بہار کی نئی حکومت میں وزیر اعلا کی بہ تدریج گھٹتی ہوئی حیثیت اوراقلیت کے مسائل سے بےرخی تشویش ناک
بھارتیہ جنتا پارٹی نے نتیش کمار کی آزادانہ سیاست پر فل اسٹاپ لگا دیا ہے ۔تبدیلی ِحکومت کے بعد سے حکمراں مشنری اور انتظامیہ میں تذبذب اور انتشار کا ماحول دیکھا جا رہا ہے۔

صفدرا مام قادری
شعبۂ اردو، کا لج آف کا مرس ،آرٹس اینڈ سائنس ،پٹنہ
جب سے نتیش کمار نے راتوں رات اپنی سیاسی وفاداری بدل کر بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ اپنی نئی اننگ شروع کی ہے ، وزیر اعلا کے طور پر اُن کا قد گھٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔ قانون سازیہ سے لے کر عوامی تقریبات تک میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے مقرر کردہ دو نائب وزرائے اعلا زیادہ حاوی نظر آتے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عہدہ تو وہی پرانا ہے مگر اب وہ کسی کے رحم و کرم پر وہاں براج مان ہیں۔حیاتِ مستعار کی گھڑیاں سیاسی مبصرین بھی گِن رہے ہیں کہ وہ کب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے پھیلائے جال میں کچھ اِس طرح سے پھنس جائیں گے کہ اُن کے لیے فارسی مقولے کے مطابق نہ پائے رفتن ہوگا نہ جائے ماندن ہوگی۔ وہ سیاسی چکر ویو میں پھنس کر شاید اپنی قائدانہ موت کے دروازے تک پہنچ جائیں گے ۔ زوال کا یہ سلسلہ فصیل ِ وقت پر لکھا ہوا صاف صاف نظر آرہاہے۔
نتیش کمار نے اتنی بار ادلا بدلی کی ہے اور نئے نئے اصولوں کی بنیاد پراقدار کی بات کرتے ہوئے اقداری سیاست کی بار بار دھجیاں اُڑائی ہیں ۔ ہر بار وہ آخری گھر کا اعلان کرتے ہوئے پارٹی بدلتے ہیں ۔ عوامی سطح پر بھی لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ اِن تمام ہتھ کنڈوں کا ایک ہی مقصد ہے کہ وہ تاحیات وزیر اعلا بنے رہیں۔ عوام چن کر اُنھیں بناتے رہیں تو بھلا اِس میں کیا ہرج ہو ۔مگر وہ تو اِس بات کے عادی ہیں کہ فرنٹ کے دو تین مہرے اِدھر سے اُدھر کر دیتے ہیں یا کرا لیتے ہیں اور پھر دوسرے پالے کی نئی قیادت اُن کے ہاتھ میں آجاتی ہے ۔سیاسی مبصرین اُن کے پچھلے دور کے بیانات یاد کرتے رہتے ہیں کہ اپنے تازہ حلیفوں کے بارے میں گذشتہ دنوں کیا کیا گل افشانیِ گفتار فرماچکے ہیں ۔ مگر اِس سے نتیش کمارکو کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ ہندستانی سیاست میں محاذ کی تبدیلی کے وہ ایسے ماہر ہیں کہ ایک ہی میعاداسمبلی میں وہ تین تین بار وزیر اعلا کی حیثیت سے حلف لیتے ہیں ۔کبھی وہ ’الف ‘ کے لیڈر ہوتے ہیں تو کبھی ’ب‘ کے ۔ چِت اور پٹ دونوں کے وہی شہ سوار ہیں ۔
