Baseerat Online News Portal

اساتذہ کی بےادبی کا بڑھتا ہوا رجحان

از قلم :ایمن کائنات

اب تو شاگردوں کا استاد ادب کرتے ہیں
سنتے ہیں ہم کبھی شاگرد ادب کرتے تھے

استاد فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی سکھانے والا، معلم اور رہنما کے ہیں۔ایسا شخص جو کسی فن میں کامل ہو۔ جب ہماری سماعت کے پردوں سے یہ لفظ ٹکراتا ہے تو ہمارے سامنے ہمارے استاد کا چہرہ گھوم جاتا ہے۔ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا اس ہستی کی ماں باپ کی طرح عزت کی جاتی تھی۔ ان کے سامنے اونچی آواز تو ایک طرف بولنا بھی محال تھا۔ مگر وقت گزرا اور آج کی نوجوان نسل استاد کا مرتبہ بھولنے لگی۔ میں یہ نہیں کہتی تمام طالب علم ایسے ہیں مگر اکثریت ایسی ہے جو جماعت میں بیٹھنے کے آداب سے ناآشنا ہے۔ جو استاد جیسی مقدس ہستی کو وہ مقام نہیں دیتی جو اس کا حق ہے۔ کیا وجہ ہے آج کا طالب علم استاد کا ادب بھول گیا ہے؟

جہاں کسی بات پر اختلاف ہو جاۓ تو اونچی آواز سے بات کرنا اور تیز نظروں سے دیکھنا، پیٹھ پیچھے اس کے مختلف نام رکھنا۔ کیا یہ ادب ہے؟ افسوس آج کی نوجوان نسل اس بات کو سنجیدگی سے نہیں لیتی۔
*”عالم کا یہ حق ہے اس کے آگے نہ بیٹھو اور ضرورت پیش آۓ تو سب سے پہلے اس کی خدمت کے لیے کھڑے ہو جاؤ“*
*(فرمان حضرت علی ؓ)*
استاد اور طالب علم کا تعلق دریا اور پیاسے کی مانند ہوتا ہے۔ استاد اس کے علم کی پیاس اپنے تجربے اور علم کے دریا سے بجھاتا ہے، وہ اسے اپنے اندر سے قیمتی موتی لا کر دیتا ہے۔ اسے نئے جہانوں سے روشناس کرواتا ہے۔ اسے اڑنے کے لیے پنکھ عطا کرتا ہے۔ اس کے ڈر کو اعتماد دیتا ہے۔ اسے دنیا میں جینا سکھاتا ہے۔ اسے دنیا کا وہ مقام دلاتا ہے جو اسے معاشرے میں بلند کرتا ہے۔ اسے عام لوگوں سے ممتاز کرتا ہے۔

*”استاد اپنے شاگرد کے حق میں والدین سے زیادہ شفیق ہوتا ہے کیونکہ والدین اسے دنیا کی آگ اور تکالیف سے بچاتے ہیں اور استاد اسے دوزخ کی آگ اور آخرت کے مصائب سے بچاتا ہے“*
*(تفسیر کبیر ،ج۱،ص ۴۰۱) *
اس عظیم ہستی کا ادب و احترام اتنا ہی ضروری ہے جتنا والدین کا۔ ایک چھوٹا بچہ جسے اپنے اچھے برے کی کوئی خبر نہیں ہوتی وہ ہر چیز میں ہاتھ ڈالتا ہے۔ مٹی بھی کھاتا ہے، آگ اور چھری کو بھی کھیلنے کی چیز سمجھتا ہے۔ ہم بھی مکتب میں اس ناداں بچے کی مانند ہوتے ہیں جس کی کامیابی کا راز استاد کے پاس ہوتا ہے۔ اس کے پاس وہ کنجی ہوتی ہے جو بخت کا تالا کھولتی ہے۔ جس انسان کے پاس کچھ نہ ہو استاد کی صرف دعا اسے بادشاہ کا تخت دلا دیتی ہے۔ جس طرح استاد کی دعا طلب علم کو بادشاہ بناتی ہے اسی طرح بد دعا اسے زندگی میں ناکام کر دیتی ہے۔ استاد بڑا باظرف ہوتا ہے وہ بد دعا نہیں دیتا مگر اللہ کو استاد کی بےادبی پسند نہیں ہے۔ اس نے اپنے پاک کلام میں استاد کا ادب سکھایا ہے اس نے اپنے نبی کو استاد بنا کر بھیجا ہے۔
*آپﷺ‎ نے فرمایا: "مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔”*
*(ابن ماجہ: 229)*
قران پاک صرف اُس زمانے کے لیے نہیں تھا اس میں ہمارے آج کے لیے بھی سبق ہے۔ ہمیں اس معاملے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔

علامہ اقبال سے کون واقف نہیں جب ان کو برطانوی حکومت نے *”سر”* کا خطاب دینا چاہا تو انھوں نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا کہ پہلے میرے استاد کو دیا جاۓ کیونکہ اقبال آج جو بھی ہے ان کی وجہ سے ہے۔ ایک مرتبہ علامہ اقبال کسی دکان کے تختے پر اس طرح بیٹھے تھے ایک جوتا پاؤں میں ایک زمین پر تھا۔ اتفاق سے ان کے استاد سید میر حسن شاہ وہاں سے گزرے انھوں نے فورََ ادب سے سلام کیا اور ان کے پیچھے چلتے ہوۓ اسی حالت میں گھر تک چھوڑ کر آۓ پھر دوسرا جوتا پہنا۔ علامہ اقبال کو آج ایک دنیا جانتی ہے اور وہ اسے استاد کی دعا کا ثمر بتاتے ہیں ۔
*”جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کرنے کے سبب ہی پایا اور جو کچھ کھویا ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا“*
*(راہ علم: صفحہ29)*
استاد زندگی کی کہانی کا وہ کردار ہوتا ہے جو اسے ہاتھ پکڑ کر کامیابی تک لے جاتا ہے جو طالب علم کی کامیابی پر ایسے خوشی مناتا ہے جیسے اس کی اپنی کامیابی ہو۔ وہ موسم بہار کی طرح ہوتا ہے جو طالب علم کی شخصیت سے خزاں اور مایوسی کے بادل بھگا دیتا ہے
*یہ مہر تاباں سے کوئی کہہ دے کہ اپنی کرنوں کو گن کے رکھ لے*
*میں اپنے صحرا کے ذرے ذرے کو خود چمکنا سکھا رہا ہوں*

اور بدلے میں کیا چاہتا ہے، کچھ بھی نہیں۔ آپ کی کامیابی ہی اس کا انعام ہوتی ہے۔ وہ اتنے بڑے دل کا مالک ہوتا ہے وہ آپ کو کامیابی تک پہنچا کر پلٹ آتا ہے۔ وہ آپ کی کامیابی کا کریڈٹ بھی خود نہیں لیتا۔ کیا اس شخص کا اتنا بھی حق نہیں کہ ہم اس کا ادب کریں۔
*نبی پاکﷺ‎ کا فرمان مبارک ہے: "جس سے علم سیکھتے ہو اس کے ساتھ ادب، تواضع سے پیش آؤ۔”*
دوسرے ممالک میں اساتذہ کو سب سے زیادہ مرعات اور عزت حاصل ہے۔ اور ہمارے ملک میں سب سے کم تنخواہ اس کی ہے۔ مگر یہ چہرے پر بغیر کسی شکن کے اپنا فرض ادا کرتا ہے۔ ایک وہ دور جب بڑے بڑے اکابرین اور بزرگوں نے اپنے اساتذہ کے ادب کی مثال قائم کی۔ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں میں ادب کی وجہ سے کتاب کا ورق بھی آہستہ الٹتا تھا کہ اس کی وجہ سے میرے استاد کو تکلیف نہ ہو۔ اور ان کے شاگرد امام ربیعؒ کی بھی بات ملاحظہ کریں مجھے اپنے استاد امام شافعی ؒ کے ادب کی وجہ سے کبھی بھی ان کے سامنے پانی پینے کی جرات بھی نہ ہوئی۔ ہمارے اسلاف اتنے باوقار تھے ادب کی وجہ سے اپنے استاد کا نام بھی نہیں لیتے تھے ان کی خدمت کے لیے ہر وقت تیار رہتے۔ اور آج مجھے بہت دکھ سے کہنا پڑ رہا ہے۔
*رہ گئ رسم اذاں، روح بلالی نہ رہی*
*فلسفہ رہ گیا، تلقین غزالی نہ رہی*

