Baseerat Online News Portal

فضیلتِ اعتکاف

 

از قلم: ابو حذیفہ یوسفی بارہ بنکی

رمضان المبارک کے آخری عشرے کی اہم ترین عبادت اعتکاف ہے ، اعتکاف عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ٹھہر جانے اور خود کو روک لینے کے ہیں۔ اس عبادت میں انسان صحیح معنوں میں سب سے کٹ کر اللہ تعالیٰ کے حضور یکسو ہو کر بیٹھ جاتا ہے، خلوت میں خوب توبہ و استغفار کرتا ہے، تلاوت، نوافل ، ذکر و ازکار کرتا ہے، دعا و التجا کرتا ہے اور اس کی ساری توجہ اس امر پر مرکوز رہتی ہے کہ میں شب قدر کی تلاش اور اس مبارک رات کی عبادت میں کامیاب ہوجاؤں تاکہ اللہ تعالیٰ مجھ سے راضی ہو جائے۔
حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معتکف کے بارے میں ارشاد فرمایا : ’’وہ (یعنی معتکف) گناہوں سے کنارہ کش ہو جاتا ہے اور اُسے عملاً نیک اعمال کرنیوالے کی مثل پوری پوری نیکیاں عطا کی جاتی ہیں۔
اور رمضان کے اخیر عشرہ کا اعتکاف کرنا رسول اللہ ﷺ کی مستقل سنت ہے، اوراس کی فضیلت اس سے زیادہ کیا ہوگی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اس کا اہتمام فرماتے تھے، امام زہری ؒ فرماتے ہیں : کہ لوگوں پر تعجب ہے کہ انہوں نے اعتکاف کی سنت کو چھوڑ رکھا ہے حالانکہ رسول اللہ ﷺبعض امور کو انجام دیتے تھے اور ان کو ترک بھی کرتے تھے ،اور جب سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے اس وقت سے لے کر وفات تک بلا ناغہ آپ اعتکاف کرتے رہے ،کبھی ترک نہیں کیا ۔ (اور اگر ایک سال اعتکاف نہ کرسکے تو اگلے سال بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔ اور حضورِ اکرم ﷺ کا ہمیشگی فرمانا (ترک کرنے والوں پر نکیر کیے بغیر) یہ اس کی سنیت کی دلیل ہے ۔

نیز اعتکاف میں اللہ تعالیٰ کے گھر میں قیام کرکے تقربِ باری تعالیٰ کا حصول ہے،دنیا سے منہ موڑنا اور رحمتِ خداوندی کی طرف متوجہ ہونا اور مغفرتِ باری تعالیٰ کی حرص کرنا ہے ۔ اور معتکف کی مثال ایسے بیان فرمائی گئی ہے گویا کوئی شخص کسی کے در پر آکر پڑجائے کہ جب تک مقصود حاصل نہیں ہوگا اس وقت تک نہیں لوٹوں گا، معتکف اللہ کے در پر آکر پڑجاتاہے کہ جب تک رب کی رضا اور مغفرت کا پروانا نہیں مل جاتا وہ نہیں جائے گا، ایسے میں اللہ کی رضا ومغفرت کی قوی امید بلکہ اس کے فضل سے یقین رکھنا چاہیے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہررمضان میں دس دن اعتکاف کرتے تھے ،لیکن جو آپ کی وفات کاسال تھا توآپ نے بیس دن اعتکاف فرمایا۔
علمانے لکھا ہے کہ آپ نے بیس دن کااعتکاف اس لیے فرمایاتھا کہ آپ کو منکشف ہوگیاتھاکہ یہ آپ کا آخری رمضان ہے، آپ نے چاہاکہ اعمالِ خیرمیں کثرت کی جائے ؛تاکہ امت کوعمل خیر میں جدوجہد کرنا ظاہرہوجائے اوربعض نے کہاکہ یہ بیس دن کا اعتکاف اس لیے تھا کہ آپ نے اس سے پہلے سال رمضان میں سفرہوجانے کی بناپر اعتکاف نہیں کیاتھا، اس لیے پچھلے سال اعتکاف نہ کرسکنے کی تلافی کرنے کے لیے اس سال بیس دن کااعتکاف فرمایا۔ بہرحال اس سے معلوم ہواکہ اعتکاف کا عمل آپ ﷺ کی نظر میں کتنی بڑی فضیلت والا اور اہم عمل تھا۔
نبی کریم ﷺ کاا رشاد ہے : کہ معتکف گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اور اس کے لیے نیکیاں اتنی ہی لکھی جاتی ہیں جتنی کہ کرنے والے کے لیے ۔

