Baseerat Online News Portal

مدرسہ دارالتربیہ و التعلیم للبنات:یعنی تربیت و تعلیم کا مثالی گہوارہ۔ ظفر امام قاسمی

ماؤں اور بہنوں کی ڈوبتی نیا کو سہارا دینے کے لئے یہاں قوم کی یہ باکمال بیٹیاں تیار ہو رہی ہیں۔

بتوفیقِ خداوندی 29/ ربیع الثانی 1445؁ھ مطابق 14/ نومبر 2023؁ء بروز منگل مدرسہ دارالتربیہ و التعلیم للبنات ہانڈی بھاسہ کوچادھامن ضلع کشن گنج بہار میں ششماہی امتحان کے موقع سے بطور ممتحن حاضر ہونے کی سعادت ملی،یہ میری حیاتِ مستعار کا ایک یادگار اور ناقابلِ فراموش دن تھا جو ہمیشہ کے لئے میری کتابِ زیست کے اوراق کا ایک اٹوٹ حصہ بن گیا کہ یہ میرے لئے ایک نیا اور پہلا تجربہ تھا،اور الحمدللہ میرا یہ پہلا اور نیا تجربہ ہی کافی حسین،بامراد اور خوش گوار ثابت ہوا۔
میں بچند وجوہ ذرا تاخیر سے پہونچا،جس وقت میں وہاں پہونچا، چھٹی کا وقت سر پر سوار ہونے کو تھا،سو میں نے ادارہ کے مؤقر اور باکمال استاذ جناب مولانا محمد غفران صاحب قاسمی کے بصد اصرار کے باوجود ناشتہ سے معذرت کرتے ہوئے سیدھا ان کی معیت میں امتحان گاہ جاپہونچا،وہ عربی اول کی ایک چھوٹی سی درسگاہ تھی،جس کے ایک کنارے پر ایک بوکس نما ڈیکس رکھی ہوئی تھی اور سامنے میں دو رویہ تپائیاں بچھی ہوئی تھیں،جن پر مذکورہ درجے کی تقریبا ١٩/ ہونہار اور نوعمر طالبات مدرسہ کی سادگی بھری یونیفارم میں ملبوس اور سر پر نقاب کا سائبان کئے فروکش تھیں، تدریسی میدان میں یہ میرا تقریبا چھٹا سال چل رہا ہے،اس بیچ اللہ نے ناظرہ سے لیکر عربی تک کے ہر قسم کے طلبہ سے روبرو کرایا،اس مختصر سی مدت میں بہت سے نشیب و فراز سے آگہی ملی،اس عرصے میں جو تجربات مجھے حاصل ہوئے ان کی روشنی میں میں کہہ سکتا ہوں کہ اب اخذ و قبول کی صلاحیت والے طلبہ مدارس سےبڑی سرعت کے ساتھ ناپید ہو رہے ہیں، ذہانت کے وہ قصے جو ہم سنا کرتے تھے بڑی تیزگامی سے فسانۂ ماضی بن رہے ہیں،علاوہ ازیں طلبۂ مدارس میں محنت ،کد و کاوش،جانفشانی اور سعی بھی اپنی آخری سانسیں گن رہی ہیں،اب وہ دور ماضی کا حصہ بن گیا جب طلبہ کتابوں کے رس کو چوس لیا کرتے تھے۔
اس بات سے قطعی انکار مقصود نہیں کہ اس قسم کے طلبہ سرے سے مدارس میں اب پائے ہی نہیں جاتے،بلکہ اب بھی بہت سے طلبہ ان اوصاف کے حامل ہوتے ہیں، مگر اس بات کا اعتراف تو تقریبا سب ہی کو ہے کہ اب نسبتاً مدارس میں کتابی طلبہ (یعنی جو کتاب کے لفظ لفظ کو سمجھ لیتے ہیں) خال خال ہی نظر آتے ہیں،اپنے انہی مشاہدات کی بنیاد پر میں نے اپنے سامنے امتحان گاہ میں بیٹھی طالبات کی جماعت کے متعلق بھی اپنے دل میں یہ خیال گانٹھ لیا تھا کہ”جب ہمارے مدارس کے طلبہ اتنے اخاذ و طباع نہیں رہے تو خیر سے تو یہ طالبات ہی ہیں،صنف نازک اور خدا کی سیدھی سادی اور باتونی مخلوق،کجی اور کج پنی جس کا وصف خاص ہے“مگر جب باری باری اُن کو بلا کر ان کی متعلقہ کتاب” الدروس النحویہ“ کا