مسئلۂ فلسطین: عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد

 

ڈاکٹر سلیم خان

عصرِ حاضر کو دورِ منافقت بھی کہا جاسکتا ہے۔ آج کل عدل کی فراہمی کے لیے ضلع سے عالمی سطح تک ادارہ جات کی بھرمار  ہے لیکن  انصاف شاذو نادر ہی ہوتا ہے۔   برازیل کے صدر لوئیز اناسیو لولا ڈا سلوا نے ادیس ابابا افریقی یونین کے اجلاس  میں کہا کہ "جو کچھ فلسطینی عوام کے ساتھ غزہ کی پٹی میں ہو رہا ہے، تاریخ میں کسی اور مرحلے پر ایسا نہیں ہوا، درحقیقت یہ اس وقت ہو چکا تھا جب ہٹلر نے یہودیوں کو مارنے کا فیصلہ کیا تھا”۔ سوال یہ ہے کہ نام نہاد مہذب دنیا اس کی روک تھام کے لیے کیا  کررہی ہے؟   تو جواب   ہے ، عالمی عدالت میں اسرائیل کے خلاف مقدمہ چل رہا ہے اور اس کی حقیقت کا ادراک کیے بغیر  بڑی بڑی  توقعات باندھی  جارہی ہیں ۔  عالمی عدالت  اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک کے مابین تنازعات کو دور کرکے  متحارب  ممالک کو جنگ سے بچانے  اور ان کے بیچ  امن و سلامتی قائم کرنے کی سعی  کرنے والا  ایک   ادارہ   ہے۔ اس کا کام نہ صرف اقوام متحدہ اور دیگر مخصوص اداروں کی جانب سے قانونی معاملات پر طلب کردہ مشاورتی آرا  دینا بلکہ   ‘نزاعی معاملات’  پر  بحث کرنا بھی ہے ۔ اس سے اکثر رائے لینے کا کام لیا گیا مگرگزشتہ برس 29 دسمبر کو جنوبی افریقہ کی جانب سے درج کیا جانے والا اسرائیل کے خلاف نزاعی دعویٰ اس  کی پہلی مثال ہے۔

اس سے قبل 2004 میں اس  عدالت نے ایک مشاورتی رائے میں بتایا تھا  کہ اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ فلسطینی علاقے اور مشرقی یروشلم کے اندر اور اس کے اردگرد دیوار کی تعمیر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوا اور ظلم کی فصیل کا کام جاری و ساری رہا۔ آگے چل کر 20 جنوری 2023 کو جنرل اسمبلی نے عدالت سے مشرقی یروشلم سمیت مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالیوں پر رائے طلب کی تھی ۔  اس بارجنوبی افریقہ نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ وہ انسداد نسل کشی سے متعلق 1948 میں منظور کردہ اقوام متحدہ کے کنونشن کو مدنظر رکھتے ہوئے غزہ میں فلسطینیوں کے بڑے پیمانے پر قومی و نسلی تباہی پر فیصلہ دے گا اس لیے یہ معاملہ پہلے سے زیادہ سنگین   اور مختلف نوعیت کا ہے ۔جنوبی افریقہ کی طرف سے اسرائیل کے خلاف غزہ میں نسل کشی کے الزامات کے درخواست کی سماعت  کرنے والی 15 رکنی بینچ میں 3 عرب جج بنام  مراکش کے جسٹس محمد بنونہ، لبنان کے نواف سلام اور صومالیہ کے عبدالقوی احمد یوسف شامل ہیں۔

جسٹس محمد بنونہ 1943ء میں مراکش میں پیدا ہوئے اور 2006ء میں وہ پہلی بار بین الاقوامی عدالت انصاف کے رکن منتخب ہوئے۔ 2001ء سے 2006ء کے درمیان وہ  نیویارک میں اقوام متحدہ  کے اندر مراکش کے سفیر اور مستقل مندوب تھے۔جسٹس نواف سلام 1953ء میں پیدا ہوئے اور انہوں نے 1992ء میں پیرس کے انسٹی ٹیوٹ آف پولیٹیکل سائنسز سے پولیٹیکل سائنس میں ڈاکٹریٹ کیا، ہارورڈ لاء اسکول سے قانون میں ماسٹرز کی ڈگری اور سوربون یونیورسٹی سے تاریخ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔جسٹس نواف سلام نے 2007ء سے 2017ء تک نیویارک میں لبنان کے سفیر اور اقوام متحدہ میں مستقل مندوب کے طور پر خدمات انجام دیں۔جج عبدالقوی احمد یوسف 1948ء میں شمال مشرقی قصبے بونتلاند میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 2009ء میں بین الاقوامی عدالت انصاف میں شمولیت اختیار کی اور 2018 سے 2021 تک عدالت کے صدر کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے  ہیں۔ اس بینچ  میں  دل ویر بھنڈاری کا تعلق ہندوستان سے ہے اور  وہ 2018 میں دوسری بار عدالت کا حصہ بنے تھے۔

