ایودھیا میں چراغاں اور کاشی کے چراغ تلے اندھیرا

ڈاکٹر سلیم خان
ایودھیا میں وزیر اعظم نریندر مودی نے جس دن جشن چراغاں کا اعلان کیا اسی رات ان کے اپنے حلقۂ انتخاب وارانسی میں اندھیرا پھیل گیا۔ مودی جی نے اپنے یہاں کاشی وشوناتھ کاریڈور تو بنادیا مگر سنگھ پریوار کے غنڈوں کو بنارس ہندو یونیورسٹی کے اندر ایک طالبہ کی اجتماعی عصمت دری سے نہیں روک سکے ۔ پنڈت مدن موہن مالویہ نے 1916 ؍ میں ہندو یونیورسٹی قائم کرتے ہوئے کہا تھا کہ اپنے قلب وذہن کوتمام لوگوں کی بھلائی کے لیے پرعزم رکھیں۔ قوم کی عظمت کو نقصان پہنچانے والا کوئی کام نہ کریں ۔ آج اپنی ہی قائم کردہ تعلیم گاہ میں بندوق کی نوک ایک طالبہ کی عصمت کو لٹتے ہوئے وہ براہِ راست یا ویڈیو میں دیکھتے تو ان کا سر شرم سے جھک جاتا۔ مدن موہن مالویہ نے یہ بھی کہا تھا کہ ہمارا ملک اسی وقت خوشحال ہوگا جب بچوں کے دل میں حب الوطنی ، مادرِ وطن کی محبت اور بھارت کی محبت سے سرشار ہوں گے ۔ ان کو کیا پتہ تھا ہندوتوا کے حامی جب ہندو راشٹر قائم کریں گے تو دختران وطن کی عزت کو برسرِ عام تار تارہونے لگے گی ۔ بھگوا دھاری وزیر اعلیٰ کی پولیس ملزمین کو پکڑنے میں دوماہ کا وقت لگائے گی اور بنارس حلقۂ انتخاب کی نمائندگی کرنے والا بے حس وزیر اعظم اس سنگین معاملے میں مونی بابا بنارہے گا۔ اس زمانے میں یونیورسٹی کے لیے 10 لاکھ روپے کا عطیہ دینے والے حیدرآباد، دکن کے نظام نواب میر عثمان علی خان اگر حیات ہوتے تو ان کو اپنی سخاوت پر افسوس ہوتا۔
وزیر اعظم نریندر مودی جب ایودھیا کے اندر دھرم پتھ سے ایودھیا دھام تک روڈ شو کررہے تھےتو اتر پردیش کی پولیس بادلِ ناخواستہ یکم نومبر کی رات آئی آئی ٹی بی ایچ یو کی طالبہ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور اجتماعی عصمت دری کرنے والے تین درندوں کودو ماہ کی مجرمانہ تساہل کے بعد گرفتار کرنے کی تیاری کررہی تھی۔ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے ان جیالوں پر ہاتھ ڈالنے سے قبل کرائم برانچ اور پولیس ٹیم نے 190 سے زائد سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج کا تجزیہ کیا اور نگرانی کی رپورٹ کی بنیاد پر واردات میں استعمال ہونے والی بولیٹ موٹر سائیکل سمیت تینوں بھیڑیوں کو گرفتار کرلیا۔ پولیس کے مطابق ملزمین کی شناخت کنال پانڈے ساکن برج انکلیو کالونی سندر پور، آنند عرف ابھیشیک چوہان ساکن جیوادھی پور بجارڈیہہ اور سکشم پٹیل کے طور پر کی گئی ہے۔ مہابھارت کے مطابق ان تینوں کا تعلق ان برادریوں سے ہے جن کی خدمت بجا لانا شودروں کا فرض منصبی ہے۔ منوسمرتی کے مطابق اگر وہ طالبہ دلت ہوتی تو یہ لوگ پکڑے ہی نہیں جاتے بلکہ انعام و اکرام کے مستحق ٹھہرتے لیکن لگتا ہے مظلومہ بھی نام نہاد اونچی برادری سے ہے۔