امتحان لیا گیا تو اس وقت میری حیرت کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا اور میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ سوال کے ساتھ ہی بےساختہ جواب کے لئے ان کی زبانیں پُراعتمادی اور بھروسہ مندی کے ساتھ وا ہوجاتی تھیں،میں امتحان لینے کے ساتھ ان کی حرکات و سکنات کو بھی بڑے غور سے دیکھ رہا تھا کہ بعض وہ طالبات جو میرے سوالات کی مخاطب بھی نہیں ہوتی تھیں وہ بھی جواب دینے کے لئے چوکس و چوبند لگ رہی تھیں بلکہ بےکل ہوئی جارہی تھیں،بعض طالبات سے میں نے پرکھنے کے لئے ایسے نکتےآمیز سوال کئے جو عموما یاد نہیں رکھے جاتے لیکن انہوں نے اُن کے بھی تشفی بخش جوابات دئے، ان کی ان سرگرمیوں نے میرے خیالات پر گھڑوں پانی انڈیل دئے اور میرے وہ خیال پل بھر میں ہی پانی کے بلبلے ثابت ہوئے،اور پھر وہیں سے میرے خیالات کی سواری دوسری راہ پر چل پڑی،ایک ایسی راہ پر کہ جس میں قدم قدم پر امیدوں کی شمعیں روشن اور اعتماد کا دریا موجزن تھا کہ اب ہماری ماں اور بہنوں کی ڈوبتی نیا کو سہارا دینے کے لئے قوم کی یہ باکمال بیٹیاں تیار ہو رہی ہیں۔
مدرسہ دارالتربیہ و التعلیم للبنات اِس دورِ پُرفتن میں ایک ایسے علاقے میں قوم کی نونہالوں کو تربیت و تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے میں سرگرمِ عمل ہے کہ جس علاقے کی سرزمین عرصہائے دراز سے بنجر پڑی ہوئی تھی،دور دور تک کوئی تعلیمی اور دینی ادارہ نہیں تھا، بچے تو دور دراز کے علاقوں میں جاکر اپنی تعلیمی تشنگی بجھا لیا کرتے تھے،مگر بچیوں کا مسئلہ آج سے آٹھ سال پہلے یعنی 2015؁ء تک بڑا پیچیدہ بنا ہوا تھا،جس کا نتیجہ یہ تھا کہ بناتِ حوا میں بڑی تیزگامی کے ساتھ اخلاقی زبوں حالی،دینی پسماندگی،فکری انارکی اور ذہنی پراگندگی پھیلتی چلی جا رہی تھی، بددینی کی فضا پورے علاقے کو مکدر بنائے ہوئے تھی،ایسے میں اس علاقے کی سرزمین بنات کے ایک ایسے ادارے کی منتظر تھی جو اس علاقے کی مرجھائی ہوئی زمین کو تعلیمی،تربیتی اور اخلاقی برکھا سے سرسبز و شاداب کردے اور جو اس ظلمت کدہ کو علم و عرفان کی نورانی اور روحانی کرنوں سے منور کردے۔
اُدھر وقت بھی منتظر تھا کہ دیکھیں اس نیک کام کی طرف پہلا قدم کون بڑھاتا ہے،چنانچہ اسی سرزمین کے ایک لائق ترین سپوت اور دارالعلوم الاسلامیہ امارتِ شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ کی مسندِ حدیث پر جلوہ آرا ایک نہایت ہی پروقار، پرجمال اور پرکمال شخصیت حضرت مولانا ازہد لطیف صاحب قاسمی ہانڈی بھاسہ کوچادھامن کشن گنج کے دل میں ملہمِ حقیقی نے یہ خیال ڈالا کہ” انسان کو دور دیس میں دینی اور تعلیمی فریضہ انجام دینے کے ساتھ اپنے علاقے کا بھی کچھ خیال کرنا چاہیے“پھر وقت گزرتا گیا یہاں تک کہ آپ کے خیال کی اِس چنگاری نے بتدریج شعلے تک کا سفر طے کرلیا،اس بیچ آپ نے علاقے کے با اثر اور بافیض لوگوں