رام کا نام لینے والے،بیروزگاروں کو کام دینے میں ناکام 

 

ڈاکٹر سلیم خان

راہل کی وارانسی یاترا نے بی جے پی کی حالت خراب  کردی۔ پہلے تو یوگی جی اس کے اثرات زائل کرنے کی خاطر وارانسی کے مندر مندر گھومے مگر بات نہیں بنی تو خود وزیر اعظم  اپنی کھسکتی  زمین کو بچانے کے لیے  خود دوڑ پڑے اور  13 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کے ترقیاتی منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھ دیا مگرمیڈیا  میں ان پروجکٹس کے بجائے راہل گاندھی پر کیے جانے والے طنز پربحث شروع  ہو گئی  کیونکہ اول تو مودی جی کے دکھائے جانے والےخواب شرمندۂ تعبیر  نہیں ہوتے   اور اگر ہوبھی جائیں تو اس سے عام آدمی کو فائدہ نہیں ہوتا۔ اس سے پہلے تو چہیتے ٹھیکیدار پیسے کماتے ہیں اور پھر امیر کبیر استفادہ  کرتے ہیں ۔  عام لوگوں کو مودی جی کی تقریر میں تفریح کا سامان ہوتا ہے جس پروہ تالی بجاکر دادِ تحسین دیتے ہیں۔  ان کی حالیہ تقریر کا پہلا  تفریحی جملہ پوربی زبان میں یوں تھا:’’کاشی کی سرزمین پر آج ایک بار پھر آپ لوگن کے بیچ آوے کا موقع ملل ہے۔ جب تک بنارس نہیں آئیت، تب تک ہمارن من ناہی مانیلا۔ دس سال پہلے آپ لوگ ہم کے بنارس کا سانسد بنائیلا۔ اب دس سال میں بنارس ہم کے بنارسی بنا دے لیس‘‘۔

دس سال قبل بنارس آکر مودی جی نے کہا تھا مجھے گنگا  نے بلایا ہے۔ ان دس سالوں میں گنگا کی آلودگی میں اس قدر اضافہ ہوا کہ اب اس کا پانی پینا تو دور نہانے کے قابل بھی  نہیں ر ہا ۔ مرکزی آلودگی کنٹرول بورڈ کے مطابق  اتر پردیش سے لےکر مغربی بنگال تک گنگا ندی کا پانی پینے اور نہانے کے لئے ٹھیک نہیں ہے۔ کل 86 مقامات پر قائم کئے گئے لائیو جائزہ مراکز میں سے صرف سات علاقے ایسے پائے گئے، جہاں کا پانی صاف کرنے کے بعد پینے لائق ہے جبکہ 78 جگہ اس قابل نہیں ہے ۔ گنگا کی صفائی کے لیے 2014 سے لےکر جون 2018 تک 5523 کروڑ روپئے جاری کئے گئے اوراس میں سے 3867 کروڑ روپے خرچ  بھی ہوگئے اس کے باوجود بی جے پی  کی بدعنوانی دھوتے دھوتے رام کی گنگا میلی ہی ہوتی چلی گئی ۔  یہ وہی گنگا ہے جہاں ملک بھر سےآکر عقیدتمند اپنے پاپ دھونے کے لیے ڈبکی لگاتے تھے اور مرتے وقت اس کے دوچار گھونٹ پی کر سورگ میں جانے کی توقع کرتے تھے لیکن جب سے ’ہر ہر مودی گھر گھر مودی ‘کا نعرہ بلند ہوا گنگا کا پانی آلودہ ہوتا چلا گیا۔

مودی کے دورے کی اصل مقصد نوجوانوں کو گمراہ کرنا کانگریس کو بر ابھلا کہنا تھا اس لیے انہوں نے دورانِ خطاب کہا ’’ میں نہیں جانتا تھا کہ کانگریس کو بھگوان شری رام سے اتنی نفرت ہے‘‘۔ عوام کو رام کے نام سے نہیں بلکہ  اس نااہل ڈبل انجن سرکار کے کام سے نفرت ہے اوروہ  اسے سبق سکھانے کا انتظار کررہے ہیں  ۔ یہی خوف مودی اور یوگی کو بار بار وارانسی لے جارہا ہے۔ راہل گاندھی کی یاترا کے اثرات کو زائل کرنے کےلیے  مودی  بولے  ’’کانگریس کے  یوراج نے کہا’’ کاشی  اوریو پی کے نوجوان نشیڑی ہیں ۔مودی کو گالی دیتے دیتے اب وہ  یوپی کے نوجوانوں پروہ اپنی جھنجھلاہٹ نکال رہے ہیں،  جو لوگ خود ہی اپنا ہوش و حواس کھو چکے ہیں وہ یوپی اور میرے کاشی کے بچوں کو نشے کا عادی کہہ رہے ہیں۔  کاشی اور یوپی کے نوجوان ترقی یافتہ یوپی بنانے میں مصروف ہیں، وہ اپنا خوشحال مستقبل لکھنے کے لیے بے انتہا محنت کر رہے ہیں۔ ’انڈیا ‘اتحاد کے ذریعہ یوپی کے نوجوانوں کی توہین کو کوئی نہیں بھولے گا‘‘۔ اس طرح ہمدردی بٹورتے بٹورتے مودی کی عمر بیت گئی اور اب لوگ اس حربے سے اوب گئے ہیں۔

