مثالی استاذ کی خوبیاں
اگر آپ کو اچھا ٹیچر بننا ہے تو درج ذیل خوبیاں اپنے اندر پیدا کریں

ڈاکٹر سراج الدین ندوی
ایڈیٹر ماہنامہ اچھا ساتھی۔بجنور
9897334419
تدریس ایک مقدس عمل ہے۔اللہ تعالیٰ معلم کائنات ہے اور اس کے رسول معلم انسانیت ہیں۔اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے انسان اور نبی کو زیور تعلیم سے آراستہ کرکے آنے والی تمام بنی نوع انسان کو تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دی اور تعلیم و تزکیہ کو نبوی مشن قرار دیا۔حضرت آدم ؑ کو تعلیم دی(وعلم آدم الاسماء کلہا)۔نبی اکرم ﷺ اپنے بارے میں فرماتے تھے۔”میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔“(ترمذی)اس لیے ایک استاذ کے اندر پہلی خوبی یہ ہونا چاہئے کہ وہ اپنے پروفیشن کے تقدس کو برقرار رکھے۔استاذ اور شاگرد کا رشتہ وہی ہوتا ہے جو ایک باپ کا اپنی اولاد سے ہوتا ہے۔استاذ کو روحانی باپ کا مقام حاصل ہے۔باپ بیٹے کے رشتہ میں بھی تقدس کا عنصر شامل ہے۔اس رشتہ کا تقاضا ہے کہ استاذ اپنے شاگرد کا خیر خواہ ہو،اس کی عزت کا محافظ ہو،اس کے اخلاق کا نگراں ہو۔استاذ معمار قوم ہے۔اسی کے ہاتھوں میں ملک کا مستقبل ہے۔نیپولین بونا پارٹ نے کہا تھا:”تم مجھے اچھی مائیں دو،میں تمہیں اچھی قوم دوں گا۔“اس قول میں ذرا سی ترمیم کرکے میں کہتا ہوں:”تم مجھے اچھے استاذ دو،میں تمہیں اچھی قوم دوں گا۔“ ضروری نہیں کہ ہر ماں بہت باصلاحیت ہو،ماں نیک ہوسکتی ہے،وہ اپنے بچے کو بہترین اخلاق سے آراستہ کرسکتی ہے،مگر ہوسکتا ہے وہ تعلیم نہ دے سکتی ہو،جب کہ ایک استاذ تربیت کے ساتھ تعلیم بھی دیتاہے۔اس لیے ایک استاذ کو اپنے پیشے کی اہمیت کو ہر وقت پیش نظر رکھنا چاہئے۔ذیل میں مثالی استاذ کے چند اوصاف کا باختصار ذکر کیا جاتا ہے۔یہ وہ لازمی اوصاف ہیں جن کی جانب ہمارے اساتذہ و ذمہ داران تعلیم کو توجہ دینا چاہئے۔
وہ مخلص ہو
ایک مثالی استاذ کی سب سے بڑی خوبی اس کا مخلص ہونا ہے۔تعلیم کوئی جزوقتی ملازمت(Part time job) نہیں ہے،بلکہ ہمہ وقتی شغل ہے۔ ایک استاذ صرف کلاس یا اسکول کے احاطہ میں ہی استاذ نہیں ہوتا بلکہ وہ اسکول کے باہر مسجد اور بازار میں بھی استاذ ہوتا ہے،اسی طرح ایک استاذ دوران تعلیم ہی استاذ نہیں ہوتا بلکہ یہ رشتہ تا حیات قائم رہتا ہے۔اگر آپ نے یہ طے کرلیا ہے کہ تدریس کو ہی ذریعہ معاش بنائیں گے تو اس کے لیے مخلص ہوجایے۔تبھی آپ اپنے پیشہ سے انصاف کرسکیں گے۔آپ کا اخلاص اپنے پیشہ کے لیے بھی ہو اور اپنے شاگردوں کے لیے بھی۔شاگردوں کے لیے مخلص ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے شاگردوں کو مثالی طالب علم بنانے کی کوشش کریں، ان کی کامیابی آپ کو ایسے ہی مطلوب ہو جیسے اپنی اولاد کی مطلوب ہوتی ہے، ان کی کامیابی پر آپ قلبی مسرت حاصل کریں اوران کی ناکامی سے آپ کو تکلیف ہو۔
وہ علم کا حریص(Learner) ہو
