کیا سعودی مملکت اسلام کو چھوڑ کر مغرب کے نقش قدم پر رواں دواں ہے ؟
سعودی عرب کے قومی دن پرخاص مضمون

عبدالغفارصدیقی
9897565066
سعودی عرب کا نام زبان پر آتا ہے تو ہر مسلمان کے دل سے اس کی سلامتی کی دعا ئیں نکلتی ہیں ۔اس لیے کہ وہاں دودو مقدس شہر آباد ہیں جوہر مومن کے دل میں بستے ہیں ۔ایک شہر مکہ مکرمہ ہے جہاں کعبۃ اللہ شریف ہے ۔ جس کی جانب ہم جبین نیاز جھکاتے ہیں ،جہاں ہم عمرہ و حج کرتے ہیں ،یہ روئے زمین کا سب سے مقدس مقام ہے ۔جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم ؑ کے ذریعہ آباد کردہ ہے ۔دوسرا شہر مدینہ منورہ ہے ۔جس کی زیارت کی تمنا لیے ہر مسلمان دل دھڑک رہا ہے ۔یہ دونوں شہر سعودی عرب کو دنیا میں تمام ممالک سے ممتاز کرتے ہیں ۔ہر کلمہ گو شخص ان شہروں کی زیارت کی آرزو کرتا ہے ۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مملکت سعودی عرب اللہ کے مہمانوں کو کسی قسم کی پریشانی نہیں آنے دیتی ۔دنیا کی بہترین سہولیات وہاں میسر ہیں ۔دوران حج پچاس لاکھ سے زائد زائرین کی میزبانی بہت اعلیٰ قسم کی ہوتی ہے ۔اتنے بڑے ایونٹ میں چھوٹی موٹی خامیاں رہ جانا انسانی کمزوری کی علامت ہے ،جسے نظر انداز کرنا ہی بہتر ہوتا ہے ۔مکہ و مدینہ میں زائرین کاہر وقت تانتا لگا رہتا ہے،ان دونوں شہروں کی زیارتیں مملکت کی معاشیات میں اہم رول ادا کرتی ہیں ۔حج و عمرہ اور زیارت کے انتظامات کو لے کر خادم الحرمین اور ان کی ٹیم لائق مبارک باد ہیں ۔اللہ تعالیٰ انھیں اس کا اجر عطا فرمائے اور مزید بہتر انتظامات کی توفیق عنایت فرمائے ۔
حضرت ابراہیم ؑ جب اپنی بیوی حضرت ہاجرہ ؑ اورچھوٹے بچے حضرت اسماعیل ؑ کو اللہ کے حکم پراس بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ کر چلے تھے تو آپ ؑ نے دعا کی تھی ۔ـ’’ اے میرے رب! اس (جگہ) کو ایک امن والا شہر بنا دے اور اس کے رہنے والوں کو پھلوں سے رزق دے۔‘‘(سورۃ البقرۃ – آیت 126)
ظاہر ہے جس شہر کی سلامتی اور خوش حالی کے لیے اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم ؑ نے دعا کی ہو،جہاں خدا کے آخری پیغمبر حضرت محمد ؐ مبعوث ہوئے ہوں ،جہاں خدا کا پاک گھر موجود ہو،وہاں پر اللہ کے بے پناہ برکتیں اور رحمتیں کیوں کر نازل نہ ہوں گی ۔میں سمجھتا ہوں کہ مملکت میں امن و سلامتی اور خوش حالی کا اصل سبب پیغمبروں کی دعائوں کے جواب میں اللہ کا فضل ہے ۔اس میں مملکت کے حسن انتظام کو ثانوی حیثیت حاصل ہے ۔
لیکن سعودی مملکت کا یہی کام نہیں ہے کہ وہ حج و عمرہ کا نظم کرے ،یہ تو اس کے فرائض میں سے ایک فریضہ ہے ۔مملکت کا اصل کام اعلائے کلمۃ اللہ ہے ۔مملکت روئے زمین پر اسلام ،قرآن اور سیرت رسولؐ کی امین ہی نہیں بلکہ داعی ہے۔ اسلام کی بقاء و استحکام اور فروغ و اشاعت کی ذمہ دار ہے ۔وہ تمام انسانوں بالخصوص مسلمانوں کے لیے مرکز ہدایت ہے ۔وہ اہل دنیا کے لیے رول ماڈل ہے ۔مملکت کے ہر ا قدام کی نسبت اسلام کی جانب کی جاتی ہے ۔ساری دنیا کے مظلوم مسلمان خادم الحرمین الشریفین سے مسیحائی کی امید لگاتے ہیں۔
