عالمہ کا ارتداد اوردانشوروں کی بے حسی

شکیل رشید ( ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
بریلی کی ایک عالمہ لڑکی بھگوا لو ٹریپ میں پھنس گئی!
یہ کیسی افسوس ناک خبر ہے ؛ افسوس ناک کے ساتھ دل کو چھلنی کرنے والی بھی ، کیونکہ یہ عالمہ بھگوا ٹریپ میں پھنسی ہی نہیں ، یہ مرتد بھی ہوئی اور ایک غیر مسلم لڑکے سے اس نے شادی بھی کر لی ۔ جو اطلاعات آئی ہیں اُن کے مطابق اس لڑکی نے ، جس کا نام افرح ہے ’ امام احمد رضا خان اکیڈمی ‘ سے تعلیم حاصل کی ہے ، اور ایک مندر میں اس کی باقاعدہ شدھی کرائی گئی ہے ۔ معاملہ پولیس میں ہے ، لیکن پولیس کیا کر لے گی ! سچ تو یہ ہے کہ جس قوم کی یہ بچی ہے ، اس قوم کے لوگ بھی کچھ نہیں کر سکیں گے ، کیونکہ انہیں فکر ہی نہیں ہے کہ ان کی قوم کے بچے اور بچیاں گمراہی اور تاریکی کے ایک غار میں ڈھکیلے جا رہے ہیں ، باقاعدہ منصوبہ بند طریقے سے ان کی ذہن سازی یا برین واشنگ کی جا رہی ہے ، اور انہیں اسلام سے دور کیا جا رہا ہے ۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ، اور آخری بھی نہیں ہوگا ۔ دھرم پریورتن کے لیے جو منصوبہ بندی کی گئی ہے وہ جگ ظاہر ہے ۔ منصوبہ بندی اس طرح کی گئی کہ پہلے ’ لو جہاد ‘ کا ہوّا پھیلایا گیا ، کہ مسلم نوجوان ہندو لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھنسا کر ان کا دھرم پریورتن کراتے ہیں ، اس کے ردعمل میں ہندو تنظیموں کی طرف سے سخت جواب آیا کہ ہم ایک ہندو لڑکی کے بدلے سو مسلم لڑکیوں کی دھرم پریورتن کرائیں گے ۔ اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ’ ایک کے بدلے سو ‘ کا نعرہ دیا تھا ۔ ملک بھر سے گزرے ہوئے چند برسوں کے دوران مسلم لڑکیوں کے تبدیلیٔ مذہب کی افسوس ناک خبریں آتی رہی ہیں ، اور ان خبروں کے درمیان یہ سوال اٹھتا رہا ہے کہ کیا ایک مسلمان کی حیثیت سے قوم ’ایمان کی حرارت ‘ سے مفقود ہوتی جا رہی ہے؟ حالات کس قدر خراب رہے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ لڑکیوں اور لڑکوں کو مرتد ہونے سے بچانے کے لیے سرگرم ایک گروپ ، جو اس فکر میں رہتا ہے کہ قوم کیسے ترقی کرے ؟ تعلیمی اور اقتصادی محاذ پر کیسے آگے بڑھے ؟ قوم کے نوجوانوں کو اچھی ملازمتیں کیسے ملیں ؟ اس کے ذمہ داران نے جب یہ پتہ لگانے کی سعی کی کہ کتنی تعداد میں مسلم بچیاں ’غیرمسلموں‘ سے شادیاں کر رہی ہیں ، تو پتہ چلا کہ کورٹ میں لگے نوٹس بورڈوں کے مطابق ہر مہینے ’ کورٹ میرج ‘ کے لیے تقریباً ۳۵ درخواستیں دی جاتی ہیں ، اس میں کمی و بیشی ہوتی رہتی ہے ۔ لڑکیوں میں سے زیادہ تر مسلم اکثریتی علاقوں کی ہوتی ہیں ، یعنی مسلم ماحول میں پلنے اور بڑھنے والی لڑکیاں ۔ یہ مسلم لڑکیاں ہر مسلک کی ہوتی ہیں تھیں ، بشمول بوہرہ فرقے کی لڑکیاں ۔ ممبئی شہر میں مذکورہ گروپ کی ایک ٹیم نوٹس بورڈوں پر رکھتی ہے تاکہ جنہوں نے درخواستیں دے رکھی ہیں ان کے والدین سے ملاقات کی جا سکے ، انھیں بتایا جاسکے کہ دیکھئے ایسا معاملہ ہے اور آپ ابھی بھی روک سکتے ہیں تو اپنی لڑکیوں کو روک لیں ۔ لیکن یہ کام کسی ایک گروپ کے کرنے کا نہیں ہے ، کیونکہ عام طور پر وہ لڑکیاں اور لڑکے جو مذہب تبدیل کر رہے ہوتے ہیں ، وہ نہ اس گروپ کی سُنتے ہیں اور نہ ہی والدین کی ۔ اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ والدین کی طرف سے بچوں کو خوب چھوٹ ملی ہوتی ہے ، اور اس چھوٹ کے نتیجے میں یہ بچے باغی ہو جاتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ پھر کیا کیا جائے ؟ ایک مہینے میں کم سے کم تیس واقعات ، یعنی بارہ مہینے یا ایک سال میں ۳۶۰ واقعات! وہ بھی صرف ایک شہر میں ! ملک میں کئی شہر ہیں اور اس طرح کی خبریں جیسی کہ بریلی سے آئی ہے ،کبھی کبھار باہر آپاتی ہیں ، لیکن ایسی خبریں ہر شہر سے آتی ہیں ؛ لہٰذا سال بھر میں پورے ملک میں ایسی کتنی مسلمان لڑکیاں ہوں گی جو غیر مسلموں سے شادیاں کرتی ہوں گی؟ جواب جو بھی ہو پر یہ ایک خطرناک اور تشویشناک ’ لہر‘ ہے ۔ اس کی وجوہ جو بھی ہوں ، سنگھ پریوار چاہے جس قدر سرگرم ہو ، پر سارا قصور مسلمانوں کا اپنا ہی ہے کہ مسلمان اب اپنے بچوں کو یہ بھی نہیں سمجھا پاتے کہ ایک مسلمان کے لیے سب سے بڑی دولت ’ ایمان ‘ کی دولت ہے ۔ وہ جو ’ ایمان ‘ کی دولت کو ’ دولت ‘ نہیں مانتے اگر یہ سب وہ لوگ کر رہے ہیں تو افسوس کی بات نہیں ، افسوس کی بات یہ ہے کہ ان گھروں میں بھی یہ ’ لہر ‘ہے جو خود کو ’ ایمان ‘ کی دولت سے مالا مال قرار دیتے ہیں ، مثال اوپر موجود ہے ۔ لہذا ضرورت ہے کہ مدبرانِ قوم اور دانشورانِ قوم سر جوڑ کر بیٹھیں اور کوئی حل تلاش کریں ، یا پھر خود کو مدبروں اور دانشوروں کی صف سے باہر کر لیں ۔
Comments are closed.