خصوصی اجلاس: دیکھنے ہم بھی گئے پر وہ تماشا نہیں ہوا

ڈاکٹر سلیم خان
بات تو صرف پرانے سے نئے دفتر میں منتقل ہونےکی تھی ۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ کے زمانے میں اگر نئی پارلیمانی عمارت تعمیر ہوئی ہوتی تو مانسون سیشن کے آخری دن اعلان کیا جاتا کہ سرمائی اجلاس نئی عمارت میں ہوگا۔ فی الحال ملک میں مودی جی کا ’امرت کال ‘ چل رہا۔ اس میں وہ ہمیشہ زندہ رہنا چاہتے ہیں اور بیچاری عوام کا کیا ہے ؟وہ تو عرصہ ہوا ’مرت کال ‘ میں موت کی نیند سوچکی ہے ۔ وزیر اعظم مودی کے لیے ایوان پارلیمان کی نئی عمارت ایک ایسا کھلونا ہے جس سے کھیلتے ہوئے وہ بار بار ٹیلی ویژن پرنمودار ہوتے رہےہیں۔ دورانِ تعمیر اچانک معائنہ کرنے کے لیے پہنچ گئے تو بہت بڑی خبر بن گئی۔ کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ ملک میں لاک ڈاون ہے ۔ لوگ مررہے ہیں لیکن یہ کام کیوں کر جاری ہے؟ ایوان کی عمارت کے افتتاح میں الہ باد سے سینگول اور تمل ناڈو پنڈے بلوائے گئے ۔ یہ مودی جی کو تمل ناڈو سے انتخاب لڑانے کی سازش تھی مگر اودے ندھی اسٹالن نے سناتن پر بیان دے کر ایسے حالات پیدا کردیئے کہ این ڈی اے سے اے آئی ڈی ایم کے نکل بھاگی۔ اب اگر مودی وہاں سے الیکشن لڑیں تو ضمانت ضبط ہوجائے۔ انا ڈی ایم کے رہنما جئے کمار کے مطابق بی جے پی کو نوٹا سے بھی کم ووٹ ملیں گے۔ یعنی سینگول معاملے میں کھایا پیا کچھ نہیں گلاس پھوڑا بارہ آنہ والا معاملہ ہوگیا۔
ایوان پارلیمان کے خصوصی اجلاس کے ایجنڈا سے متعلق وزیر اعظم نے بڑے فخر سے کہا کہ ’اس کا علم تو حزب اقتدار کے ارکان پارلیمان کو بھی نہیں ہے‘۔ ان کے خیال میں اچھی بات ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ حکومت کواپنے پتےّ کھولنے میں اتنا ڈر کیوں لگتا ہے؟ قوی امکان ہے کہ وزیر اعظم کو اپنی گھسی پٹی تقریر کے سوا خود بھی کچھ معلوم نہیں تھا ۔ مودی جی کے بھاشن سن سن کر عوام اب اس قدر پک چکی ہے کہ ان آواز کے سنتے ہی ٹیلی ویژن کا چینل بدل جاتا ہے کیونکہ اس میں کچھ بھی نیا نہیں ہوتا ۔لوگ باگ وہی پرانا ریلوے اسٹیشن کے غریب بیٹے کا وزیر اعظم بن جانے والی کہانی سنتے سنتے پک چکے ہیں۔ وہ آگے یہ بھی نہیں بتاتے کہ اب وہ گدڑی کا لال دس لاکھ کا کوٹ پہنتا ہے اور آٹھ ہزار کروڈ کے جہاز میں چلتا ہے لیکن لوگ اسے دیکھ رہے ہیں۔ جواہر لال نہرو نے تو یہ کبھی نہیں کہا تھا کہ عیش و آرام میں پلنے کے باوجود انہوں نے چودہ سال جیل میں گزارے اور نہ لال بہاد شاستری نے یہ کہہ کر ہمدردی بٹوری تھی کہ وہ پڑھائی کے لیے مغل سرائے سے بنارس ندی پار کرکے جایا کرتے تھے۔ انہیں اس کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ ان کے پاس دکھانے کے لیے کام تھا ۔ اپنی کہانی سنانا مودی کی مجبوری ہے۔
