تھی خبر گرم کہ راہل کے اڑیں گے پرزے

ڈاکٹر سلیم خان
ملک میں بلا اعلان ایمرجنسی کی طرح بلاواسطہ انتخابی مہم جاری و ساری ہے۔ برسرِ اقتدار این ڈی اے کے مقابلے انڈیا محاذ میدانِ عمل میں ہے۔ اول الذکر کی کمان وزیر اعظم مودی سنبھالے ہوئے ہیں اور انڈیا کے قافلے کی رہنمائی راہل گاندھی کررہے ہیں۔ انہوں نے پہلے جنوب میں کنیا کماری سے شمال کے سرینگر تک پیدل مارچ کیا جس کانام بھارت جوڑو یاترا تھا اور اب مشرق سے مغرب کی جانب محوِ سفر ہیں ۔ راہل گاندھی نے اپنی یاترا کے آغاز کی خاطر منی پور کا انتخاب کرکے بی جے پی کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ۔ اس لیے کہ گجرات کے بعد منی پور ہی بی جے پی اور نریندر مودی کی پیشانی پر سب سے بدنما داغ ہے۔ دونوں ریاستوں میں اپنا اقتدار مضبوط کرنے کی خاطر بی جے پی اور مودی نے تشدد کی آگ لگا کر اس پر اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے کی مذموم کوشش کی ۔ منی پور کی کشیدگی اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مئی کے اوائل سے شروع ہونے نسلی فسادات کے تقریباً چار ماہ بعد بھی تین بڑے ریاستی اسپتالوں کے مردہ خانوں میں 96 بے گورو کفن لاوارث لاشیں اپنے وارثین کاانتظار کرہی تھیں ۔ ان کی شناخت کے لیے حکام سے کسی نے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی تھی اور اس کی وجہ مقامی افراد کے اندر پایا جانے والا خوف و ہراس تھا۔ لوگ اسپتالوں سے اپنے لواحقین کی لاشیں لے جانے کی ہمت نہیں جٹا پارہے تھے۔
سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ سابق ججوں کی کمیٹی نے اس صورتحال میں ریاستی حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ وہ مرنے والوں کی ایک فہرست عوامی سطح پر جاری کرے اور میتوں کے لواحقین کی شناخت کر کے لاشیں ان کے حوالے کی جائیں ۔ اس کمیٹی نے یہ حکم بھی دیا تھا کہ جن لاشوں کے دعویدار پھر بھی سامنے نہ آئیں اُن کی آخری رسومات پورے احترام کے ساتھ ادا کر دی جائیں۔ یہ کس قدر سنگین صورتحال تھی کہ میتئی سماج کے لوگ کوکی لاشوں کو اپنے علاقہ میں تدفین کی اجازت نہیں دے رہے تھے ۔ کوکی رہنما موان تیومبینگ نےاس وقت کے حالات کی منظر کشی اس طرح کی تھی کہ ’لاشوں کی شناخت کے لیے امپھال وادی جانا ناممکن ہے کیونکہ وہ موت کی وادی کی طرح ہے‘۔ مرنے والوں کے لواحقین اس لیے خوفزدہ تھے کیونکہ بی جے پی کے کوکی رکن اسمبلی کو بھی دارالخلافہ امپھال کے اندر بُری طرح مارا پیٹا گیا تھا۔مو ان کے مطابق مسئلہ شناخت کا نہیں تھا بلکہ فوٹو اور فون کالز کے ذریعے بیشتر لاشوں کو پہچانا جاچکا تھا لیکن حکام قانونی تقاضے پورے نہ ہونے کے باعث یہ لاشیں وارثین کو سونپ نہیں رہے تھے۔ موان نے ان لاشوں کے علاوہ 41 کوکیوں کے لاپتہ ہونے کا ذکر کیا تھا۔ انھوں نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ حالات میں بہتری اسی وقت آ سکتی ہے جب اکثریتی میتیئی گروپ مثبت قدم اٹھائے اور مرکزی حکومت کوکیوں کی شکایات کو دور کرے۔