سے کئی کئی بار مشورے کیے، اور پھر ایک دن چشمِ فلک نے وہ مبارک منظر بھی دیکھا کہ علاقے کی سرکردہ شخصیات اور علم و عمل کے کوہِ گراں ( جن میں حضرت الحاج مولانا عابد انور صاحب قاسمیؒ خلیفہ و مجاز شیخ الحدیث حضرت مولانا امام الدین صاحبؒ، حضرت اقدس مفتی نورالابصار صاحب مظاہری مدظلہ مدرس مدرسہ رحمانیہ نئی ہاٹ سونتھا،حضرت اقدس مفتی جسیم اختر صاحب قاسمی زید مجدہ مدرس دارالعلوم بہادرگنج اور حضرت مولانا صلاح الدین صاحب مظاہری مدظلہ العالی وغیرہم ) حضرات کی سربراہی میں انتہائی بےسر و سامانی اور کسمپرسی کے عالم میں اس مدرسہ یعنی دارالتربیہ و التعلیم للبنات ہانڈی بھاسہ کوچادھامن کشن گنج کی بنیاد 25/ دسمبر 2015؁ء کو مکتب کی شکل میں مسجدِ عمر کوہِ طور ہانڈی بھاسہ میں عمل میں آئی، اس موقع پر حضرت مولانا عابد انور صاحبؒ نے ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا تھا کہ” میری یہ چشمِ بینا گواہ ہیں کہ اس علاقے کو جب لڑکوں کے مدرسے کی ضرورت پڑی تو اسی گاؤں کی مٹی نے مدرسہ عماد الاسلام ہانڈی بھاسہ کی شکل میں اس ضرورت کی تکمیل کی اور اب جبکہ لڑکیوں کے مدرسے کی ضرورت پڑی ہے تو اس کی تکمیل بھی اسی گاؤں کے ایک ہونہار سپوت عزیز مکرم جناب مفتی ازہد لطیف صاحب قاسمی کے ہاتھوں ہونے جارہی ہے،میں نیک فالی کے طور پر کہتا ہوں کہ جس طرح سے مدرسہ عماد الاسلام کا سفر کامگار رہا اسی طرح دارالتربیہ و التعلیم کا سفر بھی تابکار ثابت ہوگا ان شاء اللہ“ الحمدللہ اس مردِ بینا اور دور اندیش شخصیت کا کہا حرف بحرف صادق آیا اور آج دارالتربیہ و التعلیم کا چراغ پورے علاقے کو اپنی مہتابی روشنی کی جلو میں سمیٹے ہوئے ہے۔
وہ کہتے ہیں نا کہ جب نیت میں خلوص،حوصلوں میں اڑان اور ولولوں میں بےلوثی ہو تو پھر راہیں خود بخود ہموار ہوتی چلی جاتی ہیں،چٹان جیسی سخت مشکلیں بھی ریزہ ہوجاتی ہیں،حضرت مفتی ازہد لطیف صاحب نے اولِ دن سے ہی ٹھان لیا تھا کہ مجھے اس بیابان میں علم کا ایک نخلستان اگانا ہی ہے اور اس کے لئے آپ نے مکتب کی شکل میں بنیاد بھی رکھ دی تھی،اس کے بعد آپ مسلسل کوششوں میں لگے رہے،ابھی ایک سال کا عرصہ بھی نہ گزر پایا تھا کہ گاؤں سے باہر مدرسے کے لئے آپ کو اپنے والدبزرگوار کی طرف سے ایک ایکڑ زمین حاصل ہوگئی،اور پھر 25/ نومبر 2016؁ء بروز جمعہ بعد نمازِ عصر سینکڑوں عوام و خواص کی موجودگی میں عارف باللہ حضرت اقدس الحاج مولانا اشتیاق عالم صاحب مدظلہ العالی ( خلیفہ و مجاز حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب نور اللہ مرقدہ ) نے اپنے دستِ مبارک سے اُس لق و دق بیابان میں مستقبل کے اس نخلستانِ علم اور چمنستانِ فن کی بنیاد رکھی،اور رقت آمیز دعا فرمائی،اس موقع پر جہاں عوام کا امڈتا ہوا سیلاب پہونچا تھا وہیں علاقے کی مشہور و مایہ ناز شخصیات بھی قدم فرما ہوئی تھیں، جن میں خصوصیت کے ساتھ ان