انصاف ہونا چاہیے، خواہ آسمان ہی کیوں نہ گر پڑے: ایس ڈی پی آئی
نئی دہلی: 08؍ فروری 2024ء (پریس ریلیز) سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI) کے قومی نائب صدر ایڈووکیٹ شرف الدین احمد نے اپنے جاری کردہ اخباری بیان میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے بابری مسجد ٹائٹل کیس پر حتمی فیصلہ بہت سے عدالتی فیصلوں کا محرک تھا جو مادی شواہد اور ثبوتوں سے زیادہ اعتقاد پر مبنی تھا جن پر عدالتوں کو فیصلہ سنانے میں انحصار کرنا چاہیے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے دیگر نچلی عدالتوں اور یہاں تک کہ سپریم کورٹ کے لیے فیصلے کی تیاری میں ایک نظیر بن جاتے ہیں۔ بابری مسجد کے معاملے میں جو نظیر قائم کی گئی وہ یہ تھی کہ حقائق، ثبوت یا پروف نہیں ہیں بلکہ کسی مقدمے میں مضبوط فریقوں کا عقیدہ ہے۔ سول جج (جونیر ڈویژن)، باغپت کی عدالت نے پیر کو ایک حکم میں حکم دیا ہے کہ 100؍بیگھہ زمین کا ٹکڑا جس کے بارے میں ہندوؤں کا خیال تھا کہ مہا بھارت میں مذکور ‘لکشا گرہا’ ہے۔ وقف جائیداد نہیں ہے، یہ کہتے ہوئے کہ مسلمان یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ یہ وقف زمین ہے۔ ایس ڈی پی آئی قومی نائب صدر ایڈووکیٹ شرف الدین احمد نے اس بات کی طرف خصوصی نشان دہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہندوستان میں عدالتیں شہریوں کی اپنی شکایات کے ازالے اور انصاف کی فراہمی کا آخری ذریعے رہی ہیں۔ ایک عرصہ سے انصاف کی فراہمی کی عدالتوں کی بنیادی ذمہ داری کو نظر انداز کیا جارہا ہے اور یہ نظام ایک مخصوص گروہ کے غیر قانونی دعوؤں کو جائز اور دوسرے گروہ کو انصاف دینے سے انکار کرنے کا آلہ کار بنا ہوا ہے۔ جب تک عدالتیں ”انصاف ہونا چاہیے، خواہ آسمان ہی کیوں نہ گر پڑے“ کی پیروی جاری رکھیں گے اور دوسری برادریوں کی عبادت گاہوں کی ملکیت کا دعوی کرنے والی درخواستوں کے بہاؤ کو چیک نہیں کرتیں، بھارتی شہریوں کا ایک بڑا گروہ مسلسل انصاف سے محروم رہے گbا۔
Comments are closed.