مودی جی کو ایوانِ پارلیمان کی تقریر میں ان منصوبوں کا نام لیتے ہوئے شرم آرہی تھی جن کے سہارے وہ اقتدار میں آئے تھے کیونکہ ان میں سےکوئی پورا ہی نہیں ہوا۔ اس یادگار خطاب میں’ اچھے دن ‘ کا نعرہ ندارد تھا کیونکہ وہ آئے ہی نہیں اور نہ دوکروڈ نوکریوں کا ذکر تھا کیونکہ وہ گدھے کے سر سینگ کی مانند غائب ہے۔ ایوان ِ پارلیمان کےخصوصی اجلاس کا بنیادی مقصد وہاں سے ایک تقریر کرکے صوبائی و قومی انتخابات پر اثر انداز ہونا تھا ۔ اب کوئی متاثر ہوا ہویا نہیں مگر تقریر تو ہوگئی۔ اب آگے کیا کیا جائے یہ مودی سرکار کی سمجھ سے باہر تھا ؟ الیکشن کمیشن کے معاملے میں عوام کے ساتھ عدلیہ کی ناراضی کا ڈر اسے ستانے لگاتھا ۔ انڈیا اور بھارت کو مودی جی خود نظر انداز کرنے لگے تھے ۔ ایوان پارلیمان کی پرانی عمارت کو کو وزیراعظم نے ’سموِدھان سدن‘(ایوانِ آئین) کے نام سے منسوب کیا اور نئی عمارت سے متعلق جو گزٹ نکالا گیا تو اس میں نیا نام ’’پارلیمنٹ آف انڈیا‘ لکھا ہے بھارت نہیں ۔ اس طرح نام نہاد غلامی کی علامت کو مٹانے میں مودی جی ناکام رہے ۔
خصوصی اجلاس میں ’ ایک نیشن ایک الیکشن‘ کا نعرہ دراصل ملک میں پائے جانے والے تکثیری سماج یا گنگا جمنی تہذیب کی تردید تھا ۔ اس پر مودی جی نے ہار مان لی اور جب معمر پارلیمانی رہنماوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کاوقت آیا تو اندراجیت گپتا جی کی ایوان میں تقریباً 43 سال خدمات کے ساتھ شفیق الرحمن کا بھی ذکر کیا جنھوں نے 93 سال کی عمر میں بھی خدمات انجام دیں۔ ماضی کے صدور کی فہرست پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر راجندر پرشاداور درپدی مرمو کے ساتھ ڈاکٹر عبدالکلام کو بھی یاد کیا جو کثرت میں وحدت کی علامت تھے۔حکومت کے پاس جب کوئی قابلِ ذکر قانون نہیں بچا تو خواتین ریزرویشن بل کی پناہ میں جانا پڑا ۔ اس میں بھی سرکار نے خوب قلابازی کھائی ۔ پہلے تو یہ خبر آئی کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی زیر صدارت مرکزی کابینہ نے خواتین کے ریزرویشن بل کو منظوری دے دی۔ پارلیمانی امور کے وزیر پرہلاد جوشی نے بڑے طمطراق سے ایکس پر لکھا کہ خواتین ریزرویشن کے مطالبے کو پورا کرنے کی اخلاقی جرات صرف مودی حکومت میں ہے پھر ڈر کر اس ٹویٹ کو ہٹا لیا گیا مگریہ خبر چونکہ ذرائع ابلاغ میں عام ہوچکی تھی اس لیے مجبوراً اس کو ایوان میں پیش کرنا پڑا۔
خواتین ریزرویشن بل سے متعلق مودی سرکار کا تذبذب قابلِ فہم ہے۔ کابینہ میں اس کی منظوری سے قبل ایوانِ زیریں میں کانگریس کے رہنما ادھیر رنجن چودھری نے کہہ چکے تھے کہ حکومت کو پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس میں یہ بل کو منظور کرنا چاہئے۔ پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس میں پہلے دن پرانی عمارت کے اندر اپنے آخری خطاب میں انہوں نے کہا تھا کہ کانگریس کی سابق صدر سونیا گاندھی نے خواتین ریزرویشن بل پاس کرانے کی کوشش کی تھی۔ حکومت کو اب یہ بل پاس کرانا چاہیے۔ انہوں نے امید ظاہر کی تھی کہ حکومت ان کا مطالبہ مان لے گی۔اس کے ساتھ ایوانِ بالا میں اپوزیشن لیڈر ملکارجن کھڑگے نے بھی حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ خواتین کے ریزرویشن بل کی شروعات کرے۔مودی سرکار کی مانند خواتین ریزرویشن بل کا خیال کانگریس کو اچانک نہیں آیا بلکہ پارلیمانی اجلاس سے ایک دن قبل 17؍ ستمبرکو کانگریس ورکنگ کمیٹی کا ایک اجلاس حیدر آباد میں منعقد ہوا تھا اور اس کی وجہ سے پارٹی کے صدر ملک ارجن کھڑگے نئی عمارت کے اندر پرچم کشائی کی تقریب میں شریک نہیں ہوسکے تھے ۔ اس وقت میڈیا نے ان کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا تھا مگر کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ وہاں خود وزیراعظم اور وزیرداخلہ کیوں موجود نہیں تھے؟
