بلی کا بکرا: میڈیا کے بعد عدلیہ کی باری

ڈاکٹر سلیم خان
نظام حکومت کے چار ستونوں میں سے تین مقننہ، انتظامیہ اور میڈیا کو مودی و شاہ کی جوڑی نے پہلے اپنے قبضے میں لیا اور پھر عدلیہ کو زیر دام لانے کی کوشش میں جٹ گئی ۔ اس معاملے میں بھی چند استثنائی فیصلوں مثلاًنفرت انگیزی کی مذمت ، نوپور شرما کو پھٹکار، بلقیس بانو کے مجرمین کی جیل روانگی، راہل گاندھی یا تیستا سیتلواد وغیرہ کی ضمانت کو چھوڑ دیں تو بیشتر فیصلے سرکار کے حق میں ہوئے اور عام لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ اب عدلیہ کو میڈیا کی طرح گودی عدالت کے لقب سے نواز دینا چاہیے۔ عدالتِ عظمیٰ کو بھی غالباً اس رسواکن صورتحال کا احساس ہوگیا اس لیے الیکٹورل بانڈز پر ایک نہایت جرأتمندانہ فیصلہ کرکے اپنا وقار بحال کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ عدالت کے اس فیصلے نے اچانک احساس دلایا کہ اس کے اندر ریڑھ کی ہڈی گوکہ خاصی لچکدار ہوگئی ہے مگر پھر بھی موجود تو ہے۔ گزشتہ سال عدلیہ پر مقننہ کی فوقیت ثابت کرنے کے لیے نائب صدر مملکت جگدیپ دھنکڑ نے کہا تھا کہ اول الذکر انتخاب نہیں لڑتا اس لیے عوام کی نمائندگی نہیں کرتا ۔ اس لیے جمہوری نظام میں اسے مقننہ کے تحت ہونا چاہیے۔
جگدیپ دھنکڑ سپریم کورٹ میں وکالت کرتے ہوئے سیاست بھی کرچکے ہیں اس لیے انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ مقننہ کی مضبوطی نہیں بلکہ کمزوری ہے۔ اس کی سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ انتخاب لڑنے والے میں کسی خاص صلاحیت یا مہارت کی چنداں ضرورت نہیں ۔ چائے بیچنے والا جاہل بھی جعلی ڈگری بتاکر وزیر اعظم بن سکتا ہے۔ عدلیہ کے اندر ایسا ممکن نہیں ہے۔ اس کے علاوہ انتخاب میں کامیاب ہونے کے لیے جھوٹے وعدے، بہتان تراشی ،ظلم وجبر اوردنگا فساد کروانا پڑتا ہے جبکہ سپریم کورٹ کے ججوں کی ایسی کوئی مجبوری نہیں ہوتی ۔ اس لیے انہیں کسی مخصوص طبقے کی خوشامد کرنے یا کسی اور کو ظلم و ستم کا نشانہ بنانے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ وہ اگر چاہیں تو سرکاری سانڈ کی ناک بھی نکیل ڈال سکتے ہیں لیکن لالچ اور خوف ان کے پیر کی زنجیریں ہیں جن کو توڑے بغیر وہ عدل و انصاف کےقیام نیز انسانی حقوق کا تحفظ کا فرضِ منصبی نہیں ادا کرسکتے۔
موجودہ حکومت نے سیاستدانوں کی طرح ان کو بھی بلیک میل کرنے کا راستہ ڈھونڈ لیا ہے۔ اسی لیے سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی کے خلاف شکایت کرنے والی ملازمہ کے فون میں پیگاسس ڈال کر ان کی جاسوسی کی گئی اور ان کے ہاتھوں بابری مسجد کے حوالے سے عظیم ناانصافی کروائی گئی۔ جسٹس رنجن گوگوئی ان ججوں میں شامل تھے جنھوں نے چیف جسٹس دیپک مشرا کے خلاف کھلے عام پریس کانفرنس کرکے اپنا احتجاج درج بلند کیا تھا۔ جنوری 2018 کے اندر رونما ہونے والا نہایت سنگین معاملہ تھا جب ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عدالت عظمیٰ کے چارججوں نے عدالتِ عظمیٰ کے طریقۂ کار پر سنگین سوالات اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ اگر سپریم کورٹ کو نہ بچایا گیا تو ملک سے جمہوریت ختم ہو جائے گی۔اس انقلابی قدم سے سکتے میں آکر مرکزی حکومت نے اسے عدلیہ کا اندرونی معاملہ کہہ کر رفع دفع کرنے کی کوشش کی لیکن یہ معاملہ عدلیہ تک محدود نہیں بلکہ سرکار کا تھا۔ اس کی جانب ان ججوں کے ذریعہ پیش کردہ مثال میں اشارہ موجود تھا۔ ان ججوں کو سہراب الدین فرضی تصادم معاملے کی تفتیش کرنے والے سی بی آئی کے جج بی ایچ لویا کی پراسرار موت کا معاملہ ایک جونیئر بنچ کے سپرد کرنے پر شدید تحفظات تھے ۔