نتیش کمار سترہ برسوں سے زیادہ میعاد سے بہار کے وزیر اعلا ہیں ۔ باضابطہ طور پر وہ ۹ بار وزیر اعلا کی حیثیت سے حلف اُٹھا چکے ہیں۔پہلی بار تو وہ ایک ہفتے کے لیے زبردستی وزیر اعلا بنا دیے گئے تھے اور بغیر ایوان میں اکثریت ثابت کیے اُن کی واپسی ہوئی تھی۔ ٹھیک اُسی طرح جس طرح اٹل بہاری واجپئی نے پہلی بار دو ہفتے کی وزارت قائم کی تھی اور ایوان کی اکثریت ثابت کرنے اور ذلت و رسوائی سمیٹنے سے پہلے دُم دبا کر بھاگنا پڑا تھا۔ مگر ۲۰۰۶ء میں نتیش کمار جب انتخاب میں طاقت ور رہنما کے طور پر اُبھر کر سامنے آئے اور لالو یادو۔ رابڑی دیوی کی حکومتوں اور ناکامیوں کے خلاف ماحول بنا کر وزارت کی کرسی سنبھالی تھی،اس وقت نتیش کمار اچانک قدِّ آدم لیڈر کے طور پر سامنے آئے ۔ اُس زمانے میں مرکز میں اٹل بہاری واجپئی کی حکومت ختم ہو چکی تھی اور من موہن سنگھ کی قیادت میں یو۔ پی ۔ اے کی حکومت کام کر رہی تھی ۔ جس میں لالو یادو اور ان کی پارٹی سرگرم حصے دار کے طور پر موجود تھے۔ نتیش کمار نے اپنے قد کو بڑھانے کے لیے اُس سے پہلے کی حکومت ِ بہار کے پندرہ برسوں کو جنگل راج کے طور پر مشتہر کرنے میں کامیابی پائی ۔اِسی کے ساتھ بہار کی ترقی کے لیے انھوں نے خصوصی ریاست کا درجہ دینے کی مانگ مرکزی حکومت کے سامنے رکھی ۔ انھیں دونوں باتوں کے ارد گرد ابتدائی دور کی ساری سرگرمیاں رہیں۔ کمال تو یہ ہے ۲۰۱۴ء میں نریندر مودی کی سرکار آئی ، اُس زمانے میں کبھی کبھی دبی زبان میں خصوصی درجے کی بات اُٹھ تو جاتی تھی مگر آج تک یہ بات سمجھ سے پرے رہی کہ اپنی حکمرانی کے پہلے دن سے بہار کی ترقی کے لیے اُن کے ذہن میں جو سب سے بڑا منصوبہ تھا، اُسے اپنی حلیف مرکزی حکومتوں سے کیوں نہیں پورا کرایا ۔ کیا کانگریس اور راشٹریہ جنتا دل سے لڑنے اور مقبول ِ عام معاملات کو ہوا میں اُچھال دینے کی حکمتِ عملی کے سِوا اِس میں کچھ رکھا ہوا ہے؟
اپنے سوالوں کو عوام کے سامنے اُٹھانا اور پھر خود ہی بھول جانا یہ واضح کرتا ہے کہ کسی اصول ضابطے یا فلسفۂ حیات کے تحت یہ باتیں سامنے نہیں آئیں ۔ نتیش کمار نے پہلے دور میں وزارتِ آبکاری کو ایسی کھلی چھوٹ دے رکھی تھی کہ گلی محلے میں شراب کی دکانیں کھل گئیں ، تعلیمی اداروں کے دروازے پر اور اسپتالوں کے سامنے بدیشی شراب کی دکانیں دعوتِ نظّارہ دے رہی تھیں ۔دس سال کے بعد انھیں اچانک خیال آتا ہے کہ شراب برائیوں کی جَڑ ہے، اِس لیے اُس پر روک لگا دی گئی ۔ یہ الگ بات ہے کہ ہر ہوٹل اور چوک چوراہے پر دوگنی رقم میں شراب دستیاب ہے۔حکومت کی مشنری کہیں نہ کہیں اِن تمام کاموں میں مدد گار ہے۔کاغذ پر شراب کا کنٹرول عوام کی نظر میں یہ ثابت کرتاہے کہ نتیش کمار نے صر ف سیاسی شعبدہ بازی کی اور اِس فیصلے سے اپنی ایمیج بدلنے کی کوشش کی ۔ اِس سے بھی اُن کے سیاسی وقار اور بازار بھاو میں گِراوٹ آئی ۔
گذشتہ کچھ برسوں سے نتیش کمار ذات برادری کی بنیاد پر مردم شماری کے لیے مرکزی حکومت پر دباو بنا رہے تھے ۔ اِس سے کافی پہلے یو۔ پی ۔ اے ۔ کے دور میں ہی لالو یادو اور ملایم سنگھ یادو کے ساتھ جنوبی ہندستان کی بہت ساری پارٹیوں نے مرکزی حکومت پر یہ دباو بنانے کی کوشش کی کہ مردم شماری میں برادری کے اعداد و شمار ظاہر کیے جائیں ۔ یہ کام اب تک مرکزی حکومت نے نہیں کیا ۔ جب نتیش کمار تجسوی یادو کے ساتھ حکومت میں آئے تو پھر خصوصی ریاست کا درجہ اور اسی کے ساتھ مردم شماری میں ذات برادری کی تفصیلات کا اندراج جیسے امور سامنے آئے۔ حکومتِ بہار نے تمام پارٹیوں کاوفد وزیر اعظم کے پاس بھیجا مگر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ۔ آخر آخر حکومت ِ بہار نے محدود پیمانے پر ہی سہی لیکن برادری کے اعتبار سے بہار بھر کی مردم شماری کرائی ۔اِس مردم شماری کے فیصلے کے پیچھے نتیش کمارسے زیادہ نائب وزیر اعلا تجسوی یادو اور لالو یادو کی قوتِ ارادی تھی جسے طرح طرح کی رکاوٹو ں کے باوجود کامیابی کی منزلوں تک پہنچایا جاسکے ۔ اِس مردم شماری کے اعداد و شمار خاصے چونکانے والے تھے اور آناً فاناً Reservation کے دائرۂ کار میں تبدیلی لائی گئی اور تناسب بدلا ۔
اسکول اساتذہ کے سلسلے سے نتیش کمار کی وزاتوں میں کم تنخواہیں اور ملازمت شرائط میں پیچیدگیاں بہت تھیں۔اب ان کو دور کرانے کی ایک مہم سامنے آئی اور نائب وزیر اعلا تجسوی یادو نے اِن معاملات کو تیزی کے ساتھ انجام تک پہنچانے کی کوششیں کیں ۔ ایوانِ حکومت میں تجسوی یادو نے ٹھیک کہاکہ ایک تھکے ہوئے وزیر اعلا سے انھوں نے التوا میں پڑے بہت سارے کام کرائے ۔ ورنہ یہ سب کچھ پندہ برس سے ٹال مٹول کی زد پر تھے۔اِسی طرح برادرانہ مردم شماری میں بھی نتیش کمار کے بجائے تجسوی یادو نے بڑھ کر اپنی سرگرمیاں دکھائی تھیں ۔
گذشتہ حکومت میں ہی یہ پتا چلنے لگا تھا کہ نتیش کمار دماغی طور سے ایک پختہ کام سیاست داںکے طور پر باقی نہیں ہیں۔وہ حکمتِ عملی بناتے ہیں اور جسے جوڑ توڑ کی سیاست کہتے ہیں ، اس کے مہرے ادھر ادھر کر کے اپنے لیے معقول جگہ تیار کر لیتے ہیں ۔ مگر اب وہ کسی نئے کام کا آغاز کرنے کی صلاحیت سے دست بردار ہو چکے ہیں ،اسی لیے اُن کی حیثیت گھٹتی جا رہی ہے۔ایوان میں گذشتہ دنوں اپنی نئی سرکار کے دفاع میں اُن کی تقریر سنتے ہوئے صاف صاف محسوس ہو رہا تھا کہ اب کمان اُن کے ہاتھ میں نہیں ہے ، جب کہ اُن کے مقابلے دونوں نائب وزیر اعلا یہ احساس دلانے میں کامیاب ہوئے کہ اب اُن کی پارٹی سارتھی ہے۔
ایک مہینے میں نتیش کمار اپنی کابینہ نہیں بنا سکے ، اِس سے آخر کیا ثابت ہوتاہے ۔ کیا انھیں دلّی کی ہر ی جھنڈی چاہیے اقلیت آبادی کا کوئی چہرا ان کی حکومت میں نہیں ۔ آنے والے وقت میں اِس بات کے مزید امکانات ہیں کہ کسی اقلیتی طبقے کے آدمی کو کوئی موثرعہدہ دیا جائے گا؟اردو مشاورتی کمیٹی اور اردو اکادمی جیسے ادارے تو چھ برسوں سے یتیم کی طرح بغیر کسی کمیٹی کے چل رہے ہیں ۔اُنھیں زندہ در گور کر دیا گیاہے۔ اب تو اُن کی تشکیلِ نو کے لیے امِت شاہ اور نریندر مودی سے اجازت لینی ہوگی ۔ مطلب یہ کہ نتیش کمار وزیر اعلا کی کرسی پر بیٹھے ہوئے رفتہ رفتہ چھوٹے ہوتے جائیں گے اور ۲۰۲۴ء کے پارلیامنٹ انتخاب میں ان کی تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی جائے گی ۔
مضمون نگار کالج آف کامرس ، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں۔
[email protected]
Comments are closed.