حضراتِ اکابر نے شرکت فرمائی تھی،حضرت مولانا انوار عالم صاحب ناظم دارالعلوم بہادر گنج،حضرت مولانا غیاث الدین صاحب قاسمی مہتمم جامعہ حسینیہ مدنی نگر کشن گنج،حضرت مولانا خواجہ عبدالجبار صاحب مادھے پور کٹیہار،حضرت مولانا عابد انور صاحب سکٹیہار، حضرت مولانا ممتاز عالم صاحب مہتمم ادارہ فیض القرآن ٹھیکری باڑی،حضرت مولانا مفتی اظہار صاحب مہتمم دارالعلوم کشن گنج،حضرت مولانا مفتی جسیم اختر صاحب دارالعلوم بہادرگنج،حضرت مفتی عبید اللہ صاحب قاسمی استاذ حدیث دارالعلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ وغیرہم اور پھر 6/ ستمبر 2017؁ء کو اس سرزمین پر مفکر ملت حضرت مولانا اسرارالحق صاحب قاسمیؒ کی موجودگی میں باضابطہ تعلیم کا آغاز ہوا۔
یہ مدرسہ اولِ دن بلکہ اپنے قیام کے پہلے ہی سے اکابرین کی نگاہِ مومنانہ اور توجہاتِ مخلصانہ کا مرکز رہا ہے،2013؁ء یا 2014؁ء کا واقعہ ہے،سرزمینِ کشن گنج پر ملک کی معروف شخصیت حضرت مفتی عبداللہ صاحب پھولپوریؒ کی کسی پروگرام کے سلسلے میں آمد ہوئی تھی، اس موقع سے حضرت کی دو دن کی مہمان نوازی کی سعادت حضرت مفتی ازہد لطیف صاحب کے گھرانے کو میسر آئی تھی،اس دوران جب آپؒ سے مدرسة البنات کے سلسلے میں رائے طلبی ہوئی اور آپ کے سامنے علاقے کی تعلیمی زبوں حالی اور اخلاقی پسماندگی کا تذکرۂ غم انگیز کیا گیا تو آپ نے بڑی مسرت کا اظہار فرمایا،پھر آپ کو وہ زمین دکھلائی گئی جہاں مدرسے کا قیام عمل میں آنا تھا ( اس نیک کام کے لئے حضرت مفتی صاحب کے والد صاحب پہلے ہی عزمِ مصمم کرچکے تھے) اور آپ سے دعا کی درخواست کی گئی تو آپ نے اس وقت دعا نہیں فرمائی بلکہ جب آپ تہجد کے لئے بیدار ہوئے تو آپ نے حضرت مفتی صاحب سمیت آپ کے والد اور اپنے دیگر مریدین و متوسلین کو اپنے پاس بلایا اور تہجد کے وقت کی نَم آلود فضا میں آپ نے مدرسے کے حق میں دعا فرمائی، اسی طرح حامیٔ سنت حضرت اقدس الحاج مولانا خواجہ عبدالجبار صاحبؒ خلیفہ و مجاز حضرت اقدس شیخ الحدیث مولانا منور حسین صاحب نور اللہ مرقدہ کا جب بھی اُدھر سے گزر ہوتا تو آپ سرزمین پر پہونچ کر مدرسے کے حق میں ضرور دعا فرماتے۔
اکابرین کی انہی دعاؤں کا فیض اور ان کی انہی توجہات کا ثمرہ ہے کہ انتہائی غربت و افلاس،بےسروسامانی اور کسمپرسی کے عالم میں شروع ہونے والا وہ ننھا سا ادارہ آج بہت ہی کم عرصے میں کہ جس کا دورانیہ فقط سات آٹھ سالوں کو محیط ہے ایک تناور اور سایہ دار درخت بن چکا ہے،جس کے چھتنار سایہ میں آج بیک وقت قرب و جوار اور دور و دراز کے علاقوں ( ادارے میں ابھی کشن گنج، پورنیہ، ارریہ کٹیہار اور بنگال کی طالبات زیر درس ہیں) کی سینکڑوں بلبلیں اکٹھے نغمہ گاتی اور نواسنجی کرتی ہیں،جب یہ اکٹھی ہوکر اور سُر میں سُر ملاکر گاتی ہیں تو اس درخت کے پتوں پر بہاریں رقص کرنے لگتی ہیں اور فضا میں ایک عجیب سا خوش گوار سماں طاری ہوجاتا ہے۔