مذکورہ مقدمہ میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے اس وقت قومی صدر اور اب وزیر داخلہ امیت شاہ کلیدی ملزم تھے۔ وہ اس معاملے میں جیل کی ہوا کھا چکے تھے اور اس میں بری ہوئے بغیر انہیں وزیر داخلہ بنانا ممکن نہیں تھا۔ مودی جی کے لیے یہ مقدمہ بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ اس مقدمے کافیصلہ سنانے سے قبل جج لویا ایک شادی میں شرکت کے دوران پراسرار حالت میں انتقال کرگئے۔ جسٹس لویا کے اہل خانہ نے یہ الزام لگایا تھا کہ انہیں اس کیس سے ہٹنے کے لیے کروڑوں روپئے کی پیش کش کی گئی تھی۔ یہ پیشکش کس نے اور کیوں کی ہوگی؟ یہ جاننے کے لیے کسی شرلاک ہومز کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ جج حضرات کی پریس کانفرنس سے ذرا پہلے سپریم کورٹ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ جسٹس لویا کی پراسرار موت ایک سنگین معاملہ ہے اور عدالت نے مہاراشٹر حکومت سے اس معاملے سے متعلق تمام دستاویزات کو فوراً عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔آگے چل کر وہ معاملہ جس طرح نمٹایا گیا اس سے ججوں کے خدشات درست ثابت ہوگئے۔
سپریم کورٹ میں اس وقت چیف جسٹس کے بعد سینئر ترین جسٹس جستی چاملیشور کے علاوہ جسٹس رنجن گوگوئی، جسٹس مدن بی لوکور اور جسٹس کورین جوسف نے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے طریقہ کار میں انتظامی ضابطوں کو بالائے طاق رکھ کر چیف جسٹس کے ذریعہ عدالتی بینچوں کو سماعت کے لیے مقدمات من مانے ڈھنگ سے الاٹ کرنے کا الزام لگایا تھا۔ ان لوگوں کا مقصد عدلیہ میں بدعنوانیوں کو اجاگر کرناتھا ۔ ججوں نے یہاں تک کہا تھا ،’’ہم ملک کو یہ باتیں اس لیے بتارہے ہیں تاکہ بیس برس بعد کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہم نے اپنی روح گروی رکھ دی تھی۔‘‘ لیکن پانچ سال بعد ہر کوئی محسوس کررہا ہے کہ عدلیہ کی جان طوطے میں اور پنجرے کی چابی سرکار کے پاس چلی گئی ہے۔جسٹس رنجن گوگوئی کو زیر دام لانے کے معاملے میں کامیابی کے بعد سرکار حوصلہ بڑھ گیا اور اس نے باقائدہ سازش کرکے عدلیہ کے پر کترنے کی کوشش شروع کردئیے ۔ ان میں سے ایک تو الیکشن کمیشن سے چیف جسٹس کو نکال باہر کرنے کا عمل تھا۔اس پر عدلیہ نے آنکھ دکھائی تو قانون بناکر اسے پھوڑ دیا گیا۔