وہ ایک ایسا زمانہ تھا جب 41 ہزار کوکی عارضی کیمپوں میں رہنے پر مجبور تھے۔ مرکزی اور ریاستی حکومت ایک ساتھ مل کر حالات کو بگاڑنے کی سعی کررہے تھے۔ ایسے حالات میں راہل گاندھی نے منی پور کا دورہ کرکے متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھنے کا کام کیا تھا ۔ راہل گاندھی جون کے اواخر میں امپھال مغرب ضلع اور چراچندپور کے راحت کیمپوں کا دورہ کرکے نقل مکانی کرنے والے لوگوں سے ملاقات کی تھی۔ ان دونوں اضلاع میں راہل گاندھی نے لوگوں کی پریشانی سنی اور ان کے ساتھ رات کا کھانا کھایا تھا۔ اس کے بعدٹوئٹ میں لکھا کہ ’’میں منی پور کے اپنے سبھی بھائیوں اور بہنوں سے ملنے آیا ہوں۔ سبھی طبقات کے لوگ بہت پیار کرنے والے ہیں۔ یہ بہت افسوسناک ہے کہ حکومت مجھے روک رہی ہے۔ منی پور کو ہیلنگ ٹچ کی ضرورت ہے۔ امن ہی ہماری واحد ترجیح ہونی چاہیے۔‘‘ یہ بات درست تھی مگر امن و امان کی بحالی کے لیے مقامی پولیس کے علاوہ جس آسام رائفلز نامی نیم فوجی دستوں کو تعینات کیا گیا تھا بدقسمتی سے وہ بھی فرقہ وارانہ تقسیم کی زد میں آگئے تھے۔
منی پور کے دونوں نسلی گروہوں میں بے اعتباری اور نفرتیں اتنی گہری ہو چکی ہیں کہ ان کا سکیورٹی فورسز کے تئیں اعتماد ٹوٹ گیا تھا اور ہنوز وہی صورتحال ہے ۔ عوام کا اگر امن قائم کرنے والوں پر سے بھروسا اٹھ جائے تو اس کی توقع کیونکر ممکن ہے؟ فرقہ واریت کے سبب میتیئی گروپ کے لوگ فوج اور آسام رائفلز کے آنے جانے میں رکاوٹیں کھڑی کرکے الزام لگاتے تھے کہ وہ کوکی قبائل کی مدد کرتی ہیں جبکہ کوکی گروپ ریاستی پولیس اور ریاستی سکیورٹی فورسز کو اپنے علاقے میں داخل نہیں ہونے دیتے کیونکہ ان کا مانناتھا یہ میتیئیوں کی ہمدرد ہیں۔ منی پور کا سب سے بڑا مسئلہ باہمی اعتماد کا خاتمہ ہے۔ اس اعتماد کی بحالی کے لیے راہل گاندھی نے بجا طور پر اپنی یاترا کا آغاز منی پور سے کرنے کا فیصلہ کیا اور بھارت کے لوگوں کو جوڑنے کے ساتھ ان کو انصاف دلانے کی خاطر اپنی مہم کے نام میں نیایے کا اضافہ کر دیا لیکن جب اس میں سماجی انصاف اور ذات پات کی بنیاد پر ہونے والی ناانصافی کے ازالے کو بھی شامل کیا گیا تو بی جے پی کے کان کھڑے ہوگئے اور وہ سمجھ گئی کہ یہ یاترا اس کے قدم اکھاڑ دے گی ۔
بھارت جوڑو نیایےیاترا میں سماجی انصاف کے سبب پہلے ہی دن سے رکاوٹوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ امپھال کے سب سے بڑے میدان میں نظم و نسق کا بہانہ بناکر عوامی جلسہ کی اجازت نہیں دی گئی۔ آسام کے اندر ساتھ چلنے والوں پرحملے کیے گئے۔ مغربی بنگال میں ممتا بنرجی سے اختلافات کی افواہیں اڑائی گئیں لیکن یہ سارے حربے ناکام ہوگئے اور بھارت جوڑو نیایہ یاترا کامیابی کے جھنڈے گاڑتی چلی گئی۔ راہل کی یاترا جب بہار پہنچنے والی تھی تو بی جے پی کے ہاتھ پیر پھول گئے۔ اس نے راہل کی حوصلہ شکنی کے لیے نتیش کمار کو بلیک میل کرکے اپنے ساتھ لے لیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ انڈیا محاذ ختم ہوگیا ہے لیکن تیجسوی یادو نے نتیش کی کمی بڑ ی خوبی سے پوری کردی اور جس جوش و خروش سے عوام یاترا میں شامل ہوئے اس نے این ڈی اے کی حالت اور بھی خراب کردی ۔ بہار کے بعد یاترا کو جھارکھنڈ جانا تھا ۔ وہاں پر ہیمنت سورین پر بہار والا حربہ آزمایا گیا لیکن وہ جھکنے کے بجائے اڑ گئے اور جیل جاکر آپریشن کمل کو ناکام کردیا۔ اس طرح یاترا میں گویا جان پڑ گئی اور چانکیہ کی حالت کھایا پیا کچھ نہیں گلاس پھوڑا بارہ آنا والی ہوگئی۔
