کینیڈا تنازع: جی 20کے غبارے  پھوٹ رہے ہیں  

 

ڈاکٹر سلیم خان

راہل گاندھی  جس طرح گھوم پھر کر اپنی بھارت جوڑو یاترا  میں پہنچ جاتے ہیں اسی طرح  نریندر مودی کے  اعصاب پر جی ٹوینٹی  کا نشہ سوار ہے۔ ایوان پارلیمان کی پرانی عمارت کے اندر اپنی آخری تقریر میں   وزیر اعظم نے پہلے تو ماضی میں  غیر جانبدار ممالک کی کانفرنس کا ذکر کیا جس میں سو سے زائد ممالک کے سربراہاں نے شرکت کی تھی اور اس کے بعد مطلب کی بات یعنی  جی 20 پر آگئے۔   اپنی عادت کے خلاف  وزیر اعظم نے جی 20  کی کامیابی کا سہرا  کسی خاص فرد یا پارٹی  کے بجائے 140 کروڑ ہندوستانیوں کے سر باندھا  ۔ انہوں نے اس کے حوالے سے ملک بھر  میں 60 سے زیادہ مقامات پر 200 سے زیادہ تقریبات  کی کامیابی کو ہندوستان کے تنوع کی کامیابی کے مظہر قرار دیا اور ساتھ ہی ہندوستان کی صدارت کے دوران جی 20 میں افریقی یونین کی شمولیت پر  فخر کا اظہار کیا ۔ وزیر اعظم نے جی 20 اعلامیہ کے لیے اتفاق رائے اور مستقبل کے لیے ایک روڈ میپ کا ذکر کرتے  ہوئے فرمایا کہ ہندوستان کی جی 20 صدارت نومبر کے آخری دن تک قائم رہے گی، اور قوم اس سے بھرپور استفادہ کیا جائے گا  ۔  اس قومی استفادے کا اختتام  ستمبر میں  ہی کینیڈا  کے رنگ میں بھنگ سے ہو گیا۔ اس طرح گویا کامیابی کی چکا چوند پر گرہن لگ گیا ۔   

جی ٹوینٹی کے حوالے  سے وزیر اعظم  نے اپنی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے کہا تھا کہ  یہ سب کے لیے فخر کی بات ہے کہ ہندوستان نے’وشوا مترا‘(عالمی دوست) کے طور پر اپنے لیے جگہ بنائی ہے اور پوری دنیا ہندوستان کی شکل میں ایک دوست دیکھ رہی ہے ۔ یہ بات  اگر درست   ہوتی  تو چین اور روس کے سربراہ چوٹی کانفرنس میں دہلی آتے۔ دنیا کی دوسری اور نویں معیشت کے سربراہان کی غیر موجودگی نے اس دعویٰ کی ہوا نکال دی۔ اس معاملے کو اپنے پسندیدہ نعرے ’ سب کا ساتھ سب کا وکاس (ترقی) ‘ سے جوڑ کر وزیر اعظم  بولے یہ کلمہ  دنیا کو اپنے ساتھ لانے کے لیے ہمیں متحد کر رہا ہے۔ دنیا کو ساتھ لانے کی خاطر قومی اتحاد کی بات کرنے والے وزیر اعظم کو ابھی تک منی پور میں جاکر مظلوم کوکی برادران وطن کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھنے کی توفیق نہیں ہوئی۔  وہ جس دن ایوان پارلیمان میں یہ پروچن (نصیحت ) کررہے تھے منی پور میں تعطیل پر گھر آنے والے ایک فوجی کو اغوا کرکے ہلاک کردیا گیا تھا ۔ وزیر اعظم کو اگر اس پر  تشویش  نہ ہو تو ان کے عالمی امن کا دعویٰ بے معنیٰ  ہے۔ یہ قدرت کی عجب ستم ظریفی ہے کہ ہر بین الاقوامی فورم میں اٹھتے بیٹھتے دہشت گردی کی مذمت کرنے والے وزیر اعظم پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کا الزام لگ گیا۔ 

