منشی نول کشور کا سنگِ میل ’’اودھ اخبار‘‘

عارف عزیز بھوپال
اُردو صحافت کی تاریخ میں منشی نول کشور کا ’’اودھ اخبار‘‘ ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس اخبار کو شروع کرنے سے پہلے منشی جی نے ’’سفیرِ آگرہ‘‘ خود نکالا اور لاہور کے مشہور اخبار ’’کوہِ نور‘‘ میں کام کرکے صحافت کے رموز ونکات کی تربیت حاصل کی۔ اِس کے بعد لکھنؤ میں اپنا مطبع قائم کیا اور ۱۸۵۸ء میں اُردو کا عہدآفریں اخبار ’’اودھ اخبار‘‘ جاری کرکے زبان و ادب اور گنگا جمنی تہذیبی اقدار کے فروغ میں مصروف ہوگئے۔ یہ اخبار اپنے عہد کا معیاری اخبار تھا، جو ہندوستان کے علاوہ انگلستان، فرانس اور دوسرے مغربی ممالک میں شوق سے پڑھا جاتا تھا۔ اِس کے قارئین میں اُردو کے فرانسیسی مستشرق گارساں دتاسی جیسے مشاہیر شامل تھے، جو اخبار کے بارے میں اپنے تاثرات بھی لکھتے رہے۔ ’’اودھ اخبار‘‘ کے ذریعہ نول کشور نے صحافت کے جملہ اصولوں پر ہرممکن طریقہ سے عمل پیرا ہونے کی کوشش کی، اِس اخبار میں وہ تمام خوبیاں جمع ہوگئی تھیں جو اُس زمانے کے ترقی یافتہ انگریزی اخبارات کا طرۂ امتیاز تھا۔ یہاں تک کہ اِس کے معیار کو اُس زمانہ کا کوئی دوسرا ہندوستانی زبان کا اخبار چھونہ سکا۔ منشی نول کشور نے اخبار کو معیاری بنانے کے لیے اپنے زمانے کے ممتاز ادیبوں اور عالموں کی خدمات حاصل کیں اور بہت سے ناتجربہ کار نوجوانوں کو تربیت دے کر صحافت کے میدان میں اُتارا، وہ بڑے مردم شناس انسان تھے،اُن کی توجہ سے کتنے ہی گمنام اہلِ قلم اُردو زبان و ادب کے میدان میں سرگرمِ عمل ہوئے، ابتداء میں ’’اودھ اخبار‘‘ کی ادارت کے فرائض منشی جی خود انجام دیتے تھے لیکن جب اُن کے پریس میں کتابوں کی اشاعت کا کاروبار بڑھ گیا تو اُنھیں معاون کی ضرورت محسوس ہوئی اور یکے بعد دیگرے کئی قابل صحافی اُنھیں ملتے گئے، جن میں مولوی ہادی علی اشکؔ، رونق علی رونقؔ، نظام محمد تپشؔ، امجد علی اشہریؔ، شوکت میرٹھی، مرزا حیرت علی دہلوی، امیراللہ تسلیم، نسیمؔ دہلوی (استاد حسرتؔ موہانی)، قدر بلگرامی، طوطارام شایاںؔ، رتن ناتھ سرشارؔ، مولانا عبدالحلیم شررؔ، نوبت رائے نظرؔ جیسے معروف اہلِ قلم شامل تھے، ایسے مدیروں اور معاونوں کی تعداد تیس سے زیادہ ہے، جو اُن کی زندگی میں اخبار کی ادارت کے مختلف کام کرتے رہے، یہ سب اپنے کام کے ماہر تھے، جنھوں نے منشی جی کی نگرانی میں علمی و صحافتی خدمات انجام دے کر شہرت حاصل کی، آخری زمانہ میں سید جالب دہلوی، بینی پرساد سحرؔ، محمد حسن عسکری، یاسؔ یگانہ چنگیزی، پیارے لال شاکرؔ میرٹھی، عبدالباری آسیؔ، شوکت تھانوی وغیرہ نے بھی اخبار میں کام کیا، خبروں کی اشاعت میں جو اخبار کا امتیاز ہوا کرتا ہے ’’اودھ اخبار‘‘ کی اپنے معاصرین پر سبقت رہی، چار صفحات سے ترقی کرکے یہ سولہ پھر اڑتالیس صفحات پر نکلنے لگا۔ گارساں دتاسی کے بقول ’’اِس سے زیادہ ضخیم اخبار ہندوستان میں کوئی دوسرا نہیں تھا‘‘۔ دنیا بھر کی خبروں کے ساتھ ’’اودھ اخبار‘‘ میں سرکاری قوانین اور احکامات کے ترجمے عوام کی آگاہی کے لیے شائع ہوتے۔ عدالت اور میونسپل کی کاروائیاں، ریلوے ٹائم ٹیبل کے بارے میں تازہ بہ تازہ معلومات فراہم کی جاتیں اور بعض دوسری اطلاعات دیوناگری رسم الخط میں بھی شائع ہوتیں۔ اخبار میں انجمنوں، مشاعروں، جلسوں اور ثقافتی تقریبات کی رپورٹیں زینت بنتیں، اکثروبیشتر نئے پرانے شعراء کا کلام چھپتا، غالبؔ، سرسید، انیسؔ، دبیرؔ، تفتہؔ، رعناؔ، محسن الملک جیسے مشاہیر شاعروں و ادیبوں کے بارے میں مفید معلومات دی جاتیں۔
اپنے اخبار کو گوناگوں معلومات سے آراستہ کرنے میں منشی نول کشور کی دلچسپی جنون کی حد تک تھی، وہ گزٹ آف انڈیا، انڈین ڈیلی نیوز، فرینڈ آف انڈیا اور پانیئر جیسے انگریزی اخباروں کی اہم خبروں اور مضامین کے ترجمے شائع کرانے کا اہتمام کرتے، خود انھوں نے انگریزی میں ایک ہفت روزہ ’’لکھنؤ ٹائمس‘‘ نکالا، جس کے ایڈیٹر ایک قابل انگریز تھے۔ ’’اودھ اخبار‘‘ ابتداء میں پندرہ روزہ، پھر ہفت روزہ، بعد میں ہفتہ میں دوبار شائع ہونے لگا، اِس کے بعد روزنامہ ہوگیا۔ یہ اُردو کا پہلا اخبار تھا جو مضامین لکھنے والوں اور نامہ نگاروں کو معاوضہ ادا کرتا تھا، اُس کے نمائندے انگلستان اور دوسرے یوروپی ممالک میں تعینات تھے، جن کے نام عموماً پوشیدہ رکھے جاتے اور خبریں بذریعہ ڈاک آتی تھیں۔ دنیا اور ملک کے اہم ترین واقعات، حادثات اور سرگرمیوں کی خبریں سب سے پہلے اِسی اخبار کے ذریعہ عوام و خواص تک پہونچتیں۔مرزاغالبؔ اور سرسیّد جیسی بڑی شخصیتیں اِس کے لکھنے والوں میں شامل تھیں۔ بظاہر ’’اودھ اخبار‘‘ حکومت مخالف نہ تھا بلکہ حکومت اور سرکاری افسروں کے کاموں کا مداح تھا لیکن کسی حد تک غیرجانبداری کی پالیسی پر گامزن تھا، جہاں حکومت اور سرکاری عملہ کی کارگزاری کی تعریف کرتا، وہیں عوامی مسائل پر حکومت کی تنقید سے بھی باز نہ آتا، اِس کی یہی غیرجانبداری عوام و خواص میں اِس کی مقبولیت کا باعث تھی۔ انگریز حکمرانوں سے بہتر روابط اور اثرورسوخ کے باوجود منشی نول کشور کو جہاں کہیں ہندوستانیوں پر ظلم و زیادتی نظر آتی تو وہ اخبار میں اِس پر احتجاج ضرور درج کراتے، ہندی اور اُردو کے قضیہ کو اُبھارا گیا تو ’’اودھ اخبار‘‘ نے اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، صحافت کے اُصول کو پیشِ نظر رکھ کر اُردو اور ہندی دونوں کی حمایت میں مضامین ضرور شائع کیے تاہم وزن اُردو کے پلڑے میں ڈالا۔ فروری ۱۸۶۸ء کی ایک اشاعت میں صاف طور پر لکھ دیا کہ ’’اردو زبان، جس کی لوگ مخالفت کررہے ہیں، یہ دراصل مسلمانوں اور ہندوؤں کے میل جول سے بالکل اُسی طرح وجود میں آئی ہے جیسے انگلستان میں فرانسیسی کے امتزاج سے انگریزی نے جنم لیا تھا۔ اُردو میں دوسری زبانوں کے وہی الفاظ استعمال ہوتے ہیں، جو کھپ جائیں،یہ کونسی عقل کی بات ہے کہ اُردو کے عوض جو نہایت شیریں اور شستہ زبان ہے اور جو عام طور پر سمجھی جاتی ہے، اُس کی جگہ ہندی کو فروغ دینے کی کوشش کی جائے‘‘۔