آج کے طالب علم نے استاد کو تنخواہ دار ملازم سمجھ لیا ہے۔ جبکہ صحابہ کرام کا نمونہ ہمارے سامنے ہے۔ وہ اتنی توجہ اور دھیان سے علم حاصل کرتے تھے پرندے ان کے سروں پر آ کر بیٹھ جاتے تھے اور آج کے طلبا معمولی معمولی باتوں پر کلاس چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کے سامنے کھیل کود اور کھانے پینے میں مشغول رہتے ہیں۔ اگر ڈانٹ ڈپٹ کی جاۓ تو گھر اور انتظامیہ کو شکایت کر دیتے ہیں۔ ہر انسان کی طرح اساتذہ کی بھی عزت نفس ہوتی ہے۔ آج کے استاد سے طالب علم نے وہ اختیارات چھین لیے ہیں۔ وہ اپنے معملات میں استاد کا بولنا پسند نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے پڑھے لکھے افراد کی تعداد تو بڑھ رہی ہے مگر وہ شعور اور اخلاقیات سے خالی ہیں۔ آج انسان تو ہیں مگر انسانیت سے خالی ہیں۔
*”جب تک تم اپنا سب کچھ علم کو نہ دے ڈالو علم تمہیں اپنا کوئی حصہ نہیں دے گا۔” (امام غزالیؒ)*
خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے بیٹے کو امام اصمعیؒ کی خدمت میں علم حاصل کرنے بھیجا۔ ایک دن خلیفہ اپنے بیٹے کو ملنے گیا تو دیکھا کہ شہزادہ پانی ڈال رہا ہے اور استاد وضو کرتے ہوۓ اپنے پاؤں دھو رہا ہے۔ خلیفہ نے استاد سے کہا میں نے اپنے بیٹے کو آپ کے پاس علم حاصل کرنے بھیجا تھا آپ اسے ادب سکھاتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ استاد نے فرمایا یہ پانی تو ڈال رہا ہے۔ خلیفہ نے جواب دیا آپ اسے حکم دیتے یہ ایک ہاتھ سے پانی ڈالتا ایک ہاتھ سے آپ کے پاؤں دھوتا۔
*ہنری کہتا ہے؛ معلم فروغ علم کا ذریعہ ہیں لیکن اس کے علم سے فائدہ وہ نیک بخت اٹھاتے ہیں جن کے سینے ادب و احترام سے مالا مال ہوں۔*

استاد کا رتبہ بہت بلند ہے۔ تمام انبیاءکرام کو معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے جس نے بھی کوئی کامیابی اور مقام حاصل کیا استاد کے ادب سے حاصل کیا ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ والدین، میڈیا، اور اساتذہ خود طالب علموں کو اس تعلق کی نوعیت سمجھائیں۔ بتائیں کہ ایسے ہی نبی پاکﷺ‎ نے استاد کو روحانی باپ کا درجہ نہیں دے دیا۔ وہ کوئی عام ہستی نہیں ہیں وہ اچھے مستقبل کے ضامن ہیں۔ ان کی عزت ماں باپ کی طرح کریں۔ وہ قوم ترقی نہیں کر سکتی جس کے اساتذہ کا ادب نہ کیا جاتا ہو۔ ان کو اسلاف کے واقعات سناۓ جائیں۔ جس طرح ایک ریاست کا سوال حکمران سے ہو گا اس طرح استاد کا ادب نہ سکھانے کا سوال والدین سے ہو گا۔ استاد بادشاہ نہیں ہوتا مگر بادشاہ بنا دیتا ہے۔
آخر میں دعا ہے اللہ ہمیں اور نئی نسل کو اساتذہ کا صیح معنوں میں ادب کرنے کی توفیق دے۔ آمین

 

Comments are closed.