدارس کے استحکام کی جانب توجہ دیں ، اور ان کی حفاظت کے لئے آگے آئیں ، موجودہ وقت میں اس کی بھی ضرورت ہے کہ ذمہ داران مدارس اساتذہ اور طلبہ کی جانب زیادہ توجہ دیں ، اساتذہ کی تنخواہ کے لئے گریڈ متعین کیا جائے ، ان کو سہولیات فراہم کرانے جائیں ، تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ تعلیم دے سکیں ، ہم اپنے اساتذہ ، مفتی ، قاضی اور امام میں تمام اوصاف دیکھنا چاہتے ہیں ، مگر جب تنخواہ کی بات آتی ہے تو ہم ان کو ایک مزدور سے بھی کم سمجھتے ہیں ، اس کا خراب اثر یہ پڑ رہا ہے کہ علماء اس فیلڈ سے کٹتے جارہے ہیں ، اس لئے ذمہ داروں کو اس پر توجہ کی ضرورت ہے ، افسوس کی بات ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ اپنے سسٹم کو مضبوط کرنے کے بجائے دوسرے سسٹم کی جانب رہنمائی کرتے ہیں ، آج ضرورت ہے کہ ہم اپنے سسٹم کو مضبوط کریں اور اسی میں موجودہ مسائل کی حل تلاش کریں ، جزاکم اللہ خیرا

 

Comments are closed.