علم ایک ترقی پذیر شئی ہے۔انسانی زندگی میں روزانہ تغیر واقع ہورہا ہے۔آئے دن ملک کی سرحدیں بدل جاتی ہیں،نئی نئی ایجادات ظہور پذیر ہورہی ہیں،علم کی توسیع کا عمل مستقل جاری ہے۔ایک وقت تھا جب ایک ڈاکٹر سبھی امراض کا علاج کرتا تھا۔آج ہر عضو بدن کا الگ ڈاکٹر ہے۔یہاں تک کے دائیں کان کا ڈاکٹر الگ اور بائیں کان کا الگ ہے۔کوئی صرف ناک کا علاج کرتا ہے تو کوئی صرف آنکھ کا۔آنکھ کی بھی الگ دنیا ہے۔اس میں بھی درجنوں شعبے ہیں۔اسی طرح زراعت اوردیگر شعبہائے حیات کا علم ہے۔علم کی وسعت بغیر اندازہ ہے۔ایک استاذ کی ذمہ داری ہے کہ وہ کم سے کم اپنے مضمون کے بارے میں اپ ڈیٹ رہے۔وہ ہمیشہ سیکھتا رہے۔اگر سیکھنے کا عمل رک جائے گا تو اس کا علم محدود ہوجائے گا۔جس طرح تالاب میں اگر صاف پانی نہ ڈالا جائے تو ایک دن وہ تالاب یا تو سوکھ جاتا ہے یا اس کا پانی کثیف اور گندہ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ایک استاذ اگر اپنے علم میں اضافہ نہیں کرتا تو وہ اپنے شاگردوں کو تازہ علم نہیں دے سکتا۔
مقصد سے واقف ہو
آپ کیوں پڑھارہے ہیں؟اس کا جواب آپ کے پاس ہونا چاہئے۔ایک جواب یہ ہے کہ پیسہ کمانا چاہتے ہیں۔دوسرا جواب یہ ہے کہ بچوں کو امتحان میں پاس ہونے کے قابل بنانا چاہتے ہیں۔تیسرا جواب یہ ہے کہ بچوں کو اس قابل بنانا چاہتے ہیں کہ یہ پیسہ کماسکیں،چوتھا جواب یہ ہے کہ آپ اپنے شاگردوں کو دنیا اور آخرت میں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔ان جوابات کے علاوہ بھی کچھ اور جوابات ہوسکتے ہیں۔ہر جواب کے تقاضے اور نتائج الگ ہیں۔ اگر آپ کے پیش نظر صرف پیسہ کمانا ہی تعلیم و تدریس کا مقصد ہے تو پھر اخلاقیات کا ذکر ہی کیا۔آج جو ہم دیکھ رہے ہیں کہ ڈاکٹر کو مریض سے ذرہ برابر ہمدردی نہیں ہے،وہ اس کی جیب پر نظر رکھتا ہے،یہاں تک کہ مریض کے مرجانے پر اس کی لاش بھی پیسے لے کر دی جاتی ہے،بعض ہسپتالوں میں مردہ کو بھی مصنوعی طور پر اس لیے زندہ رکھاجاتاہے کہ اس کے ورثاء سے پیسہ لیاجاسکے۔ایک انجینئر رشوت لے کر ایسی تعمیر کرادیتا ہے کہ ایک جھٹکے میں ہزاروں زندگیاں ختم ہوجاتی ہیں،ایک تاجر صرف پیسے کے لیے کم تولتا اور ملاوٹ کرتا ہے۔یہ سب ان اساتذہ کی تعلیم کا نتیجہ ہے جن کے پیش نظر صرف پیسہ کمانا تھا۔اگر آپ آخری جواب کو اپنا مقصد بنائیں تو آپ ایک صالح معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔پیسہ تو بقدر قسمت آپ کو مل ہی جائے گا۔دنیا میں پیسہ بہت کام آتا ہے لیکن پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔غلط راستوں اور لوگوں کا گلا کاٹ کر کمایا گیا پیسہ اپنے ساتھ بہت سی مصیبتیں ساتھ لاتا ہے۔آج نیرو مودی اور وجے مالیا ملک سے فرار ہیں،جب کہ ان کے پاس بے انتہا دولت ہے۔دولت کا حصول اچھی بات ہے لیکن وہ آپ کے پاس جائز راستوں سے آنی چاہئے۔ایک مثالی استاذ دولت کا پجاری نہیں ہوتا،وہ اپنے غریب شاگردوں کو بھی اتنی ہی توجہ سے پڑھاتا ہے جتنی توجہ سے وہ مالدار شاگردوں کو پڑھاتا ہے۔اسکول میں ڈریس یونیفارم کا ایک مقصد یہ ہے کہ امیر اور غریب یکساں نظر آئیں اور استاذ کی نظر میں سب برابر ہوں۔ایک مثالی استاذ کے سامنے تعلیم کا مقصد بھی واضح ہوتا ہے اور زندگی کا مقصد بھی۔
صلاحیتوں کو پہچاننے والا ہو