جی ٹوینٹی کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی کو پہلاتحفہ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن  ٹروڈو  کی جانب سے  اس وقت ملا جب انہوں نئی دہلی کی سرد مہری  کےجواب میں ہندوستان کے ساتھ اپنے موسم خزاں میں طے شدہ تجارتی مشن کو منسوخ کر دیا ۔ جی ٹوینٹی کے دوران جسٹن ٹروڈو اور وزیر اعظم کی دوری کو ذرائع ابلاغ میں فخر سے اچھالا گیا  ۔ اس کے بعد جب ان کا ہوائی جہاز خراب ہوگیاتوہندوستان دوسرا جہاز دے کر انہیں واپس بھیج سکتا  تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کینیڈا    سے جہاز کےآنے میں  چھتیس گھنٹے لگ گئے اور وہ  دہلی میں بغیر کام کے پڑے رہے۔ اس پر گودی میڈیا نے  کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے ٹروڈو سبق سکھا دیا اور جگہ دکھا دی۔تجارتی مشن کی  منسوخی سے پتہ چلا کہ سبق تو کوئی اور ہی سکھا رہا ہے لیکن وہ تو ایک ٹریلر  بھرتھا۔ اصلی فلم میں  کینیڈا  وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈووہاں کے شہری ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں نئی دہلی کے ملوث ہونے کے شواہدکا  الزام لگا دیا ۔ یہ بات انہوں نے   کسی انٹرویو   یا پریس کانفرنس میں  نہیں بلکہ ایوانِ  پارلیمان کے اندر اپنے خطاب لگائے ہیں۔

جسٹن ٹروڈو  نے کہا کہ کسی بھی غیر ملکی حکومت کا کینیڈا کی سر زمین پر کینیڈین شہری کے قتل میں ملوث ہونا نا قابلِ قبول ہے اور یہ اس  کی خود مختاری کے بھی خلاف ہے۔ اس کےساتھ  کینیڈاکی  حکومت نے اوٹاوا میں تعینات ایک اعلیٰ ہندوستانی سفارت کارپون کمار رائے کو  ملک بدر بھی کر دیا۔ اس کے جواب میں ہندوستانی وزارتِ خارجہ نےاسےمسترد کرتے ہوئے  کہا کہ "ان بے بنیاد الزامات کا مقصد کینیڈا میں پناہ گزین خالصتانی دہشت گردوں اور انتہا پسندوں سے توجہ ہٹانا ہے جبکہ یہ عناصر ہندوستان  کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے لیے خطرہ بننے کی کوشش کرتے ہیں۔” کینیڈا سے ہندوستانی  سفیر کی ملک بدری کے جواب میں نئی دہلی نے بھی ایک سینئر کینیڈین سفارت کار کو پانچ دن میں ملک چھوڑنے کا حکم دیتے  ہوئے کہا کہ غیر قانونی سرگرمیوں جیسے قاتلوں، انسانی اسمگلروں اور منظم جرائم پیشہ افراد کو کینیڈا میں دی گئی آزادی کوئی نئی بات نہیں۔مودی سرکار نے  کینیڈا سے مطالبہ کیا کہ کینیڈا کی سر زمین سے اپنی سرگرمیاں سر انجام دینے والے تمام بھارت مخالف عناصر کے خلاف کارروائی کی جائے ۔

یہ  ہنگامہ آرائی  اس بات کی  عکاس  ہے کہ حکومتِ ہند کو کینیڈا کے سفارت کاروں سے داخلی  معاملات اور ملک  مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر تشویش ہےاور دونوں ملکوں   کے تعلقات بہت زیادہ بگڑ چکے ہیں۔ یہ تنازع  18 جون کو کینیڈا کی ریاست برٹش کولمبیا کے ایک کلچرل سینٹر میں ہردیپ سنگھ نجر نامی سکھ رہنما کے گولی مارکرقتل سے شروع ہوا۔وہ   سکھوں کے لیے خود مختار’خالصتان‘ کا حامی تھا۔ ہردیپ سنگھ نجر 1997 میں بھارت سے کینیڈا منتقل ہونے سے پہلے  خالصتان کی آزادی کے لیے  ’خالصتانی ٹائیگر فورس‘ کا قائد  تھا اور  کینیڈا میں  ’سکھ فار جسٹس‘ نامی تنظیم چلا رہا تھا۔ ‘خالصتانی ٹائیگر فورس’  ہندوستان میں کالعدم ہے ہردیپ کے سر  پر 10 لاکھ روپئےکا انعام  مقرر تھا۔نجر پر  پنجاب میں 2007 کے اندر  ایک سنیماہال  میں دھماکے  اور کینیڈا، برطانیہ اور امریکہ میں ہندوستانی قنصل خانوں  پر حملوں کا بھی الزام  ہے۔خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق رواں ماہ نئی دہلی میں جی20 اجلاس کے موقع پر کینیڈا کے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو نےاپنے  ہم منصب نریندر مودی کے سامنے ہردیپ سنگھ کی موت کا معاملہ اٹھایا تھا۔