الغرض ٹین شیڈ کے کچے مکان میں چند طالبات سے شروع ہونے والا یہ ادارہ اتنی جلدی ترقی کے بامِ عروج پر پہونچ گیا کہ دیکھنے والی نگاہیں دنگ اور عقلیں حیران ہیں،اس مختصر سے وقت میں ادارے کا ترقی کی اتنی ساری منازل کو طے کرنا اس کے تابناک مستقبل کی بین دلیل ہے،ادارے میں مرحلہ وار طالبات کی تعداد میں ہرسال اضافہ ہوتا رہا اور آج نوبت یہاں تک جاپہونچی ہے کہ گارجین کے آگے ہاتھ جوڑنے پڑتے ہیں کہ”اب مزید کی گنجائش نہیں ہے“۔
میں سمجھتا ہوں کہ جہاں ادارے کی اس کامیابی کے پیچھے اکابرین کی دعائیں،ان کی توجہات کارفرما ہیں وہیں ادارے کا داخلی منظم اور مستحکم نظام بھی اس کی کامرانی کا بہت بڑا سبب ہے،کسی عامی آدمی کا فضول میں مدرسہ کے اندر داخلہ انتہائی ممنوع ہے،آپ جونہی ادارے کے صدر دروازے کے پاس پہونچیں گے ہمیشہ اس کے پٹ کو بند پائیں گے،دربان آئے گا دروازہ کھولے گا اور سیدھے کیمرے کی نگرانی میں آپ کو اپنی آمد کا مقصد مع موبائل نمبر کے رجسٹر میں درج کرنا ہوگا،چند قدم آپ چلیں گے تو آپ کو سامنے کے رخ پر ٹین کا ایک باڑ نظر آئے گا جو بزبانِ حال آپ کو اس بات سے متنبہ کر رہا ہوگا کہ آپ اپنے قدم کو یہیں روک لیجیے،اس کے اندر قدم رکھنے کی آپ کو قطعا اجازت نہیں،ٹین کا یہ باڑ حصار اندر حصار کا کام کرتا ہے،آپ کو یہ سن کر شاید تعجب ہوگا کہ چھٹیوں کے دنوں کے علاوہ اس حصے میں مدرسہ کا کوئی بھی استاذ حتی کہ مہتمم بھی ضرورت کے بغیر قدم نہیں رکھ سکتا،ابتدائی کلاس کی طالبات باہر (یعنی اس حصار سے باہر) بنی درسگاہوں میں پڑھنے آتی ہیں جبکہ اونچی کلاس کی طالبات کی درسگاہیں اندر ہی لگتی ہیں،جملہ طالبات کے لئے ہاسٹل کا مربیانہ ماحول، نہانے دھونے اور کھانے پینے کا معقول انتظام مدرسہ فراہم کرتا ہے،اسی طرح اس مدرسے کا ہر نظام سسٹم سے چلتا ہے،ہر ایک کو بالتفصیل لکھا جائے تو یہ مضمون طویل سے طویل تر ہوجائےگا۔
نیز مدرسے کی اس کامیابی کے پیچھے وہاں کے بےلوث معلم اور معلمات،جملہ عملہ اور حضرت مہتمم صاحب کی شبانہ روز کی محنت بھی شامل ہے،اللہ نے ادارے کو محنتی،جفاکش،مخلص اور باحیا معلم اور معلمات فراہم کئے ہیں،جو صرف اپنے کام سے کام رکھتے ہیں،جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آئے دن مدرسہ ترقی کی راہوں کو عبور کرتا چلا جا رہا ہے،وہاں کے عملہ بھی کافی مخلص اور چوبند ہیں،حضرت مہتمم صاحب کو خدائے بےنظیر نے بےمثال اوصاف سے نوازا ہے،آپ کا دل کافی حساس اور طبیعت کافی نیک ہے،آپ جہاں علم و عمل میں یکتا ہیں وہیں وسعتِ فکر اور جودتِ نظر میں بھی یگانہ ہیں،آپ مدرسہ دارالعلوم الاسلامیہ پھلواری شریف پٹنہ میں حدیث پاک کا درس دیتے ہیں،شروع میں آپ نے اپنے اس نوخیز ادارے کے لئے کافی محنتیں کی ہیں،شروعاتی دور میں مدرسے کے تئیں آپ کی کثرتِ اسفار قابل ِ رشک ہیں،پٹنہ میں آپ مکمل ہفتہ فکرمندی میں گزارتے اور جمعرات کی شام کو آپ وہاں سے کشن گنج کے لئے چل کھڑے ہوتے،جمعہ کو دن بھر ضروری کاموں کا نپٹارا کرکے شام کو پھر گاڑی پکڑ کر ہفتہ کی صبح جاکر کلاس کرتے،مسلسل کئی سالوں تک اس طرح کرنے سے آپ کی صحت پر بھی زد پڑ گئی مگر آپ کے عزم و حوصلے میں سرمو بھی فرق نہیں آیا۔ جزاہم اللہ