مندرجہ بالا ا جلاس کے بعد خواتین ریزرویشن کی بابت کانگریس کے ترجمان پون کھیڑا نے اخباری نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ وزیر اعظم منموہن سنگھ نے ایوان پارلیمان میں 9 مارچ 2010 کو یہ بل ایوان بالا میں منظور کرواچکے تھے مگر ایوانِ زیریں میں یہ پاس نہیں ہوسکا۔ ان کے مطابق کانگریس نے بلدیاتی انتخابات میں تو خواتین ریزرویشن کو یقینی بنایا مگر ایوان زیریں میں اس کو منظور نہیں کراسکی۔ سونیا گاندھی اس کا مطالبہ کرچکی ہیں اور کانگریس پچھلے نو سالوں سے تقاضہ کررہی ہے۔ ایسے میں خواتین ریزرویشن کا کریڈٹ لازمی طور پر حزب اختلاف کو جانے کا پورا امکان ہے ۔ یہی وجہ ہے کانگریس نے فوراً اس کی حمایت کردی اور بی جے پی شش و پنج میں پڑ گئی ۔ حکومت کے لیے اب اس بل کو پاس کروانے کے سوا کوئی چارہ نہیں کیونکہ کانگریس کے علاوہ اپوزیشن اتحاد ’انڈیا ‘ بھی اس بل کو متعارف کرانے کی حمایت کر چکا ہے۔مودی سرکار سے قبل پارلیمنٹ کے پانچ روزہ اجلاس کے موقع پر حکومت کی طرف سے بلائی گئی کل جماعتی میٹنگ میں کئی سیاسی جماعتوں نے سیشن کے دوران خواتین ریزرویشن بل کو پاس کرانے کی پرزور وکالت کردی۔ کے سی آر کی بھارت راشٹرا سمیتی کے اراکین پارلیمنٹ نے خواتین ریزرویشن بل کا مطالبہ کرتے ہوئے پارلیمنٹ احاطے میں گاندھی مجسمہ کے قریب احتجاج تک درج کرادیا تھا ۔
کل جماعتی میٹنگ میں چونکہ کئی جماعتوں کے قائدین نے اسے اتفاق رائے سے منظور کرنے کا مطالبہ کیا تو مرکزی وزیرانصاف ارجن رام میگھوال نے خاتون ریزرویشن بل ایوان میں پیش کر ہی دیا۔ اپنی عادت کے مطابق مودی حکومت نے پرانی شراب کو نئی بوتل میں ڈال کر نیا لیبل ’ ناری شکتی وندن (نسوانی قوت کو سلام)‘ لگا دیا ۔ اس بل کے تحت پارلیمان کےایوانِ زیریں اور ریاستوں کی قانون ساز اسمبلیوں میں 33 فیصد نشستیں خواتین کے لیے مختص ہوں گی۔ مرکزی وزیر قانون ارجن رام میگھوال نے اسے خواتین کو بااختیار بنانے کی سعی قرار دیا ۔اس موقع پر شیخی بگھارتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ’’ خدا نے مجھے خواتین کو بااختیار بنانے اور ان کی طاقت کو تشکیل دینے کا کام کرنے کے لیے چنا ہے‘‘۔ مودی جی تو ساڑھے نو سال سے وزیر اعظم ہیں ۔ ان کو اگر یہ پسندہوتی تو کب کاخواتین کو ریزرویشن مل چکا ہوتا۔ یہ تو اب ا ن مجبوری ہے اس لیے اگر قانون بن جائے تب بھی اس کا سیاسی فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے ۔یہ بات اظہر من ا لشمس ہے کہ ایوان پارلیمان کے خصوصی اجلاس میں خواتین ریزرویشن بل کی منظوری سے بی جے پی کے بجائے حزب اختلاف کا زیادہ فائدہ ہوگا۔
Comments are closed.