بھارت جوڑو نیایے یاترا جب اڑیشہ میں کامیابی کا پرچم لہرا رہی تھی تو اس کی جانب سے میڈیا کی توجہ ہٹانے کے لیے مہاراشٹر میں ملند دیورا اوراشوک چوہان کو توڑا گیا یعنی بھارت جوڑو کے مقابلے کانگریس توڑو کی حکمت عملی اختیار کی گئی ۔ اس کا فائدہ اٹھا کر وہ دونوں ابن الوقت تو ایوانِ پارلیمان میں پہنچ گئے مگر نارائن رانےا ور پنکجا منڈے ہاتھ ملتے رہ گئے۔ یاترا کے اتر پردیش میں داخل ہونے سے قبل جینت چودھری کو توڑ کر یاترا کی ہوا نکالنے کی کوشش کی گئی اور ایسی فضا بنائی گئی کہ سماجوادی پارٹی بھی بہت جلد انڈیا محاذ سے الگ ہورہی ہے لیکن اب یہ حال ہے کہ کانگریس و ایس پی کے درمیان سمجھوتہ ہوچکا ہے مگر آر ایل ڈی اور بی جے پی میں نہیں ہوسکا اس لیے جینت گھر واپسی کی سوچ رہے ہیں۔ آگرہ میں اکھلیش بھی راہل کی نہایت کامیاب اور تاریخی ریلی ہوچکی ہے ۔ اترپردیش سے نکل کر یاترا راجستھان کے دھول پور پہنچی تو عوام کا جوش و خروش دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ لوگوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا اور اور وہ پارلیمانی انتخاب میں اس کا ازالہ کردیں گے۔
دھول پور کے جلسہ عام میں راہل گاندھی نے کہا کہ ملک میں الگ الگ طرح کی ناانصافیاں ہو رہی ہیں، اس لیے اس یاترا کو انصاف سے جوڑا گیا ہے کیونکہ آج ملک میں صرف چالیس فیصد لوگوں کو ہی فائدہ ہورہا ہے۔ راہل گاندھی نے وزیر اعظم نریندر مودی کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے دوستوں کے لیے سب کچھ کر سکتے ہیں لیکن کسانوں کی بھلائی کے لیے کوئی قدم اٹھانے کو تیار نہیں ہیں۔ انہیں کسانوں کی کوئی فکر نہیں ہے اور کسانوں سے کئے گئے وعدے پورے نہیں ہوئے ہیں۔راہل گاندھی نے مزید کہا کہ ‘لیکن کیا کسانوں کی آمدنی دوگنی ہو گئی ہے؟نہیں۔ کیا کسانوں کے قرضے معاف کر دیے گئے؟ چند ایک کے درمیان ہندوستان کے وسائل کو تقسیم کرنے کی ‘متر پالیسی’ مودی کا ان لوگوں کے ساتھ دھوکہ ہے جنہوں نے ہندوستان بنایا۔وہ بولے ’’کانگریس ہر کسان، ہر مزدور اور آخری صف میں کھڑے غریبوں کے لیے منصفانہ پالیسیاں بنانے کے لیے پابند عہد ہے۔” مدھیہ پردیش میں یاترا کے داخلے سے قبل کمل ناتھ کی بغاوت کا خواب بیچا گیا اور ۲۲؍ ارکان اسمبلی کے ساتھ کانگریس سے علٰحیدگی کی خبر اڑائی گئی مگر اب تو کمل ناتھ یاترا میں شامل ہورہے ہیں ۔ بھارت جوڑو یاترا نے بڑی حد تک رام مندر کے اثرات کو زائل کرکے بیروزگاری کا مسئلہ ابھار دیا ہےجو بی جے پی کے لیے سمِ قاتل ہے۔ ایسے میں بھگتوں کی حالت پر غالب کا یہ شعر مع ترمیم صادق آتا ہے؎
تھی خبر گرم کہ راہل کے اڑیں گے پرزے دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا
Comments are closed.