ہندوستان ایک عظیم بے باک سیاسی اور ملی رہنما سے محروم

 

تحریر : مظاہر حسین عماد قاسمی

 

مشہور سیاسی لیڈر ، بے باک رہنما، ملی مسائل پر کھل کر بولنے والے اور یوپی کے سنبھل سے لوک سبھا ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر شفیق الرحمن برق کا آج بروز منگل 27/ فروری 2024/ کو انتقال ہوگیا۔

کافی دنوں سے ان کی طبیعت ناساز چل رہی تھی۔ انہوں نے مرادآباد کے ایک اسپتال میں آخری سانس لی۔۔ وہ مراد آباد کے ایک نجی اسپتال میں زیر علاج تھے۔ ان کی عمر 94 برس تھی۔ وہ سب سے پرانے رکن اسمبلی مانے جاتے تھے۔

ڈاکٹر شفیق الرحمن برق کی پیدائش 11/ جولائی 1930ء کی ہے ، ان کی اعلیٰ تعلیم ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر یونیورسٹی آگرہ میں ہوئی تھی۔

 

شفیق الرحمن برق صاحب کے کنبے میں ایک بیٹے مملوک الرحمن صاحب پوتی ، اور پوتے ہیں ۔ پوتے ضیاء الرحمان برق صاحب ضلع مرادآباد اور سنبھل لوک سبھا حلقے کی ایک اسمبلی سیٹ کندرکی اسمبلی سیٹ سے سماج وادی پارٹی سے ایم ایل اے ہیں۔

مرادآباد سے ایم پی ڈاکٹر ایس ٹی حسن نے منگل کو بتایا کہ برق مرادآباد میں واقع ایک پرائیویٹ اسپتال میں زیر علاج تھے۔ کئ اعضاء کے فیل ہوجانے کی وجہ سے انہیں پیر کو دقت ہوئی تھی۔ منگل کو انہیں صبح آئی سی یو میں بھرتی کرایا گیا۔ جہاں انہوں نے آخری سانس لی۔ ان کے انتقال سے نہ صرف سماج وادی تحریک کو دھکا لگا ہے بلکہ ہم نے ایک بے باک آواز کو بھی کھو دیا ہے۔

ایس پی سربراہ اکھلیش یادو نے حال ہی میں اسپتال پہنچ کر ڈاکٹر برق کی عیادت کی تھی۔ اور سماج وادی پارٹی نے آئندہ لوک سبھا الیکشن میں ڈاکٹر شفیق الرحمن برق صاحب کو سنبھل لوک سبھا سیٹ سے اپنا امیدوار بنایا تھا۔ الیکشن سے پہلے ڈاکٹر شفیق الرحمان برق کے انتقال سے سماج وادی پارٹی(ایس پی) اور اکھلیش یادو کو جہاں بڑا جھٹکا لگا ہے۔

وہیں ان کے انتقال کی خبر کے بعد سے پارٹی حامیوں اور سیاسی علاقے میں سوگ کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ان کے آخری رسوم کی ادائیگی کے لئے لوگوں کا جم غفیر امڈ پڑا۔

 

*ڈاکٹر شفیق الرحمان برق صاحب کی سیاسی زندگی*

چودھری چرن سنگھ سے سیاست سیکھنے کے بعد اپنے سیاسی سفر کا آغاز کرنے والے ڈاکٹر شفیق الرحمان برق کی پہچان ایک بیباک مسلم لیڈر کے طور پر ہوتی تھی۔ لوک سبھا میں وندے ماترم کی مخالفت ہو یا بابری ایکشن کمیٹی کے کنوینر کے طور پر رام مندر معاملہ، یا عالمی سطح پر اسرائیل اور فلسطین میں جنگ کے حالات، ان تمام موضوعات پر وہ اپنی بے باکی اور حق گوئی کی وجہ سے وہ دشمنان اسلام اور دشمنان جمہوریت کے نشانے پر رہتے تھے،

انیس سو نواسی سے اکیانوے کے درمیان ملائم سنگھ یادو کے وزیر اعلی رہتے ہوئے ڈاکٹر برق کو ہوم گارڈ وزیر بنایا گیا تھا۔

 

ڈاکٹر شفیق الرحمان برق صاحب مرحوم انیس سو چوہتر میں پہلی بار ممبر اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور چورانوے سال کی عمر میں اپنی وفات تک وہ سرگرم سیاست میں تھے، اور حق بات بولتے تھے، وہ کل چار بار ممبر اسمبلی اور پانچ بار ممبر لوک سبھا منتخب ہوئے، وہ کل بارہ سال ممبر اسمبلی اور اٹھارہ سال ممبر لوک سبھا رہے، چورانوے سال کی عمر میں بھی سرگرم سیاست میں رہنا اور دشمنوں کی تیز و تند باتوں کو جھیلتے ہوئے سرگرم سیاست میں رہنا ایک مجاہدہ سے کم نہیں ہے، وہ ہمارے لیے ایک بہترین نمونہ ہیں،