آئی آئی ٹی بی ایچ یوکے اس دردناک سانحہ کی تفصیل یہ ہے کہ شعبہ ریاضی میں انجینئرنگ کی ایک بی ٹیک طالبہ یکم نومبر کی صبح تقریباً 1.30 بجے نیو گرلز ہاسٹل سے باہر جانے کے لیے نکلی۔ راستے میں کچھ دور پیدل چلنے کے بعد اس کا ہم جماعت دوست بھی ا سے مل گیا۔ جب وہ دونوں باتیں کر تے ہوئے کیمپس میں واقع کرمن بیر بابا مندر کے قریب پیدل پہنچے تو اچانک بولیٹ موٹر سائیکل پر سوار تین نوجوانوں نے اپنے ہتھیار سے طالبہ کے دوست کو مار پیٹ کر بھگا دیا۔ اس مندر کے کونے میں لے جاکر ان تینوں نے بندوق کی نوک پر طالبہ کی عصمت دری کی۔ یوگی راج کے اندر ملزمین کی دیدہ دلیری دیکھیں کہ وزیر اعظم کے حلقۂ انتخاب میں انہوں نے برہنہ طالبہ کی ویڈیو بنائی اور اس کا موبائل بھی چھین لیا۔ اس بیچاری ابلہ ناری نے ہاسٹل پہنچ کر اپنے دوستوں کو واقعہ کی اطلاع دی۔ اس کے بعد سے بی ایچ یو کے طلباء نے ملزمین کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے کئی دنوں تک مظاہرہ کیا۔
اس واردات میں چونکہ سرکاری داماد ملوث تھے اس لیے پولیس نے پہلے تو اسے چھیڑ چھاڑ کا معاملہ کہہ کر رفع دفع کرنے کی کوشش کی لیکن 8؍ دن بعد جنسی استحصال کے معاملے میں متاثرہ نے دفعہ 161؍ اور164؍ کے تحت تفتیشی افسر اور مجسٹریٹ کے سامنے اپنے بیان میں تین خونخوار درندوں پر انتہائی وحشیانہ انداز میں جنسی زیادتی کرنےکا بھی الزام لگادیا۔ اس بیان کے بعد گینگ ریپ کے تحت مزید دو دفعات(376) Dاور 509کا اضافہ تو کر دیا گیا مگر ملزموں کی ٹھوس شناخت نہیں کی گئی ۔ اس ظلم و زیادتی کے خلاف آئی آئی ٹی بی ایچ یو کے طلبہ نے پہلے ہی دن سے ڈائریکٹر دفتر کے سامنے مسلسل ہڑتال شروع کردی ۔اس دوران کیمپس میں وہ بہت بڑی ریلی بھی نکالی گئی ۔ اجتماعی عصمت دری کی تصدیق کے لیے جب میڈیا والوں نے پولس کمشنر اشوک موتھا جین سے سوال کیا تو انہوں نے تحقیقات کے دوران دفعہ میں اضافہ کا اعتراف کیا اور گینگ ریپ کی تردید نہیں کی۔انکاونٹر کے لیے مشہور یوپی پولیس کی تساہلی اور یوگی کے بلڈوزر انتظامیہ کی سست روی اشارہ کررہی تھی کہ یہ ملزم یقیناً آسارام کے نقشِ قدم پر چلنے والے رام بھگت ہوں گے ورنہ کب کا آسمان پھٹ پڑتا۔
بی ایچ یو کے طلباء کا مستقل مزاجی کے ساتھ احتجاج کرتے رہنے کی محنت بالآخر رنگ لائی اور جب یہ ملزم بحالتِ مجبوری گرفتار ہوئے تو بی جے پی کے چہرے کی نقاب تار تار ہوگئی اور اس کے اندر سے سنگھی سنسکار کا خونخوار چہرا نمودار ہوگیا۔ بی جے پی سے وابستہ کنال پانڈے ہے محکمہ آئی ٹی سیل کا منتظم نکل آیااور سکشم پٹیل اس کا معاون نکلا۔ ان میں تیسرا آنند عرف ابھیشیک چوہان آئی ٹی سیل کی مجلس عاملہ کا رکن ہے۔ ان کی چوری اور سینہ زوری کا یہ عالم ہےکہ جب یوپی کانگریس کے صدر اجے رائے نے اس واقعہ میں اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد اور بی جے پی کے ملوث ہونے کا الزام لگایا تو ان کے مقدمہ درج کرادیاگیا۔ کانگریس اب ان کی گرفتاری میں تاخیر پر سوال پوچھتی ہے تو جواب ندارد ۔
سوشل میڈیا میں فی ا لحال کنال پانڈے کی بی جے پی وارانسی کے لیٹر ہیڈ پرجاری کردہ آئی ٹی سیل کے کارکنوں کی فہرست گردش کررہی ہے ۔ اس میں کنال پانڈے نےاپنے آپ کو میٹروپولیٹن وارانسی آئی ٹی سیل کا کوآرڈینیٹر قرار دے کر خود دستخط کیے ہیں جبکہ سکشم پٹیل کا نام بطور معاون کوآرڈینیٹر موجود ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی ، وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ اور پارٹی صدر جے پی نڈا بلکہ باگیشور بابا کے ساتھ بھی ان لوگوں کی تصاویر بی جے پی کی چال ، چرتر اور چہرا پیش کرتی ہیں ۔بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے خواتین کی عصمت دری معمولی بات ہے۔ اتر پردیش کے سون بھدرا کی دودھی سیٹ سے بی جے پی کے رکن اسمبلی رام دلار گونڈ پر 2014 میں ایک نابالغ لڑکی کی عصمت دری کا الزام لگا۔ اس کے باوجود پارٹی نے اسے دوبار ٹکٹ دے ایوان اسمبلی میں کامیاب کیا ۔ یوگی سرکار کی پناہ میں وہ خود کو سزا سے بچاتا رہا لیکن بالآخر ایم پی ایم ایل اے کورٹ میں اس کا مقدمہ جج احسان اللہ خان کی عدالت میں پیش ہوگیا ۔
وہیں سے بی جے پی کے ایم ایل اے رام دلار گونڈ کے ستارے گردش میں آگئے اور اس کو 12 دسمبر کے دن قصوروار ٹھہرا کر سزا سنانے کے لیے 15؍ دسمبر کی تاریخ مقرر کردی گئی۔ اس طرح زعفرانی خیمے میں کھلبلی مچ گئی ۔ اس کے بعد عدالت نے اس درندے کو 25 سال قید اور 10 لاکھ روپئے جرمانے کی سزا سنائی اور یہ بھی کہا کہ جرمانہ کی رقم متاثرہ کوہرجانہ کے طور پر دی جائے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ آٹھ سال کے بعد یہ فیصلہ سامنے آیا اور اس بیچ باہو بلی رکن اسمبلی نے ڈرانے دھمکانے کی بہت ساری کوشش کرڈالی۔ کاش کے دکھانے کے لیے سہی یوگی جی کا بلڈوز رام دلار کے گھر کی جانب بھی جاتا لیکن جو سنگھ کا دلارا ہویوگی راج میں اس کا بال بیکا نہیں ہوسکتا۔ ایوان پارلیمان میں منظور ہونے والے نئے قانون کہ مطابق اس جرم کی سزا موت ہے لیکن کیا بی جے پی والوں کو رام راجیہ میں اسے موت کی سزا مل سکتی ہے؟ ناممکن !
مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ موہن یادو ایک زمانے میں ریاست کے وزیر تعلیم تھے۔ اس وقت انہوں نے یہ فرمان جاری کردیا تھا کہ اگر کسی طالب علم کے خلاف مقدمہ ہو تو اسے کالج میں داخلہ نہ دیا جائے حالانکہ لوگ تو جیل میں بھی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ موہن یادو نے شاید اے بی وی پی والوں کی کالج کیمپس میں اجتماعی عصمت دری جیسے واقعات کے پیش نظر وہ کہا ہو لیکن انہیں وہ احمقانہ فیصلہ واپس لینا پڑا ؟ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہمنوا شیکھر گپتا نے اپنی نئی ویڈیو میں یہ انکشاف کیا کہ موجودہ مودی حکومت کے 56 وزراء میں سے 24 کی جڑیں اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشدمیں ہیں۔ بی جے پی کے 28 وزرائے اعلیٰ میں سے 13؍ 2014 سے قبل اے بی وی پی میں رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ بی جے پی کے مقرر کردہ تینوں وزرائے اعلیٰ آر ایس ایس کی طلبہ ونگ میں تربیت یافتہ ہیں مگر اس وقت اقتدار سے بے دخل ہونے کے سبب یہ لوگ کنٹرول میں تھے اب یہ درندہ بے قابو ہوگیا ہے ۔ شیکھر گپتا جس اے بی وی پی کو ہندوستان کی ‘سیاست کا سب سے بڑا اسکول’ قرار دیتے ہیں انہیں وارنسی میں اکھل بھارتیہ ودیا پریشد کے ہونہاروں کے ذریعہ اپنی تنظیم کے نام روشن کرنے پر بھی ویڈیو بنانی چاہیے لیکن ایسی جرأت کامظاہرہ ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ کام تو کوئی رعنا ایوب یا زبیر احمد ہی کرسکتا ہے۔
Comments are closed.