ڈاکٹر رضیہ حامد اور علی گڑھ

محمد اویس سنبھلی
ڈاکٹررضیہ حامد (پ: یکم؍ ستمبر1946ء،بھوپال)ادبی صحافت میں ممتاز شخصیت کی حامل ہیں، معتبر محقق، خوش فکر ناقد، صاحب نظرمصنف ،مرتب،مدیر اور افسانہ نگار کی حیثیت سے ان کی شناخت ہے۔تیس سے زائد کتابیں ان کے ’ نامۂ اعمال‘ میںہیں۔’علی گڑھ‘ ،’ بھوپال‘ کی تاریخ اور ادب وتہذـیب پر انہیں اختصاص حاصل ہے۔وہ خالصتاًخاتون خانہ اور مشرقی اقدار کی پاسدار ہیں،ایک اشاعتی ادارہ باب العلم پبلی کیشنز، بھوپال کی بانی ہیں۔انہوں نے اجین ،بھوپال یونیورسٹی بھوپال اور دہلی میں تعلیمی مراحل طے کیے ہیں۔عربی اور اردو میں ایم اے کرنے کے بعداردو سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی ۔ وکرم یونیورسٹی، بھوپال یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ ان کی مادر درس گاہ ہیں۔وہ باضابطہ’ علیگ‘ نہیں ہیں،تاہم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ پر راسخ ایمان رکھتی ہیں،مجمل اور مفصل دونوں۔انہوں نے علی گڑھ کو اس قدرارتکازسے پڑھا ہے کہ ،جن کو علی گڑھ بے مطالعہ،وراثت میں ملا ہے ،وہ ان پر کسی بھی اعتبار سے سبقت نہیںلے جاسکتا۔ اسی لیے رضیہ حامدنے لکھا ہے کہ ’’سرسید کا مشن صرف علیگ برادری کی میراث نہیں، یہ ہر طالب علم کی میراث ہے‘‘۔خودرضیہ حامد کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔علی گڑھ ان کے دل ودماغ اورفکر واحساس میںاپنے جملہ نظریات ،کوائف ا ور احوال کے ساتھ محفوظ ہے۔جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے دہلی کے زمانۂ قیام میں ایک سہ ماہی رسالہ’ فکر و آگہی‘ 1986ء میں جاری کیا اوراس کے متعدد خصوصی شمارے نکالے ،جن میں سے 6؍شمارے علی گڑھ نمبر[2000ء]،علی گڑھ میرا چمن [ترتیب،2000ء]، رودادِ چمن : (علی گڑھ سے متعلق یادیں)[ترتیب،2013]، سرسیّد احمد خاں [ترتیب،2017] ، علی گڑھ تحریک:(سر سید اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ) [علی گڑھ نمبر،مسلم یونیورسٹی صدی کی مناسبت سے ،2020ء ] اورعلی گڑھ تحریک [ترتیب،2021ء] سر سید،سر سید تحریک اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے متعلق ہیں۔
ڈاکٹر رضیہ حامد کے شوہر ڈاکٹر سید محمد حامد خالص’ علیگ‘ ہیں۔ان کی سسرال میں اوربھی کئی ’علیگ‘ ہیں۔جوسر سید اور ان کی تحریک کے باعمل کردار ہیںاوران کے تعلیمی، تہذیبی اور معاشرتی ورثہ کو ’ حرز جاں‘ بنائے ہوئے ہیں۔رضیہ حامداپنے ایک انٹر ویو میں کہتی ہیں:
’’ جب شادی ہوئی تو ہماری سسرال میں بھی چار پانچ لوگ علیگ تھے،وہاں بھی علی گڑھ کی باتیں ہوتی تھیں، پھرشفیع قریشی صاحب گورنر ،آگئے تو ان کے یہاں بھی ہم لوگ جاتے، تو وہ بھی علیگ تھے۔جب اتنا علی گڑھ علی گڑھ ہوتا ہے تو بھئی کیا ہے علی گڑھ؟ ہم بھی دیکھیں۔اس طرح علی گڑھ پر میں نے کام کرنے کا ارادہ کیا۔اور جب کام کرنے چلی تو بہت کچھ نکلا ۔پھر میںنے کام اس طرح شروع کیا کہ پہلے علی گڑھ نمبر نکالا۔