نماز کا قیام ،مساجد کی تعمیر ،خیراتی اداروں کا تعاون ،شہریوں کے جان مال کا تحفظ ،ان کو دووقت کی روٹی کی فراہمی ،زانیوں ،چوروں اور نشہ خوروں پر شرعی سزائوں کا اطلا ق الحمد للہ مملکت میں بخوبی ہورہا ہے ۔مملکت دنیا بھر میں مساجد کی تعمیر میں مدد کرتی ہے ۔غریب ممالک کی عوام کے کھانے اور پینے یعنی پیٹ بھرنے میں مدد کرتی ہے ۔یہ سب مبارک کام ہیں ۔ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے ۔
اسلامی نظام کی جب ہم بات کرتے ہیں تو اسی اسلام کی بات کرتے ہیں جو ہمیں نبی اکرم ﷺ سے ملا اور جس کو خلفائے راشدین نے اپنے بعد والوں کے نمونہ بناکر چھوڑا ۔اسلامی نظام کا ایک حصہ سیاست سے تعلق رکھتاہے ،جس میں حکمرانوں کا انتخاب ،پالیسی بنانے اور قانون سازی کا طریقہ ،نظام انصاف وغیرہ شامل ہے ۔اس پہلو سے جب ہم مملکت کا جائزہ لیتے ہیں تو مایوسی ہوتی ہے ۔جو شاہی اور آمرانہ نظام مملکت میں نافذ ہے میرے مطالعہ کی حد تک اسے اسلام کی تائید و حمایت حاصل نہیں ہے ۔اسلام مملکت کے فرمانرواکو اللہ اور رسول کا خلیفہ کہتا ہے ۔بادشاہ اور شاہ کے القاب کی بیخ کنی کرتا ہے ۔ حضرت حسین ؓ نے یزید کی مخالفت اس وجہ سے نہیں کی تھی کہ اس نے اسلام کے مراسم عبودیت میں کوئی تبدیلی کردی تھی ،یا اس نے شرعی سزائوں کو معطل کردیا تھا ،بلکہ اس کا اگر کوئی جرم تھا تو صرف یہ تھا کہ اس کا انتخاب اس طرح نہیں ہوا تھا جیسا کہ اس سے پہلے کے خلفاء کا ہوا تھا ۔اس کو مملکت وراثت میں سپرد کردی گئی تھی ۔مملکت کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہوتی کہ اسے وہ اپنی اولاد میں تقسیم کردے ،بلکہ وہ اللہ کی امانت ہے جسے اس کے اہل افراد کو سپرد کرنے کا حکم قرآن دیتا ہے ۔’’ بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں امانت والوں کو پہنچا دو۔‘‘ (سورہ نساء آیت 58)اگراسلام موروثی سلطنت کو پسند کرتا تو حضرت ابوبکر ؓ کے بیٹے حضرت عبدالرحمان بن ابی بکر ؓ ،حضرت عمر ؓ کے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اپنے زمانے میں ساری امت مسلمہ میں اپنے علم و تقویٰ اور اسلام کے لیے قربانی کے معاملہ میں سب سے ممتاز تھے ۔دراصل موروثی بادشاہت ہی وہ بنیادی خرابی ہے جو مزید کئی خرابیوں کو جنم دیتی ہے ۔
خلیفہ مملکت کے مال و اسباب کا امین ہوتا ہے ،وہ اپنی شوریٰ کی اجازت کے بغیر ایک پائی بھی خرچ نہیں کرسکتا ،حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے وفات سے قبل اپنے ترکہ میں سے اس رقم کو بیت المال میں واپس کرنے کی ہدایت فرمائی جو انھوں نے بطور خلیفہ بیت المال سے حاصل کی تھی ،حضرت عمر ؓ نے اپنی اہلیہ سے وہ ہیرے یہ کہہ کر بیت المال میں جمع کرادیے تھے جو ان کی اہلیہ کو دوسرے ملک کی ملکہ نے بطور تحفہ انھیں بھیجے تھے کہ یہ ہیرے تمہیں امیر المومنین کی اہلیہ ہونے کے ناطے ملے ہیں ،ان خلفائے راشدین کے دسترخوان پر اکثر سوکھی روٹی کے سوا کچھ نہ تھا ،ان کے پاس زندگی کا کل سامان ایک گٹھری میں باندھا جاسکتا تھا۔ جب کہ بادشاہ ملک کا مالک ہوتا ہے ،اگر اس کے دل میں خدا کے سامنے جواب دہی کا احساس نہ ہوتو وہ عوام کی دولت اپنے عیش و آرام پر بے دریغ خرچ کرتا ہے ۔جس طرح موجودہ شہزادہ کا طرز عمل ہے وہ جہاں جاتے ہیں اپنے ساتھ سونے چاندی کے برتن اور ہیرے جواہرات کے زیورات لے کر جاتے ہیں ،ابھی جی 20کی میٹنگ میں جہاں امریکہ کے صدر جو بائڈن چھ ائر کرافٹ سے آئے تھے تو وہیں شہزادہ محمد بن سلمان آٹھ ائر کرافٹ کے ساتھ آئے تھے جس میں ایک میں صرف ان کا ذاتی سامان تھا ،وہ اپنا باورچی خانہ بھی ساتھ لائے تھے ،چار دن کے سفر کے لیے سو جوڑی کپڑے ان کے ساتھ تھے ۔یہ اسی حجاز مقدس کے حکمران ہیں جہاں خلفائے راشدین نے خلافت کے فرائض انجام دیے تھے ،اُن کے طرز زندگی کی ہلکی سے جھلک بھی آج کے شہنشاہوں میں دکھائی نہیں دیتی ۔خلیفہ خود کو عوام کے سامنے تنقید اور جواب دہی کے لیے پیش کرتا ہے ،اسے ایک بڑھیا بھی سر محفل ٹوک سکتی ہے ،بادشاہ کے سامنے لب ہلانا جان گنوانے کے مترادف ہے ۔وہاں مملکت کے کسی فیصلہ کے خلاف بولنا تودور کی بات ہے سوچنا بھی گردن زدنی جرم ہے ،اسی لیے مبصرین کی رائے میں مملکت سعودی عرب میں اظہار رائے کی آزادی صرف کاغذ تک محدود ہے ۔سعودی عرب آزادی رائے اور اظہار پر پابندی لگانے اور آزادیوں کو کچلنے کی پالیسی کو مزید سخت کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مہرخبررساں ایجنسی کی رپورٹ (2نومبر2022)کے مطابق، سعودی لیکس نامی ویب سائٹ نے خبر دی ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیم نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب میں آزادی اظہار رائے کے 15 قیدیوں کو سزائے موت سنائی گئی ہے ۔
مملکت میں ہر اس آواز کو دبایا جارہا ہے جو خلافت راشدہ کے احیاء کی علمبردار ہے ۔اخوان المسلمون اورجماعت اسلامی جیسی اسلامی تحریکوں کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کردیا گیا ہے ۔جب کہ مغربی ممالک میں یہ تنظیمیں اپنا کام کرسکتی ہیں۔مصر کی مرسی حکومت کے خاتمہ میں مملکت کا اہم رول بتایا جاتا ہے ۔ القدس کی آزادی کی کسی تحریک کی کما حقہٗ حمایت مملکت کی جانب سے نہیں کی جارہی ہے ۔محمد بن عبدالوہاب ؒ جن کی تائید و حمات سے مملکت وجود میں آئی ہے ان کو کو بھی کنارے لگایا جارہا ہے ۔ دو دسمبر 2015 کو سعودی اخبار عرب نیوز میں یہ خبر شائع ہوئی کہ سعودی وزارتِ تعلیم نے اخوان المسلمون کے بانی حسن البناؒ، سید محمد قطبؒ، قطر کے عالم یوسف القرضاویؒ اور مولانا مودودی ؒ کی تصنیفات سمیت 80 کتابوں پر پابندی عائد کردی ہے۔دوسری طرف ان ممالک سے رشتے استوار کیے جارہے جو اپنے یہاں مسلمانوں کا جینا دوبھر کیے ہوئے ہیں ۔