’’اودھ اخبار‘‘ ہندومسلم اتحاد کا زبردست نقیب اور سماجی خدمات کا مؤثر ترجمان تھا، اِس کے صفحات کی ورق گردانی سے ایسے مضامین، تبصرے اور خبریں بڑی تعداد میں مل جاتی ہیں، جن سے سماج سدھار، اصلاحِ رسوم اور علوم و فنون کی ترویج و اشاعت کی ہمنوائی ہوتی ہے، وہ سرسیّد کی تحریک کا پُرزور حامی تھا، اِس تحریک کے بارے میں سرسیّد کے مضامین بھی اُس میں شائع ہوتے تھے۔ اُس زمانہ کے ممتاز علماء، ادیب اور شاعر اپنے مضامین اور کلام کی اشاعت کے لیے ’’اودھ اخبار‘‘ کو ہی ترجیح دیتے تھے۔ اخبار قومی یکجہتی اور اتفاق و اتحاد کا حامی تھا، عوام اور حکومت کے درمیان ربط و اشتراک قائم کرنا، اشاعتِ تعلیم و تربیت پر زور دینا، مشرقی تہذیب و اخلاق کو اُجاگر کرنا اِس اخبار کا نصب العین تھا، اُردو زبان و ادب کا نثری شاہکار ’’فسانۂ آزاد‘‘ اودھ اخبار کی ہی دین ہے، جو چودہ برس تک مسلسل شائع ہوتا رہا اور اِس کے لکھنے والے رتن ناتھ سرشارؔ کو شہرت و مقبولیت اِسی اخبار سے حاصل ہوئی، معروف انگریز دانشور کرنل ہالرائڈ کا تجزیہ ہے کہ ’’اودھ اخبارخالص غیر فرقہ وارانہ اخبار ہے، ظاہری ٹیپ ٹاپ سے لے کر مضامین اور خبروں تک اِسے پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ جیسے یہ مسلمانوں کا اخبار ہے، لیکن اِس کا کوئی سیاسی مسلک نہیں، ہمیشہ دامن بچاکر چلتا ہے‘‘۔ اخبار میں بڑے بڑے ادیب، شاعر اور انشاء پرداز کام کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ سوسائٹی کے اعلیٰ طبقہ تک اِس کی رسائی تھی، اِس کے خریداروں میں اراکین حکومت، ریاستوں کے حکمراں اور ممتاز دانشور شامل تھے، جو حسبِ موقع اخبار کی مالی امداد بھی کرتے تھے۔
’’اودھ اخبار‘‘ منشی نول کشور کا تاریخ ساز کارنامہ ہے، جو اُن کی زندگی میں ۳۲ سال اور اُن کے انتقال کے بعد ۱۹۵۰ء تک کوئی ۹۱ برس یعنی ایک صدی میں ۹ برس کم مسلسل شائع ہوتا رہا۔ ۱۸۵۷ء کے بعد رونما ہونے والے حالات میں کسی اُردو اخبار کا کامیابی کے ساتھ جاری رکھنا ایک بڑا چیلنج تھا۔ منشی نول کشور نے اِس چیلنج کو قبول کیا۔ سماجی و ثقافتی موضوعات کے علاوہ ادبی مضامین کی اشاعت کا اہتمام کرکے انھوں نے زبان و ادب کی بھی بڑی خدمت انجام دی اور آخر تک حکومت اور عوام کے درمیان رابطے کا کام انجام دیتے رہے، اُن کی تمام تر دلچسپیاں تعلیم کی اشاعت اور معاشرہ کی اصلاح نیز ہندوستانیوں کے بنیادی حقوق کی بازیابی پر مرکوز رہیں، حکومت سے ٹکراؤ کی پالیسی سے اجتناب کرکے ہی وہ اِس میں کامیاب ہوئے، اِس اخبار کا یہ بھی کارنامہ ہے کہ اُس نے صحافت کو جس راہِ اعتدال سے متعارف کرایا یا جن صحافیوں، ادیبوں اور شاعروں کی تربیت کی، وہ طویل عرصہ تک پورے معاشرہ کی رہنمائی کا اہم کام انجام دیتے رہے۔
Comments are closed.