عوام کے جذبات سے کھلواڑکرنے والے وزیر اعظم  بتائیں کہ اگر کاشی کے نوجوان منشیات کا عادی نہیں ہیں تو انہوں نے بنارس ہندو یونیورسٹی کے احاطےمیں ایک طالبہ کی آبروریزی کیوں  کی؟ کیا ہوش و حواس میں  کوئی انسان اپنی  غلیظ حرکت کو ویڈیو بناسکتا ہے۔ وہ نوجوان کسی شاہی خاندان کے یوراج نہیں بلکہ  اس سنگھ پریوار کے پروردہ تھے جس کو اپنی تعلیم و تربیت اور ہندو تہذیب و تمدن پر فخر ہے۔  وہ  شراب کے ساتھ اقتدار کے  نشے میں بھی دھت تھے۔  اس کے باوجود انہیں بی جے پی  مدھیہ پردیش کے اندر لے جاکرچھپایا اور انتخابی مہم جٹا یا۔ یوگی  کو امید تھی کہ وقت کے ساتھ لوگ بھول بھال جائیں گے اور معاملہ رفع دفع ہوجائے گا لیکن  طلباء کے مسلسل  احتجاج  سے مجبورہوکر یوگی کی پولیس کو انہیں گرفتار کرنا پڑا۔  کیا ریاست کو اس طرح ترقی یافتہ بنایا جاتا ہے۔ ان ہی  نوجوانوں کے کالے کرتوت  مودی جی کو  گنگا میں ڈبونے کے لیے کافی  ہیں۔ بی جے پی کے لیے راہل سے زیادہ خطرناک وہ نوجوان ہیں۔

   وزیر اعظم جس وقت اترپردیش کے نوجوانوں سے متعلق لمبی چوڑی ہانک رہے تھے ریاست کے قنوج شہر  میں  ایک 28 سالہ بے روزگار نوجوان نے اپنے تمام تعلیمی سرٹیفکیٹ جلانے کے بعدخود کو  پھانسی لگا کر  خودکشی کرلی  ۔ برجیش پال نے حالیہ پولیس بھرتی کے امتحان میں شرکت کے بعد  مبینہ پیپر لیک سے پریشان  ہوکر 22 فروری کویہ  خودکش قدم اٹھایامگر وزیر اعظم  نےاپنی تقریر میں اس کی تعزیت تک نہیں کی کیونکہ  سپنوں کا سوداگر ہمیشہ  حقائق کے اعتراف سے  آنکھ چراتا ہے۔برجیش پال نے اپنے سوسائیڈ نوٹ میں لکھا کہ ، ’اب میں پریشان ہوں۔ جب کسی کونوکری نہیں مل سکتی تو ڈگری کا کیا فائدہ۔‘انہوں نے  اپنے گھر والوں سے کہا، ’میں نے آپ لوگوں کو دھوکہ دیا ہے۔ میری موت کے لیے کسی کو پریشان نہ کیا جائے۔ میں اپنی موت کا خود ذمہ دار ہوں۔ میں اب اور جینا نہیں چاہتا ہوں۔ ہم نے بی ایس سی کے تمام کاغذ جلا دیے ہیں۔ کیا فائدہ ایسی ڈگری کا جو ایک  نوکری نہ دلا سکے؟ ہماری آدھی عمر پڑھتے پڑھتے نکل گئی اس لیے ہمارا من بھر گیا ہے۔‘ اس خودکشی کی سیدھی ذمہ داری  مودی اور یوگی پر آتی ہے۔