ایوانِ پارلیمان میں اپنی تقریر کے بعد اب جسٹن ٹروڈو کہہ رہے ہیں کہ ہردیپ سنگھ نجر کا کینیڈا میں قتل ’انتہائی تشویش ناک‘ واقعہ ہے لیکن وہ انڈیا کو اکسانے کی کوشش نہیں کر رہیں بلکہ  چاہتے ہیں کہ ہندوستانی  حکومت اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے لے۔ہندوستان نہ سہی مگر برطانیہ، امریکہ اور آسٹریلیا تو اس پر سنجیدہ ہوگئے ہیں۔ خالصتان کے حوالے سے ہر دیپ سنگھ نجار کا یہ چوتھا قتل ہے۔ امسال جون( 2023) میں برطانیہ کے اندر خالصتان لبریشن فورس کے سربراہ اوتار سنگھ کھنڈا کی پراسرار حالات میں موت ہو گئی تھی۔ سکھ علیحدگی پسندوں نے اس پر زہر دے کر مارنے یا ’ٹارگٹ کلنگ‘  کا الزام لگایا ۔ ان کے مطابق حکومتِ ہند  سکھ علیحدگی پسند رہنماؤں کو قتل کروا رہی ہے۔ اس کے علاوہ  پرمجیت سنگھ پنجوارکو رواں برس مئی میں پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس وقت بھی یہی الزام لگا مگرہندوستانی  حکومت نے ابھی تک ان الزامات پر سرکاری سطح پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ۔

75 سالہ رپودمن سنگھ ملک کی موت بھی ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ ان کو 15 جون 2022 کو سرے (کینیڈا) میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ملک اور ان کے ساتھی  عجائب سنگھ باگری کو سن 1985 کے دو بم دھماکوں سے متعلق سازش کرنے کے الزامات سے2005 میں بری کر دیا گیا تھا ۔ اس دھماکے  میں 331 لوگ مارے گئے تھے۔رپودمن ملک کا تعلق علیحدگی پسند تنظیم ’ببر خالصہ‘ سے تھا۔انہوں نے  وزیر اعظم نریندر مودی کو تعریفی  خط میں سکھوں کی فلاح و بہبود کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کا شکریہ ادا کیا  توان کا نام حکومت ہند نے بلیک لسٹ سے نکال دیا  گیاتھا پھر  بھی قتل ہوگیا۔ یہ معاملہ اب  کینیڈا کی حدود سے نکل کرامریکہ پہنچ گیا اور اس  نے بھی  کینیڈین وزیرِ اعظم کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات پر تشویش کا اظہار کردیا  یعنی مودی جی دہلی کے اندر جو بائیڈن کی جو خاطر مدارات کی تھی اس پر بھی پانی پھِر گیا۔  قصر ابیض کی قومی سلامتی کی ترجمان ایڈرین واٹسن نے اپنے بیان میں کہا کہ "ہم اپنے کینیڈین شراکت داروں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔ یہ انتہائی اہم ہے کہ کینیڈین تحقیقات کار آگے بڑھیں اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔”

 امریکہ تو خیر کینیڈا کا ہم سایہ ہے مگر ان الزامات پر برطانیہ اور آسٹریلیا نے بھی تشویش کا اظہار کردیا  یعنی رشی سونک سے دوستی اور آسڑیلیا کی سفارتکاری بھی اکارت چلی گئی۔ یہ بات کم لوگ جانتے ہیں کہ کینیڈا اب بھی برطانوی تخت کے تحت ہے۔ اس لیے برطانیہ کو اس کا ساتھ دینا ہی پڑے گا اور جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے وہ جو رعایت اسرائیل کے ساتھ کرتا ہے وہی سلوک ہندوستان کے تئیں نہیں کرسکتا کیونکہ انکل سام کو اسرائیل کی جو ضرورت ہےوہ  ہندوستان کی  نہیں ہے۔ اس لیے امریکہ کے نزدیک مودی اور یاہو کا فرق ہمیشہ رہے گا۔ مودی جی نے آج کل اپنے آپ کو اسرائیل  سمجھ لیا ہے حالانکہ  وہ تو مودی جی کے ساتھ عدنان خوشوگی قتل  کا سلوک کرچکا ۔  جی ٹوینٹی کے دو غبارے چین اور روس  نے اڑنے سے پہلے پھوڑ دئیے۔اب امریکہ ، برطانیہ اور کینیڈا کے ساتھ نہ آنے سےمزید تین پھوٹ گئے۔ مودی جی گجرات کے بعد منی پور اور اب ہردیپ سنگھ نجار کے تعلق سے دہشت گردی کے  الزام میں ملک کو پھنسا دیا ہے۔ اس کی انہیں بہت بڑی قیمت چکانی پڑے گی۔

Comments are closed.