‘آئی سی جے’ کے فیصلے حتمی ہوتے ہیں اور ان کے خلاف اپیل کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ ان فیصلوں کو اپنے قومی دائرہ اختیار میں نافذ کرنا  متعلقہ ممالک کی ذمہ داری ہوتی ہے اور عام طور پر وہ بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہیں اس طرح  عدالتی احکامات کی تعمیل ہوجاتی ہے۔  اسرائیل جیسا کوئی سر پھرا  ملک اگر عدالت کے کسی فیصلے کے تحت اپنی ذمہ داریوں کی پاسداری میں ناکام رہے تو پھر متاثرہ ملک کے لیے آخری چارۂ کار  سلامتی کونسل سے رجوع کرنا ہوتا ہے۔ سلامتی کونسل متعلقہ معاملے پر اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت قرارداد کی منظوری دے سکتی ہے۔ 1984 میں  نکارا گوا نے کونٹرا باغیوں کے لیے امریکہ کی مدد کے خلاف ازالے کے لیے مقدمہ درج کرایا تھا  ۔ ‘آئی سی جے’ نے اس معاملے میں  نکارا گوا کو حق بجانب ٹھہرایا تو امریکہ نے فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ نکارا گوا  نے سلامتی کونسل سے رجوع کیااور وہاں  اس کے حق میں قرارداد پیش بھی  کی گئی مگر امریکہ نے اسے ویٹو کر دیا تھا۔ اس مثال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیل کے خلاف آنے والے فیصلے کا کیا حشر ہوگا کیونکہ وہ  امریکہ کی ایک ناجائز ریاست ہی ہے۔

 جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت انصاف کےحالیہ  حکمنامے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ’آج عالمی قانون کی عملداری کی فیصلہ کن فتح کا دن اور فلسطین کے لوگوں کے لیے انصاف کی تلاش میں اہم سنگ میل ہے۔حماس نے عالمی عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ’اہم‘ قرار دیا ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ اس سے ’اسرائیل تنہا ہو گا‘ اور غزہ میں اس کے جرائم دنیا کے سامنے آئیں گے۔ فلسطین کے وزیر خارجہ ریاض المالکی نے اپنے  بیان میں کہا ہے کہ ’عالمی عدالت انصاف کے ججوں نے حقائق اور قانون کا جائزہ لیا۔ انہوں نے انسانیت اور عالمی قانون کے حق میں فیصلہ دیا۔‘انہوں نے زور دے کرکہا  کہ ’قابض طاقت اسرائیل سمیت‘ تمام ممالک  ان اقدامات پر عملدرآمد یقینی بنائیں جن کا عالمی عدالت نے حکم دیا ہے‘۔ آگے چل کر  عالمی عدالت انصاف صرف یہ فیصلہ کرے گی کہ آیا اسرائیل پر ہنگامی احکامات (عدالت کی اصطلاح میں عارضی اقدامات) نافذ کیے جا سکتے ہیں یا نہیں۔اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے یا نہیں، اس بارے میں فیصلہ  دوسرے مرحلے میں  ہو گا اور اس میں برسوں لگ سکتے ہیں۔  

دوسرے مرحلے پر جنوبی افریقہ کو یہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اسرائیل نسل کشی کا ارتکاب کر رہا ہے، انہیں صرف یہ ثابت کرناہےکہ نسل کشی کا ممکنہ خطرہ ہے۔ عدالت اگر اسرائیل کے خلاف فیصلہ دے دیتی ہے تو بھی اس کا مطلب یہ ہو گا کہ نسل کشی کا ممکنہ خطرہ ہے۔ یہ نہیں کہ نسل کشی ہو رہی ہے۔جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت سے کہا ہے کہ وہ اسرائیل پر نو احکامات نافذ کرے، جس میں فوری طور پر فوجی سرگرمیاں معطل کرنا اور مزید انسانی رسائی کو ممکن بنانا شامل ہے۔ اب عدالت پر منحصر ہے کہ وہ  تمام نو احکامات کا حکم دیتی ہے یا ان میں سے کوئی بھی نہیں یا مکمل طور پر مختلف احکامات بھی صادر کرتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ  ویسے تو عدالت جنگ بندی کا حکم دے سکتی ہے، لیکن زیادہ امکان یہ ہے کہ اسرائیل سےمناسب خوراک، پانی اور انسانی امداد کی  رسائی کو یقینی بنانے پر اکتفاء کرے گی ۔ اس عدالت  نے 2019 میں  ایران اور امریکہ کے درمیان ا یک مقدمے کا فیصلہ بھی  سنا یا تھا ۔ اس کے علاوہ روہنگیا  اور گیمبیا سے متعلق اس کامقدمہ  عالمی سطح پر بہت مشہور ہوا تھا کیونکہ اس  سیاسی رہنماآنگ سان  سوچی نے اپنے ملک کی پیروی  کی تھی۔