برجیش پال ان 48 لاکھ سے زیادہ امیدواروں میں سے ایک تھا جو 17 اور 18 فروری کو ریاست بھر میں کانسٹیبل کے عہدے پر کل 60244 آسامیوں کو پُر کرنےکے لیے شریک ہوئے تھے۔ ہر سال دو کروڈ نوکریاں فراہم کرنے کا جھوٹا دعوی ٰکرکے اقتدار میں آنے والے وزیر اعظم جس ریاست  کے نوجوانوں کی  بابت  بلند بانگ دعویٰ کر تے ہیں اس میں  ساٹھ ہزار اسامیوں کے لیے اڑتالیس لاکھ درخواست ان کی قلعی کھول دیتا ہے ۔ انتخاب سے قبل نوکریاں بانٹ کر ووٹ پر قبضہ کرنے کی مذموم سازش کو مشیت نے بھرتی امتحان میں دوسری شفٹ کا پیپر لیک  کرکے ناکام کردیا۔ 18 فروری کی شام 3 سے 5 شفٹ کے سوالیہ پرچےبیشتر امیدواروں اور کوچنگ اساتذہ تک پہنچ چکے تھے۔ سوشل میڈیا پر پرچہ لیک ہو جانے کا انکشاف کے بعد یوگی جی کے بورڈ نے   حسبِ  عادت زعفرانی  دلالوں کو بچانے  پیپر لیک کی  خبروں کو فرضی قرار دےدیا  لیکن پھرمجبوراًتحقیقاتی کمیٹی تشکیل  دی گئی۔

یوگی سرکار کی کی اس  نااہلی اور بدعنوانی کے خلاف  امیدوار پہلے ہی  دن سے  سڑکوں پر آکرامتحان کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرنے لگے۔  اس سے گھبرا کر  اتر پردیش پولیس ریکروٹمنٹ اینڈ پروموشن بورڈ نے پیپر لیک کی شکایات پر امیدواروں سے ثبوت کے ساتھ اعتراضات طلب کیے  تو  تقریباً ڈیڑھ ہزار شکایات  مع ثبوت آن لائن موصول ہوگئیں ۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کس قدر بڑے پیمانے پر کھلے عام بدعنوانی ہوئی۔ انتظامیہ حرکت میں آیا تو امتحان کے آخری دن پیپر لیک معاملے میں 93؍ افراد کو گرفتار کیا گیا۔ اس  معاملے میں  15 فروری سے تادمِ تحریرضلع پولیس اور ایس ٹی ایف  نے دھوکہ دہی اور ٹارگٹ امتحان دینے والوں اور حل کرنے  والے گینگ کے کل 287 لوگوں کو گرفتارکیا۔ اس کے علاوہ امتحان کے پہلے دن  122 جعلی امیدوار اور حل کرنے والے گروہ کے ارکان پکڑے گئے۔ ان میں سے 96 لوگ امتحان کے دوران پکڑے گئے، نیز 18 دھوکہ بازوں کو بھی گرفتار کیا گیا ۔ ایٹا اور پریاگ راج کمشنریٹ میں بھی  15 ٹھگ پکڑے گئےنیز ماؤ، سدھارتھ نگر اور پریاگ راج سے 9-9، غازی پور سے 8 اور اعظم گڑھ سے 7 افراد کو گرفتار کیا گیا ۔ اس کا مطلب ہے کہ بی جے پی کی مانند یہ سرطانی ناسور پوری ریاست میں پھیلا ہواتھا۔

ایسے میں  بھارت جوڑو نیا ئے یاترا کے دوران اگر راہل گاندھی نے کہا  کہ ’میں نے وارانسی میں دیکھا کہ ہزاروں نوجوان شراب پی کر اور موسیقی کے آلات بجا کر سڑک پر لیٹ گئے‘ تو کیا غلط کیا؟  وزیر اعظم کی اس پر منہ زوری  کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے راہل گاندھی پوربی زبان میں ایکس پر لکھا  ’مودی جی اپنی نانی کو اپنے نا نیہال  کی کہانی سنا رہے ہیں‘۔ یہ دکھ بھری کہانی  یوگی کے اس  رام راج کی ہے کہ جس کی تعریف میں مودی جی اٹھتے بیٹھتے ہر ہر مہادیو کا نعرہ لگاتے ہیں۔  نوجوانوں نے اپنے پرزور احتجاج سے یوگی حکومت کو  یوپی پولیس کانسٹیبل بھرتی امتحان  منسوخ کرنے پر مجبور کر دیا۔  یہ اترپردیش کے نوجوانوں کی زعفرانیوں پر بہت بڑی فتح ہے۔ امتحانات کو ۶؍ ماہ کے لیے ملتوی کرنے کے یوگی نے اکڑ کرایکس پر لکھا ’’ نوجوانوں کی محنت اور امتحان کی شفافیت سے کھلواڑ کرنے والوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے گی۔‘‘ سوال یہ ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر کوتاہی کیوں ہوئی؟  اور اس کی ذمہ داری لے کر وہ یوگی  استعفیٰ کیوں نہیں دیتے ؟  بقول شاعر؎

تو اِدھر اُ دھر کی نہ بات کر، یہ بتا قافلہ کیوں لٹا                   مجھے رہزنوں سے نہیں گلہ، تیری رہبری کا سوال ہے ؟

 

 

Comments are closed.