پی ایم مودی کے الیکشنی مدعے !

شکیل رشید (ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
شیوسینا کے سربراہ ادھو ٹھاکرے نے اتوار کے روز ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے پہلے کہا کہ مودی کا مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا ڈرامہ بہت زیادہ ہو گیا ہے ، پھر سوال پوچھا کہ کون گوشت کھاتا ہے ، کون مچھلی اور کس کے کتنے بچے ہیں ، کیا ملک کے وزیر اعظم کو ایسے مدعے اٹھانا چاہیے؟ ادھو ٹھاکرے کا سوال واجب ہے ۔ لیکن پی ایم مودی کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس ہندو – مسلم کے علاوہ نہ پوچھنے کے لیے کوئی سوال ہے اور نہ بتانے کے لیے کوئی کارنامہ ہی ہے ۔ ہاں ! اگر پی ایم الیکٹورل بانڈ اور پی ایم کئیر فنڈ کو کارنامہ مانتے ہوں تو اور بات ہے ! لیکن اپنے اِن کارناموں پر ان کی زبان نہیں کھل رہی ہے ۔ کسی ایک بھی انتخابی ریلی میں انہوں نے الیکٹورل بانڈ اور پی ایم کئیر فنڈ پر ایک لفظ نہیں کہا ہے ۔ اپنی تقریروں میں ان کی ساری تان مسلمانوں پر ٹوٹ رہی ہے ۔ ان سے سوال ہے ؛ کیا آپ کے یہ کہنے سے کہ مسلمان گُھس پٹھیے ہیں ، مسلمان گھس پٹھیے ہو جائیں گے؟ مسلمان اس ملک کے باشندے ہیں اور ان کا اس ملک پر حق آپ سے زیادہ ہی ہے کہ ، ان کے اجداد نے آزادی کی جنگ بھی لڑی ہے ، شہید بھی ہوئے ہیں اور تقسیم کا عذاب سہہ کر بھی اسی سرزمین پر رہنا پسند کیا ہے ، آپ کی تنظیم کی طرح وہ کبھی آزادی کی لڑائی سے بھاگے نہیں تھے ۔ مودی کو یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ سارے ملک کے پی ایم ہیں صرف ہندوتوادیوں کے نہیں ۔ لیکن وہ انتخابی ریلیوں میں ایک پی ایم کی حیثیت سے سے نہیں ایک کٹّر ہندوتوادی کی حیثیت سے جا رہے ہیں اور مسلمانوں پر اتنے تیر برسا رہے ہیں کہ ادھو ٹھاکرے اسے ڈرامہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں ۔ اور صرف ادھو ٹھاکرے ہی نہیں شرد پوار ، کھڑگے ، راہل گاندھی اور ہر سنجیدہ سیاست داں سمجھ رہا ہے کہ مودی ڈرامہ کر رہے ہیں ۔ اس ملک کی جنتا بھی اس ڈرامے کو خوب سمجھ رہی ہے ۔ سچ یہی ہے کہ لوک سبھا کی انتخابی مہم کون کیا کھا رہا ہے ، اور کون کتنے بچے پیدا کر رہا ہے ، یہ مدعے اٹھانے کے لیے نہیں ہے ۔ گوشت صرف مسلمان ہی تو نہیں کھاتے ! اس ملک کے نہ جانے کتنے ہندو اور دیگر قومیں بھی گوشت کھاتی ہیں ، دلت اور آدی واسی بھی گوشت کھانے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں ۔ گوشت کے بڑے بیوپاری ہندو بھی ہیں ۔ رہی بات گئوکشی کی ، تو اس کی روک تھام کے لیے قانون بنا ہوا ہے ، قانون کا نفاذ کریں ، قصور واروں کو پکڑیں اور کارروائی کریں ، کس نے روکا ہے ! مگر کسی کے گھروں میں نہ جھانکیں ۔ گھروں میں جھانک جھانک کر ہندوتوادیوں نے نہ جانے کتنے محمد اخلاقوں کی لنچنگ کی ہے ۔ شاید یہ لنچنگ مسلمانوں کی آبادی گھٹانے کا ایک طریقہ ہے ۔ ہندو ڈر رہا ہوگا ، اور کیوں نہ ڈرے ، ہر آئے دن اس کے ذہن میں یہ بات ٹھونسی جا رہی ہے کہ مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے ، اور ایک دن وہ اپنی بڑھتی آبادی کے بَل پر ملک پر قابض ہو جائیں گے اور پھر کسی ہندو کی خیر نہیں ہوگی ۔ پی ایم مودی نے مسلمانوں کی آبادی کو انتخابی مہم کا حصہ بنا لیا ہے ۔ یہ اپنے ووٹروں کو بھی اور عام ہندوؤں کو بھی ڈرانا ہے ۔ ڈرا کر ووٹ لینا ہے ۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی میں گراؤٹ آئی ہے ۔ اس ملک میں ہندوؤں کی آبادی اسّی فیصد ہے اور مسلمانوں کی آبادی ساڑھے چودہ فیصد بتائی جاتی ہے ، اس فیصد میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے ، لیکن ایک ڈر کی فضا پیدا کی جا رہی ہے ! اگر یہ مان لیا جائے کہ مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے تو اس سے کسی کا کیا نقصان ہے؟ مسلمانوں کی عورتیں جانور نہیں ہیں کہ ایک ہی بار میں درجن سے زائد بچے پیدا کر دیں ، آبادی اگر بڑھی بھی تو کتنا بڑھے گی ! ظاہر ہے کہ اسّی فیصد کی آبادی سے زیادہ کبھی نہیں ہو سکتی ۔ پھر کاہے کا خوف ! یہ الیکشن میں ناکامی کا خوف ہے جس کے سبب مودی اور بی جے پی ڈر کا ماحول پیدا کر رہے ہیں ۔ لیکن یہ اصل مدعے نہیں ہیں ۔ مودی جی ! بتائیں کہ وہ کب غربت ، مہنگائی ، بے روزگاری اور بے روزگاروں کی بات کریں گے ؟
Comments are closed.