اسرائیل ویسے تو ہٹ دھرمی  دکھا رہا ہے مگر  اس  کے ردعمل سے قطع نظر اس فیصلے کے اہم اثرات مرتب ہوں گے۔ عدالت اگر  نسل کشی کا ’خطرہ تسلیم کر لیتی ہے تو اس سے دوسرے ممالک کے لیے اسرائیل کی حمایت جاری رکھنا بہت مشکل ہو جائےگا اور  عالمی برادری اسرائیل کی فوجی یا دیگر حمایت واپس لے سکتے ہیں۔ماضی قریب میں روس نے  یوکرین پر حملے روکنے کا حکم نظر انداز کر دیا تھا یہی معاملہ اسرائیل بھی کرسکتا ہے۔  اس کا ایک علامتی پہلو یہ  ہے  اسرائیل اخلاقی حمایت کھو دے گا ویسے اس ناجائز ریاست کو اس کی کوئی خاص پروا نہیں ہے۔   جنوبی افریقہ کے بعد میکسیکو سے ایک حوصلہ بخش خبر یہ آئی ہے کہ  وہاں پر وزارت خارجہ نے  چلی کے ساتھ مل کر فلسطینی ریاست کی حیثیت کو ممکنہ جرائم کی تحقیقات کے لیے بین الاقوامی فوجداری عدالت سے رجوع کیا ہے۔وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ اس نے یہ اقدام تشدد کے حالیہ اضافے خاص طور پر شہری اہداف کے خلاف بڑھتی ہوئی تشویش کے سبب  کیا ہے۔یہ اس لحاظ سے قابل تعریف اقدام ہے کہ عالم انسانیت فلسطینیوں کا درد محسوس کرتی ہے۔

عام طور پر جرائم کی عالمی عدالت (آئی سی سی) اور عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کو ایک ہی ادارہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ تاہم ان میں یہ فرق ہے  کہ ‘آئی سی جے’ میں ممالک کے خلاف مقدمات دائر کیے جاتے ہیں جبکہ ‘آئی سی سی’ جرائم پر فیصلہ دینے والی عدالت ہے۔ یہ جنگی جرائم یا انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والے افراد کے خلاف مقدمات سنتی ہے یعنی اس میں اسرائیلی  وزیر اعظم نیتن یاہو کو ماخوذ کیا جاسکتا ہے کیونکہ فی الحال جبرو تشدد کا محور انہیں کی ذاتِ والا صفات ہے۔ مذکورہ بالا دونوں  اداروں میں ایک  فرق یہ بھی  ہے کہ ‘آئی سی جے’ اقوام متحدہ کا ادارہ ہے جبکہ ‘آئی سی سی’ قانونی طور پر اقوام متحدہ کا حصہ نہیں  ہے حالانکہ اس کی توثیق بھی  جنرل اسمبلی نے ہی کی ہے۔اقوام متحدہ کے تمام 193 رکن ممالک ‘آئی سی سی’ کے فریق نہیں ہیں۔ تاہم یہ کسی بھی رکن ملک یا عدالت کے دائرہ اختیار کو تسلیم کرنے والے ملک کے شہری کی جانب سے یا اس کی سرزمین سے ہونے والے مبینہ جرائم کی تحقیقات کر سکتی ہے۔ ‘آئی سی سی’ جنسی تشدد کے بطور جنگی ہتھیار استعمال سے لے کر بچوں کو جنگوں کے لیے بھرتی کرنے تک بہت سے جرائم پر مقدمات سننے اور فیصلہ دینے کی مجاز ہے اور ان سارے جرائم کا ارتکاب نہ صرف غزہ بلکہ مغربی کنارے پر بھی بڑے پیمانے پر ہورہا ہے اس لیے اسے ثابت کرنے کی خاطر کوئی محنت درکار نہیں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے  کہ اس مشق کابالآخر نتیجہ کیا نکلے گا؟اس صورتحال میں حماس  کی بے مثال مزاحمت اس لیے اہم ہو جاتی ہے کیونکہ بقول شاعر مشرق؎

رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم               عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد

 

Comments are closed.