ہم جانتے ہیں کہ بچے کے اندر بے پناہ خداد اد صلاحیتیں پنہاں ہوتی ہیں۔ان صلاحیتوں کا پہچان کر ان کو نشو نما دینا ایک مثالی استاذ کی خوبی ہے۔کس بچے کے اندر کیا صلاحیت ہے؟کون عالم دین بن کر رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکتا ہے،کون ڈاکٹر بن کر علاج کرسکتا ہے،کس کے اندر انتظامی صلاحیت ہے،کون ایک اچھا اور ایمان دار تاجر بن سکتا ہے؟کون مصنف اور مقرر ہوسکتا ہے؟ان سب صلاحیتوں کا ادراک کرنا ایک استاذ کی ذمہ داری ہے۔اس سلسلہ میں ہم نبی اکرم ﷺ کو دیکھتے ہیں کہ آپ ؐ نے صحابہ کرام کی صلاحیتوں کی شناخت کرکے ان کو اس میدان کا ماہر بنادیا۔بعض صحابہ کو آپ نے مبلغ بنایا۔بعض کو منتظم،بعض کو دوسری زبانیں سکھا کر مترجم بنایا اور بعض کو کاتب،بعض صحابہ کو آپ نے جاسوسی کی تربیت دی،بعض کو آپ نے سفارت کاری کا ہنر سکھایا۔سپہ گری تو عرب کے ہر باشندے کی ضرورت تھی،اس وقت ہر شخص تیر اندازی،گھڑ سواری اور تلوار بازی سیکھتا تھا،بعض لوگ اس فن میں بھی مہارت حاصل کرلیتے تھے،لیکن نبی اکرم ﷺ نے زندگی کے ہر میدان کے لیے صحابہ کو مخصوص تربیت دلائی۔کیا آپ ڈیڑھ ہزار سال پہلے عرب ریگستان میں یہ تصور کرسکتے تھے کہ قیدیوں سے تعلیم کا کام لیاجائے۔لیکن نبی اکرم ﷺ نے غزوہ بدر کے کافر قیدیوں سے مسلمانوں کو تعلیم دلائی۔یہ تاریخ کا نہایت انوکھا واقعہ تھا۔
اللہ نے کوئی چیز بے کار پیدا نہیں کی۔انسان تو اشرف المخلوق ہے۔اسے اللہ نے اپنا نائب بنایا ہے۔نائب کسی معمولی انسان کو نہیں بنایا جاتا۔ضروری نہیں کہ ہر بچہ کتابی علم میں اچھا ہو۔وہ کھیل میں نمایاں کارکردگی دکھاسکتا ہے،وہ ایک اچھا میکینک بن سکتا ہے،وہ ایک اچھا مصور ہوسکتا ہے،اسے اگر اللہ نے غنائیت کی صفت دی ہے تو ایک اچھا غزل گو ہوسکتا ہے۔ایک استاذ کا کام ہے کہ وہ ہر بچے پر خصوصی نظر رکھے اور اس کی دلچسپیوں کا مطالعہ کرے،اور اس مطالعہ کی روشنی میں بچے کے مستقبل کی منصوبہ بندی کرے۔
خوش مزاج ہو
عام طور اساتذہ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ خشک مزاج ہوتے ہیں۔بچے ان سے بات کرتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں۔بچوں کے معصوم ذہنوں پر ان کا خوف مسلط رہتا ہے۔اس ماحول میں بچے اپنی صلاحیتوں کا کھل کر اظہار بھی نہیں کرپاتے۔ایک استاذ کو بچوں کا اچھا دوست ہونا چاہئے۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ بچے اس کا احترام بھی ملحوظ نہ رکھیں۔احترام نہ کرنا الگ چیز ہے اور بچوں کا اپنے استاذ سے جائز بات کا کھل کر اظہار کرنا دوسری چیز ہے۔ان دونوں میں لطیف سا فرق ہے۔یہ استاذ کی صلاحیت کا کمال ہے کہ وہ بچوں کا دوست بھی ہو اور بچے اس کے سر پر ڈانس بھی نہ کریں۔جب آپ بچوں کو باپ کی محبت دیتے ہیں۔جب آپ ان کی خوبیوں کی تعریف کرتے ہیں اور ان کی کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے فکر مند رہتے ہیں تو بچے بھی آپ سے محبت کرتے ہیں۔آپ ان پر جان چھڑکتے ہیں تو وہ آپ کے لیے جاں نثار ثابت ہوتے ہیں۔ایک استاذ کو کلاس کا ماحول خوش گوار بنائے رکھنا چاہئے۔دوران تدریس اچھے لطائف بھی سنانا چاہئے،کبھی بچوں کی دعوت کرنا چاہئے،کبھی کسی سیاحتی مقام کی سیر پر لے جانا چاہئے۔
وضع قطع بودوباش سنجیدہ ہو