اس حدیث میں اعتکاف کرنے والے کے لیے اتنی نیکیوں کی بشارت سنائی گئی ہے جتنی کہ کرنے والے کے لیے، اس کامطلب یہ ہے کہ اعتکاف کرنے والا اعتکاف کی وجہ سے بعض نیک اعمال نہیں کرسکتا،مثلاً مریض کی عیادت ،جنازہ میں شرکت وغیرہ، ایسے اعمال کے بارے میں کہاگیاہے کہ اعتکاف کرنے والا اگرچہ عمل نہیں کرتا ؛مگر ا س کواتناہی ثواب دیاجاتاہے جتناکہ کرنے والے کودیا جاتا ہے۔
اعتکاف ہر وقت سنت ہے اور سب سے بہتر رمضان کا آخری عشرہ میں اعتکاف کرنا ہے کیونکہ رسول اللہﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں ہمیشہ اعتکاف کیا کرتے تھے۔
اعتکاف کرنے والے پر لازم ہے کہ وہ ثواب اور اللہ کی عبادت کی نیت سے مسجد کو لازم پکڑنے کی نیت کر لے کیونکہ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں ” اعمال کا دارومدار نیّتوں پر ہوتا ہے ” [اس حدیث پر امام بخاری اور امام مسلم کا اتفاق ہے]
دوسرے یہ ہے کہ جس مسجد میں اعتکاف کیا جا رہا ہو اس میں باجماعت نماز ہوتی ہو۔
اس سے معلوم ہوا کہ مسجد کے بغیر یا علاوہ اعتکاف ٹھیک نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ” اور عورتوں سے اس وقت مباشرت نہ کرو جب کہ تم مسجدوں میں اعتکاف میں ہو ” اور رسول اللہ ﷺ بھی ہمیشہ مسجد میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔
اور مسجد بھی ایسی ہو جس میں با جماعت نماز ہوتی ہو کیونکہ اگر وہ ایسی مسجد میں اعتکاف کرتا ہے جس میں باجماعت نماز نہ ہوتی ہو تو اس سے جماعت کا ترک کرنا لازم آتا ہے اور باجماعت نماز پڑھنا واجب ہے
اور اگر وہ باجماعت نماز پڑھنے کے لیے کسی اور مسجد میں جاتا ہے تو اس سے مسجد سے بار بار نکلنا لازم آتا ہے جو کہ اعتکاف کے مقصود کے خلاف ہے۔
البتہ عورت کا اعتکاف ہر مسجد میں جائز ہے چاہے اس میں باجماعت نماز ہوتی ہو یا نہ ہوتی ہو اور یہ اس وقت ہے جب عورت کے اعتکاف کرنے سے کسی فتنہ کا خطرہ نہ ہو اور اگر کسی فتنے کا خطرہ ہو تو پھر اسے اعتکاف کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
اور بہتر یہ ہے کہ آدمی اس مسجد میں اعتکاف کے لیے بیٹھے جس میں جمعہ کی نماز بھی ہوتی ہو لیکن یہ اعتکاف کے لیے شرط نہیں ہے۔

اعتکاف کی فضیلت قرآن مجید میں
حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیھما السلام کے بناء کعبہ کا واقعہ جہاں مذکور ہے وہیں سورہ بقرہ میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ؛ "اور ہم نے ابراہیم و اسماعیل کی طرف حکم بھیجا کہ میرے گھر کو خوب پاک رکھا کرو طواف کرنے والوں کے لئے، اعتکاف کرنے والوں کے لئے اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے”۔ اس آیت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اعتکاف کا مسئلہ گزشتہ امتوں میں بھی رہا ہے اور وہ لوگ بھی تقرب الہٰی کے لئے اعتکاف کیا کرتے تھے۔
اعتکاف کی قسمیں
اعتکاف کی تین قسمیں ہیں: اول، مسنون اعتکاف جو سنت علی الکفایہ ہے، یعنی رمضان کے اخیر عشرہ کا اعتکاف، اس صورت میں اگر پوری بستی یا محلہ کا کوئی فرد اعتکاف میں بیٹھ جائے تو یہ تمام کی جانب سے ادا ہوجائے گا، بصورت دیگر تمام افراد گناہ گار ہوں گے۔ دوم، واجب اعتکاف، یہ نذر ماننے کی صورت میں واجب ہوتا ہے اور جتنے دن کی نذر مانی جائے گی اتنے دنوں تک اعتکاف مع روزہ واجب ہوگا۔ سوم، مستحب اعتکاف، جب انسان مسجد میں داخل ہو تو اعتکاف کی نیت کرلے، اس صورت میں جب تک مسجد میں رہے گا اعتکاف کا ثواب بھی ملے گا اور جو عبادت ہوگی اس کا ثواب الگ ہوگا۔ لیکن مستحب اعتکاف کے لئے روزہ ضروری نہیں ہے۔

اعتکاف کرنے کی حالت میں بندہ کو چاہئے کہ ہمیشہ مسجد کے احاطہ میں رہے، کیونکہ بلا ضرورت مسجد سے باہر نکلنے کی صورت میں اعتکاف ٹوٹ جائے گا، البتہ اگر بشری تقاضے کے تحت مسجد سے باہر جانا ناگزیر ہو تو اس کی اجازت ہے لیکن اس دوران ضرورت کے بقدر اجازت ہے۔ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہے، جس میں شب قدر بھی ہے، ایسی صورت میں مسلمانوں کو چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ تلاوت کلام اللہ میں وقت لگائیں اور دعا و اذکار کی جانب بھر پور توجہ دیں، کیونکہ دعا کی فضیلت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ رب العالمین نے خود دعا مانگنے کے لئے کہا ہے۔ ایک تو رمضان المبارک کے مہینہ میں اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے نفل عبادت کا ثواب فرض کے برابر کردیتے ہیں اور فرض کا ثواب ستر گنا بڑھا دیا جاتا ہے، اور پھر ایسے موقع پر اگر انسان کو شب قدر کی فضیلت حاصل ہوجائے تو کیا کہنے!اس لئے جن احباب کو اللہ نے موقع دیا ہے اور وہ بسہولت اعتکاف میں بیٹھ سکتے ہیں تو انہیں نیک کام میں سبقت کرنا چاہئے۔

دعا ہے کہ اللہ ربّ العزت ہمیں آخری عشرہ رمضان کے اعتکاف کی توفیق عطاء فرمائے ، جوکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنت، لیلتہ القدر جیسی مبارک رات کی عبادت کا ذریعہ اوراللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کاباعث ہے۔

Comments are closed.