دوسرا معاملہ کالیجیم کے نظام کو لاحق خطرہ تھا ۔ پچھلے سال کالیجیم کے معاملے میں وزیر قانون کرن رجیجو کی کھلے عام غیر ذمہ دارانہ تنقید اور نائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھنکڑ کے ذریعہ مرکزی حکومت کی حمایت نے سپریم کورٹ کے سابق جسٹس روہنٹن فالی نریمن کو یہ یاد دلانے پر مجبور کیا کہ عدالت کے فیصلے کو قبول کرنا وزیر قانون کا ‘فرض’ ہے، چاہے وہ ’صحیح ہو یا غلط‘۔نریمن نے نائب صدر کا نام لیے بغیر کہا تھاکہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ اپنی جگہ موجود ہے اور "خدا کا شکر ہے کہ ایسا ہی ہو گا‘‘۔ کالجیم کے ذریعہ تجویز کردہ ناموں پر مرکز کی حصہ داری پر، انہوں نے کہا کہ یہ ’’جمہوریت کے لئے مہلک‘‘ ہے، اور حکومت کو جواب دینے کے لئے 30 دن کی مہلت کا مشورہ دیا، ورنہ سفارشات خود بخود منظور ہو جائیں گی۔ نریمن نے کہا، ” ایک بار پانچ یا اس سے زیادہ جج آئین کی تشریح کر دیں تو آرٹیکل 144 کے تحت ایک اتھارٹی کے طور پر آپ(وزیر قانون) کا فرض ہے کہ اس فیصلے پر عمل کریں۔ آپ چاہیں تو اس پر تنقید کر سکتے ہیں۔ ایک شہری ہونے کے ناطے میں اس پر تنقید کر سکتا ہوں، کوئی حرج نہیں۔ لیکن یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ میں آج ایک شہری ہوں، آپ ایک اتھارٹی ہیں اور ایک اتھارٹی کے طور پر آپ اس فیصلے کے ذمہ دار ہیں، پابند ہیں، چاہے وہ صحیح ہو یا غلط‘‘۔
نائب صدر جگدیپ دھنکڑ نے کے عدلیہ کو اپنی حدود کا علم ہونا چاہیے والے بیان کے جواب میں سابق جسٹس نریمن نے کہا تھاکہ ”اس(کالیجیم ) اصول کو دو بار تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی، اور وہ بھی 40 سال۔ پہلے۔ اس کے بعد سے، کسی نے اس کے بارے میں ایک لفظ نہیں کہا۔ لہذا ہمیں بالکل واضح ہونا چاہئے کہ ہمیشہ کے لئے وہاں رہنے والی ہے‘‘۔ آزاد اور بے خوف ججوں کے بغیر دنیا کا تصور کرتے ہوئے، نریمن نے سختی سے متنبہ کیا کہ اگر یہ بدل گیا تو ہم "ایک نئے تاریک دور کے پاتال میں داخل ہو جائیں گے ۔ اگر آپ کے پاس آزاد اور نڈر جج نہیں ہیں تو الوداع کہیں۔ کچھ نہیں بچا‘‘۔جسٹس نریمان جن بے خوف ججوں کا رونا رورہے تھے ان کی دگر گوں حالت کا اندازہ لگانے کے دہلی کے سابق جج ایس مرلی دھر کی مثال چشم کشا ہے۔ موصوف نے دہلی فساد کی ویڈیو دیکھنے کے بعد پولیس سے صرف اتنا پوچھنے کی جرأت کی تھی کہ بی جے پی رہنما کپل مشرا کے خلاف ایف آئی آرکب داخل ہوگی؟
جج مرلی دھرکا اس جرأتِ رندانہ کے عوض سزا کے طور پر راتوں رات تبادلہ کرکے پنجاب ہریانہ کورٹ میں بھیج دیا گیا ۔ ن یہ کینہ پروری وہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ کالیجیم نےبھی انہیں سپریم کورٹ میں ترقی دے کر جج بنانے کی سفارش کرنےکی ہمت نہیں کی یہاں تک کہ تین سال بعد اگست 2023 میں وہ سبکدوش ہوگئے اور کوئی کچھ نہیں کرسکا۔ اس لیے جسٹس فالی نریمن کا یہ تشویش صد فیصد درست ہے کہ ’’ درحقیقت، میرے مطابق، بالآخر اگر یہ قلعہ منہدم ہوگیا، یا گرنے والا ہے، (اگر یہ ہوجائے) تو ہم ایک نئی کھائی میں داخل ہو جائیں گے۔ ایک ایسا تاریک دور جس میں لکشمن (آنجہانی کارٹونسٹ آر کے لکشمن) کا عام آدمی اپنے آپ سے صرف ایک سوال کرے گا – اگر نمک کا ذائقہ ختم ہو گیا ہے تو نمکین کہاں سے آئے گا؟‘‘ ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حکومت نے اپنے اقتدار کی ہوس میں ملک کو تاریک ترین دور میں پہنچانے کا ارادہ کرلیا تھا مگر سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلے سے حکومت کو ایسا زور دار چمانچہ رسید کیا ہے کہ اس کی گونج دیر تک اور دورتک سنائی دے گی۔
(۰۰۰۰۰۰۰جاری )
Comments are closed.