 

*برق صاحب اتر پردیش اسمبلی میں*

ڈاکٹر شفیق الرحمان برق صاحب مرحوم انیس سو چوہتر میں سابق وزیر اعظم چودھری چرن سنگھ ( جنہیں اسی سال بھارت رتن سے سرفراز کیا گیا ہے اور جو انیس سو اناسی – اسی میں چھ ماہ وزارت عظمی کے منصب پر فائز رہے ہیں ) کی پارٹی بھارتیہ کرانتی دل کے ٹکٹ پر سنبھل سے پہلی بار ممبر اسمبلی منتخب ہوئے تھے،

انیس سو ستہتر میں جنتا پارٹی کے ٹکٹ پر سنبھل سے دوسری بار ممبر اسمبلی منتخب ہوئے تھے،

انیس سو اسی میں وہ ممبر اسمبلی منتخب نہیں ہوسکے،

انیس سو پچاسی چرن سنگھ کی ہی پارٹی لوک دل کے ٹکٹ پر سنبھل سے تیسری بار ممبر اسمبلی منتخب ہوئے تھے،

انیس سو نواسی میں جنتادل کے ٹکٹ پر سنبھل سے چوتھی بار ممبر اسمبلی منتخب ہوئے تھے،

 

*برق صاحب لوک سبھا میں*

شفیق الرحمن برق صاحب مرحوم نے انیس سو چھیانوے، انیس سو اٹھانوے، انیس سو ننانوے، دو ہزار چار، دو ہزار نو، دو ہزار چودہ اور دو ہزار انیس کل سات بار لوک سبھا کے عام انتخاب میں الیکشن لڑا، ان میں سے وہ انیس سو ننانوے اور دو ہزار چودہ میں کامیاب نہیں ہوسکے تھے، بقیہ پانچ انتخابات میں وہ کامیاب ہوئے تھے، وہ کل اٹھارہ سال ممبر لوک سبھا تھے، وہ تین بار مراد آباد سے کامیاب ہوئے تھے اور لوک سبھا میں وہاں کی نمائندگی کل آٹھ سال کی تھی، وہ دو بار سنبھل سے کامیاب ہوئے تھے اور وہاں کی نمائندگی کل دس سال کی تھی،۔

شفیق الرحمن برق صاحب مرحوم 1996 میں سماج وادی پارٹی کے ٹکٹ پر مرادآباد لوک سبھا سیٹ سے کامیاب ہوکر پہلی بار ممبر لوک سبھا منتخب ہوئے تھے۔

1998 میں بھی سماج وادی پارٹی کے ٹکٹ پر ہی مرادآباد لوک سبھا سیٹ سے بی کامیاب ہوکر دوسری بار ممبر لوک سبھا منتخب ہوئے تھے۔

انیس سو ننانوے کا الیکشن جیت نہیں سکے،

دو ہزار چار میں سماج وادی پارٹی کے ٹکٹ پر ہی مرادآباد لوک سبھا سیٹ سے بی کامیاب ہوکر تیسری بار ممبر لوک سبھا منتخب ہوئے تھے۔

دو ہزار نو میں بہوجن سماج پارٹی کے ٹکٹ پر ہی سنبھل لوک سبھا سیٹ سے کامیاب ہوکر چوتھی بار ممبر لوک سبھا منتخب ہوئے تھے۔ وہ سنبھل سے کامیاب ہونے والے پہلے مسلمان اور اب تک کے آخری مسلمان تھے، انیس سو باون سے دو ہزار نو تک کے یہاں کے تمام ممبران لوک سبھا ہندو تھے،

 

دو ہزار چودہ کا الیکشن جیت نہیں سکے،

2014 کے لوک سبھا انتخابات کے دوران، بی جے پی کے پرمیشور لال سینی نے سماجوادی پارٹی کے شفیق الرحمن برق کو 5174 ووٹوں سے شکست دی تھی۔

دو ہزار انیس میں بہوجن سماج پارٹی(بی ایس پی)، سماج وادی پارٹی(ایس پی) اور راشٹریہ لوک دل(آر ایل ڈی) کے اتحادی امیدوار کے طور پر سنبھل سے دوسری بار اور مجموعی طور سے پانچویں بارجیت حاصل کر کے ایم پی منتخب ہوئے تھے۔

سماجوادی پارٹی نے 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے لیے شفیق الرحمان برق کو دوبارہ اپنا امیدوار بنایا تھا۔