جیسا کہ عرض کیا گیا کہ بچہ اپنے استاذ کی نقل کرتا ہے،وہ اپنے استاذ کو والدین کے مقابلہ پر آئیڈیل مانتا ہے۔اسے اپنے استاذ کے علم پر دنیا کے باقی لوگوں سے زیادہ اعتماد ہوتا ہے۔اس لیے استاذ کی وضع قطع اور بادو باش کا بچے کی شخصیت پر بہت اثر پڑتا ہے۔ہر زمانے میں شرافت کا لباس اورصالح طرز زندگی لفنگے پن اور غیر صالح طرز زندگی سے الگ رہی ہے۔بھری محفل میں آپ لوگوں کے پہناوے اور چال سے ان کی علمیت اورخاندانی نجابت کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔سرپر لمبی لمبی زلفیں،نامناسب جگہوں سے پھٹی جینس،ہاتھ میں سگریٹ ہوتو آپ بلا تکلف کہہ سکتے ہیں یہ سب کچھ ہوسکتا ہے استاذ نہیں ہوسکتا۔ایک مثالی استاذ کی ہر ادا سے وقار ٹپکتا ہے اور عظمت جھلکتی ہے۔اس لیے استاذ کو چاہئے کہ وہ اپنے لباس اور بودوباش کو اخلاقی حدود کے دائرے میں رکھے۔
خوش گفتارہو
خوش گفتاری میں دوباتیں شامل ہیں۔ایک یہ کہ زبان کا آہنگ معتدل ہو،نہ اتنا پست کہ خود اور خدا کے سوا کوئی نہ سن سکے اور نہ اتنا بلند کہ ہمسائے بھی دوڑے چلے آئیں۔قرآن کے مطابق حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو جونصیحتیں فرمائی ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ ”اپنی آواز کو پست رکھو،بے شک گدھے کی آواز سب سے مکروہ ہے۔“(لقمان۔18)۔ایک استاذ کو چاہئے کہ کلاس میں پڑھاتے وقت بھی اس بات کا خیال رکھے کہ اس کی آواز سے برابر والی کلاس ڈسٹرب نہ ہو۔
زبان کے تعلق سے دوسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ جو زبان بھی بولے اس کی فصاحت و بلاغت اور گرامر کا خیال رکھے۔استاذ کی گفتگو طلبہ کے لیے سند اور حوالہ کی حیثیت رکھتی ہے۔آپ اردو،ہندی بولیں یاانگریزی،لیکن زبان کے معیار کو گرنے نہ دیں۔بعض اساتذہ طلبہ سے گفتگو کے وقت اپنی دیہاتی زبان کا استعمال کرتے ہیں جو غیر فصیح ہوتی ہے۔طلبہ استاذ کے ذریعہ بولے گئے الفاظ کو ڈکشنری میں تلاشیں تو انھیں نہ ملیں۔بعض علاقوں میں لکھنے والی زبان الگ ہے اور بولنے والی الگ۔استاذ کو کوشش کرناچاہئے کہ لکھنے والی زبان کا ہی استعمال کرے۔
اعلیٰ کردار کا حامل ہو
استاذ کا کردار تعلیم و تربیت میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔اس کی اخلاقی صفات کا پرتو طالب علم پر سورج کی روشنی کی طرح پڑتا ہے۔طلبہ کے سامنے جھوٹ بولنا،غیبت کرنا یا بددیانتی کرنااستاذ کی اپنی تصویر کو خراب کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کے اخلاق کو خراب کرنے کا موجب بھی ہے۔معاف کیجیے،موجودہ دور میں بعض اساتذہ کھلے عام اپنے اسکول کی استانیوں کے ساتھ عشق فرماتے نظر آجائیں گے،کیا اس کردار کے اساتذہ کوئی صالح معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔ایک مثالی استاذ اعلیٰ اخلاقی صفات کا حامل ہوتا ہے۔اس کی سچائی اور ایمانداری،اس کی عفت و پاک دامنی کی قسم کھائی جاسکتی ہے۔
مختصر یہ کہ استاذ کے اوپر سماج اور ملک کی ایک بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ قوم و ملک کے معماروں کا تخلیق کار ہے۔وہ جیسے معمار بنائے گا ملک اور سماج ویسا ہی تیار ہوگا۔اس پہلو سے ہر استاذ کو چاہئے کہ وہ اپنا جائزہ لے اور اپنے اندر مثالی استاذ کی لازمی خصوصیات کو پیدا کرے۔
Comments are closed.