اس نمبر کولوگ علی گڑھ کا انسائیکلو پیڈیا کہتے ہیں، اس کے بعد میں نے علی گڑھ کے اولڈ بوائز کی یادوں پرمشتمل ایک نمبر’روداد چمن‘مرتب کرکے شائع کیا،اس نمبر میںمختلف لوگوں نے علی گڑھ سے متعلق اچھی بری سب باتیں؍یادیںاور شرارتیں لکھی ہیں،2017ء میں سر سید کی دوصد سالہ صدی منائی گئی تو اس موقع پر میں نے سر سید کی شخصیت اور ان کے کارناموں پر ایک ضخیم نمبر نکالا ۔اب یونیورسٹی کوسو سال ہوگئے تو میںنے کہا بھئی اس کو کیوں چھوڑوں اس حوالے سے بھی نمبر نکال دیتی ہوں، تو میں نے ’یونیورسٹی نمبر‘ شائع کیا۔یہ سب سر سید کی اس علی گڑھ تحریک کو خراج عقیدت کے طور پرپیش کیا گیا جس کا مقصد یہ تھا کہ عوام کو علم سے روشناس کرایا جائے اور کچھ نئے ،جدید علم ،سائنس وغیرہ سے متعارف کرایا جائے، خالی عربی ،فارسی، اردو پڑھنے سے کام نہیں چلے گا،جب تک آپ سائنس نہیں پڑھیں گے ملک ترقی نہیں کرسکتا‘‘۔
(ای ٹی وی بھارت اردو،2؍ اپریل2021ء)
ڈاکٹر رضیہ حامد نے ڈاکٹر رفعت سلطان کے اشتراک سے2001ء میں ’ علی گڑھ میراچمن‘ کے نام سے اہل علم کے مضامین پر مبنی ایک بیش قدر کتاب مرتب کی تھی۔جس میں حیات سر سید،خدمات سرسید،افکار سر سید،علی گڑھ تحریک، سر سید اور اسلام،سر سید اور مشاہیر اسلام،علی گڑھ : تعمیرات،علی گڑھ : شعبہ جات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،علی گڑھ : ادبی خدمات ناموراں،علی گڑھ : یادیںاورگرتو بُرا نہ مانے ، کے زیر عنوان مقالات جمع کیے تھے: ڈاکٹر رضیہ حامد تحریر کرتی ہیں:
’’ سر سید نے ایک چھوٹے سے مدرسے سے اپنے منصوبہ کا آغاز کیا ۔وہ چھوٹا پودا ایک قدآور درخت بن گیا۔علی گڑھ کی کہانی اس مالی کی کہانی ہے ،جس نے ایک حقر بیج کو اپنے خون جگر سے سیراب کیا اور ایک مایوس قوم کو ،جو اپنے تمام وسائل سے محروم ہوچکی تھی ، با عزت زندگی گزارنے کے گُر بتاتے ہوئے علم کی شاہراہ پر انگلی پکڑ کر گامزن کیا‘‘۔
[ علی گڑھ میرا چمن، ڈاکٹر رضیہ حامد و ڈاکٹر رفعت سلطان،ص14]
اس کتاب میں بعض دیگر عناوین کے تحت جمع و ترتیب کردہ مضامین کے ساتھ ’علی گڑھ: یادیں‘ کا گوشہ کچھ تشنہ رہا تھا اورمرتبین کتاب کے اندرون سے ’ ہَل مِن مّزید‘ کی صدا آتی رہی، تو انھوں نے 2013ء میں ’ روداد چمن: علی گڑھ کی یادیں ‘سے اس اِزدِیاد کی تسکین کی۔
علی گڑھ کی زندگی میں دو مراحل ایسے آتے ہیںجوانتہائی صبر آزما ہوتے ہیں،اوّل داخلے کے مراحل اور ابتدائی چند مہینے،دوم تعلیم کی تکمیل کے بعد مادر درس گاہ سے رخصت ہونے کا مرحلہ۔اس حوالے سے ڈاکٹر رضیہ حامد تحریر کرتی ہیں:
’’ ان دونوں مرحلوںکے درمیان طالب علم کے اُوپر جو کیفیات گزرتی ہیں اور بہت سی تلخ و شیریں یادیں اُس زندگی کااساس اور مادر علمی کی محبت کی چاشنی بنی رہتی ہے ، جو بھولنے کی کوشش پر بھی بھولنا محال ہے۔اُولڈ بوائے جب بھی اپنے دوستوں ،اعزّا یاعلی گڑھ کے پُرانے ساتھیوں سے ملتا ہے تو ساری داستانیں اور کھٹی میٹھی باتیں فوراً یاد آجاتی ہیں،جن کے تذکرے کرتے اور سنتے کبھی تھکتا نہیں ہے۔یہاں تک کہ دو علیگیرین اپنی اس مادر ِ علمی کے علاوہ اور کوئی بات نہیں کرتے‘‘۔