اس طرح چار بار کے ایم ایل اے اور پانچ بار کے ایم پی کے طور پر ڈاکٹر شفیق الرحمان برق کا سیاسی سفر آخری سانس تک جاررہا ۔

 

*شفیق الرحمن برق صاحب مرحوم کی قابل تقلید خصو صیات*

ڈاکٹر برق نے سنبھل اور مراد آباد میں اپنی ایک الگ پہچان بنائی تھی، وہ لوگوں میں بہت محبوب اور لوک پریہ تھے۔

 

*وہ سچے پکے مسلمان تھے، خوبصورت گورے رنگ پر ان کی شرعی داڑھی ان کے حسن و جمال میں اضافہ کرتی تھی، وہ ہمیشہ دوپلی کپڑے کی سفید ٹوپی اور علماء و صلحاء کا لباس زیب تن فرماتے تھے،*

*انگریز ظالموں کے لباس پینٹ شرٹ وغیرہ میں ان کی تصویر کبھی نظر نہیں آئی ہے، وہ کبھی بھی آج کل کے ان جدید علماء کی طرح دوسروں کی رسوم و رواج اور پہناوے سے متاثرنہیں ہوئے،*

*ان کی زندگی میں ان حضرات کے لیے کافی سبق موجود ہے جو تھوڑے تھوڑے دنیاوی مصالح کے لیے اپنا حلیہ بدل لیتے ہیں، اور بہت ساری عظیم سنتوں اور فرائض و واجبات کو چھوڑ دیتے ہیں،*

وہ اپنے بیانات کی وجہ سے ہمیشہ سرخیوں میں بھی رہتے تھے۔ وہ اصول پسند سیاست داں تھے۔انہوں نے کبھی بھی اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کیا تھا۔ شفیق الرحمن برق صاحب مرحوم ہی واحد رکن پارلیمنٹ تھے جنہوں نے پارلیمنٹ میں وندے ماترم کی مخالفت کی تھی۔ اور افغانستان کے طالبان کو اپنے ملک ہندوستان کے مجاہدین آزادی سے تشبیہ دی تھی،

وہ منجھے ہوئے صاف گو بے باک نڈر اور تجربہ کار سیاست داں تھے ، اور اپنے کر و فر سے بھی ایک بڑے سیاست داں معلوم پڑتے تھے، ، شعری و ادبی ذوق بھی رکھتے تھے۔ ایوان میں بھی اپنی تقریروں میں اشعار کا استعمال کرتے تھے۔

مسلمانوں کے ملی اور معاشرتی مسائل پر جب بھی آنچ آتا یا کوئی بل پاس ہوا تو اس پر وہ ضرور بولے اور ملی غیرت و حمیت کا ثبوت دیا ۔

وہ بہت عرصے تک بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے کنوینر بھی رہے۔

 

*ان کے نام کا اثر ان کی پوری زندگی اور سلوک و اخلاق پر تھا، جہاں وہ شفیق کی نسبت سے شفیق تھے وہیں رحمان کی نسبت سے وہ مہربان تھے، اور برق کی نسبت سے وہ باطل اور جھوٹ کے لیے بجلی تھے،*

 

بہر حال ان کے دنیا سے چلے جانے سے میدان سیاست میں خاص طور پر مسلم سیاست میں بڑا خلا ہوا ہے ۔ ان کے پوتےضیاء الرحمان برق صاحب ان کی جانشینی کر رہے ہیں اور وہ دو ہزار بائیس میں پہلی بار ضلع مرادآباد اور سنبھل لوک سبھا حلقے کی ایک اسمبلی سیٹ کندرکی اسمبلی سیٹ سے سماج وادی پارٹی سے ممبر اسمبلی منتخب ہوئے ہیں ۔

ہم سماج وادی پارٹی کے قائد جناب اکھلیش یا دو جی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ دو ماہ بعد ہونے والے دو ہزار چوبیس کے لوک سبھا انتخابات میں سنبھل لوک سبھا حلقے سے جناب شفیق الرحمن برق صاحب مرحوم کے صاحب زادے جناب مملوک الرحمن صاحب کو امیدوار بنائیں، اور سنبھل اور مراد آباد کی عوام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مملوک الرحمن صاحب اور ان کے صاحب زادے پوتےضیاء الرحمان برق صاحب کی ہر ممکن مدد کریں،

اللہ تعالیٰ جناب شفیق الرحمن برق صاحب مرحوم کی مغفرت فرمائے ، انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ، ان کی سئیات کو حسنات میں بدل دے، پسماندگان و وارثین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ملک و ملت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے ، آمین، ثم آمین

 

 

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

Comments are closed.