ایک زمانہ تھا جب حج سے واپسی پر لوگوں کو ترجمہ قرآن مجید دیا جاتا تھا ۔اب بغیر ترجمہ کا قرآن ہدیہ کیا جارہا ہے ۔بلکہ بعض آیات قرآنی کو نصاب تعلیم سے خارج کرنے کی خبریں بھی ماضی میں گشت کرتی رہی ہیں ۔ (Institute for Monitoring Peace and Cultural Tolerance in School Education) IMPACT-se ایک ایسا تحقیقی ادارہ ہے جو اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ یونیسکوکی بتائی ہوئی تعلیمی ہدایات کی روشنی میں دنیا بھر کے تعلیمی اداروں میں پڑھائی جانے والی ٹیکسٹ بکس اور تعلیمی و درسی نصابوں کا جائزہ لے کر اپنی رپورٹ شائع کرتا ہے ۔دسمبر 2020 میں اسی ادارہ نے سعودی عرب کی درسی کتب اور تعلیمی نصاب کے بارہ میں رپورٹ شائع کی ہے جس میں بتایا گیاہے کہ سعودی عرب نے اپنے ہاں پڑھائی جانے والی درسی کتابوں میں چند اہم اور’’ مثبت تبدیلیاں‘‘ کی ہیں۔وہ مثبت تبدیلیاں کیا ہیں ؟یہوداور اسرائیل کی مخالفت کرنے والی تمام قرآنی آیات کو درسی کتب سے حذف کردیا گیا ہے ۔ہم جنس پرستی کی سزائوں کے ذکرپر مبنی تعلیم کو ہٹادیا دیا گیا ہے ۔جہاد کی روح بیدار کرنے والے احکامات کو تبدیل کردیا گیا ہے ۔یہ جملہ اقدامات صرف اس لیے ہیں کہ مغربی ممالک ناراض نہ ہوں ۔ان کو خوش کرنے کے لیے خواتین کو بغیر محرم کے سفر کرنے اور حج کرنے کی آزادی دی جارہی ہے ،بالغ بچوں کو والدین سے الگ رہنے کا تحفہ دیا جارہا ہے ،پول ڈانس بار کھل رہے ہیں ،کھیلوں کے میدان میں خواتین قسمت آزمارہی ہیں ،تقریباً دو لاکھ بلین ڈالر خرچ کرکے ایک ایسا شہر بسایا جارہا ہے جہاں صرف ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر سے ہی سفر کیا جائے گا ۔یہ ساری اصلاحات جن میں سے کئی اصلاحات اسلام کی تعلیم سے مغائرت رکھتی ہیں صرف خود کو لبرل اور ترقی پسند ثابت کرنے کے لیے کی جارہی ہیں۔ مغربی ممالک بھی جو ساری دنیا میں جمہوری نظام کے نام نہاد علمبردار بنتے ہیں اور اپنے مخالفین کو برباد کرنے کے لیے اسلام کی پرامن تعلیمات کو شدت پسند بتاتے ہیں، اپنی تمنائوں کے مطابق بدلتے ہوئے سعودی نظام کے عوض ایک آمرانہ طرز حکومت کی پشت پناہی کررہے ہیں۔
میں سعودی مملکت کو اس کے قومی دن کی مبارک باد پیش کرتے ہوئے انھیں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام اور نبی اکرم کے وسیلہ سے ہمیںعزت عطا کی ہے ۔جب تک ہم اسلام سے وابستہ رہیں گے اور نبی اکرم ﷺ کی محبت کو جزو ایمان بنائے رکھیں گے تب تک ہمیں یہ عزت حاصل رہے گی ۔اس کے برعکس اگر ہم اللہ کے قوانین کو بالائے طاق رکھ کر یہود و نصاریٰ کو خوش کرنے کے لیے اسلام کی تعلیمات سے روگردانی کریں گے تو اللہ کی سنت کے مطابق نیست و نابود کردیے جائیں گے جیسا کہ ہم سے پہلے کے لوگ کردیے گئے ۔ہم آخر کس دھوکے میں جی رہے ہیں ۔کیا اسلام کے دشمن کبھی ہمارے دوست ہوسکتے ہیں ؟کیا ہم اس دنیا میں ہمیشہ رہیں گے ؟آج نہیں تو کل ہماری فطری موت واقع ہوجائے گی ۔میری اللہ سے دعا ہے کہ وہ مملکت سعودی عرب پر اپنا خاص فضل فرماتے ہوئے اس کے حکمرانوں کو اپنی اور اپنے رسول ؐکی محبت سے اس طرح مالامال کردے کہ وہ اپنے جھنڈے پر لکھے ہوئے اسلام کے کلمہ کی سربلندی کے لیے کام کرنے لگ جائیں ۔
Comments are closed.