امسال مدرسے میں کل 310 طالبات زیر تعلیم ہیں،فی الحال ادارے میں مشکوة تک کی تعلیم کا نظام ہے بعد رمضان دورۂ حدیث کا ارادہ ہے،اس ادارے کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہاں کی تعلیم جتنی ٹھوس،مضبوط اور مستحکم ہے اس سے کہیں زیادہ یہاں کی تربیت مثالی ہے،بلکہ تعلیم سے زیادہ یہاں تربیت پر دھیان دیا جاتا ہے، یہاں کی طالبات بےانتہا باحیا، غیرت مند اور تربیت یافتہ ہوا کرتی ہیں،اسی لئے ادارے کا نام ”مدرسہ دارالتعلیم و التربیہ “ کے بجائے”دارالتربیہ و التعلیم “رکھا گیا ہے،جو اس کی مثالی تربیت کی طرف مشیر اور غماز ہے،ان کے علاوہ ادارے کی اور بھی بہت سی خصوصیات ہیں جو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔
طالبات کی خوابیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور ان کی عملی زندگی کی راہوں کو ہموار کرنے کے لئے یہاں ہفتہ واری پروگرام پر بھی خصوصیت کے ساتھ توجہ دی جاتی ہے،اساتذہ اپنی نگرانی میں انجمن کراتے ہیں،جس کا ثمرہ یہ ہے کہ یہاں کی طالبات فصاحت بیانی اور طلاقت لسانی میں طاق سمجھی جاتی ہیں،تلاوت ہو یا نعت تقریر ہو یا تحریر ہر میدان میں یہاں کی طالبات دوسری جگہوں کی طالبات پر سبقت لے جاتی ہیں،ابھی پچھلے سال ضلعی سطح پر سیرتِ رسول ﷺبپر کوئز کا مسابقہ رکھا گیا تھا جس میں یہیں کی طالبات نے نمایاں مقام حاصل کیا تھا،اسی طرح طالبات کے قلم میں نکھار پیدا کرنے کے لئے جداریہ پرچے بھی باہتمام شائع کئے جاتے ہیں،15 اگست کے موقع پر جب میں اپنی بھتیجیوں سے ملاقات کی غرض سے وہاں گیا تھا تو میری نگاہ جداریہ پرچے کے مشمولات پر پڑی تھی، سرسری طور پر انہیں پڑھا بھی تھا،مضامین کافی سلیس اور عمدہ تھے، لکھنے کا سلیقہ بھی کافی خوش آئند تھا،پڑھ کر احساس ہوا تھا کہ اگر یہ کوشش جاری رہی تو ان شاء اللہ ملک و ملت کے لئے یہ انگلیاں کافی ہنرور ثابت ہوں گی۔
الغرض ان معصوم طالبات کے بالغانہ اور بالیدانہ جوابات سے میں ایک عمدہ تاثر لے کر وہاں سے اٹھا،اُن کی بلند ہمتی،عالی حوصلگی اور رفیع پروازی نے مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا اور ان کے لئے دل سے اَن گنت دعائیں نکلیں کہ مولی ان نونہالوں کو قوم کی ڈوبتی نیا کی کھیون ہار بنائے اور ان سے ملت کے چراغِ سحر کو پھر سے فروزاں کرنے کا کام لے۔
دعا ہے کہ اللہ پاک ادارے کو مزید نیک نام بنائے اور اس کی نورانی و عرفانی کرنوں کو سدا بہار بنائے۔۔۔۔۔ آمین

ظفر امام،کھجورباڑی
دارالعلوم بہادرگنج
5/دسمبر 2023؁ء

Comments are closed.