[حرف آغاز،رودادچمن[علی گڑھ کی یادیں‘،مرتبین ڈاکٹر رضیہ حامد و ڈاکٹر رفعت سلطان،ص9-10]
ڈاکٹر رضیہ حامد نے ایک عنوان’ مجھے یاد سب ہے ذرا ذرا‘ کے ذریعہ علی گڑھ کے دور اول سے دور حاضر تک کے منتخب صاحبان فضل و کمال کی ’ یادیں‘ یکجا کردی ہیں۔ ان میں محمد امین، خواجہ عبد العلی ، میر ولایت حسین،شیخ عبد اللہ،سید رضا علی، عبد المجید قریشی،حکیم احمد شجاع،ڈاکٹر ذاکر حسین، شبیر حسن جوش، الحاج محمد زبیر،محمد یونس، جمیل محمد خاں، مشیر احمد علوی ناظر،مسعود علی ذوقی، محمد عدیل عباسی، میجر جنرل شاہد حامد، سید مسعود الحسن زیدی، مرزا فہیم بیگ، خلیل الرب، آل احمد سرور، سید حامد، بنی بخش بلوچ، اسلوب احمد انصاری، رشید الحسن، سید محبوب اختر، ڈاکٹرسید حامد علی شاہ، نجم حسین نجمی، ڈاکٹر مسعود حیدر، مختار الدین احمد، قاضی ارشد مسعود گنگوہی، محمد شفیع قریشی، سوشیلا ٹنڈن،حبیب احمد صدیقی، قاضی عبید الرحمن ہاشمی، ڈاکٹر دنیش چندر گپتا، سید محمد عامر، ظہیر الدین احمد خاں، سعیدہ قدوائی، سیما سنگھ، پروفیسر عبد المجید قریشی،رشید احمد صدیقی، علی مقصود، پیر زادہ سید اصغر علی شاہ، شان الحق حقی، سید محمد حسن، محمد سعید صدیقی[ علیگ]،پروفیسر ثریاحسین،مختار مسعود، حمیدہ سالم، ظہیر الدین احمد خاں،ڈاکٹر رفیق احمد خاں، عبد الرشید خاں، رضیہ مبین نقوی، رضی احمد صدیقی [علیگ]،پروفیسر اطہر صدیقی، اقبال مجید، ڈاکٹر فصیح احمد صدیقی ،فیاض رفعت، محمد سلیم،وامق جون پوری اور اے جے عادل [علیگ]جیسے اکابر ہیں۔
کتاب کا یہ حصہ ’ مجھے یاد سب ہے ذرا ذرا‘[1] اور’ مجھے یاد ہے سب ذرا ذرا‘[2] کے زیر عنوان علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تعلیمی اور اقامتی زندگی کا خوب صورت بیانیہ ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے حوالے سے ڈاکٹر رضیہ حامدکے سہ ماہی’ فکر و آگہی، دہلی کا ’سرسید نمبر‘ بھی ایک شاندار پیش کش ہے۔676صفحات پر مشتمل خاص اس شمارہ میں سر سید احمد خاں کی حیات اور خدمات پر اہل علم کے مقالات شامل ہیں۔ڈاکٹررضیہ حامد تحریر کرتی ہیں:
’’ اس سے پہلے میں نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے متعلق ایک ضخیم تالیف’ میرا چمن‘ سرسید کو ان کے عمل پیہم ، جہد مسلسل کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے تیار کی۔اس میں سر سید اور علی گڑھ مسلم یونیوسٹی کے متعلق مختلف پہلوؤں سے قاری کو روشناس کرایاہے۔ اس کے بعد’ روداد چمن ‘کے نام سے ایک تالیف علیگیرین کی یادوں کی کہکشاں سے منور ، دلچسپ اور دلکشی کے لیے منظر عام پر آئی۔سر سید اور مسلم یونی ورسٹی پر جتنا کام کرتے جاؤ ایسا لگتا ہے ابھی حق ادا نہیں ہوا‘‘۔
[حرف ِ آغاز،سہ ماہی’ فکر و آگہی، دہلی ’ سر سید نمبر‘ ص7]
ڈاکٹر رضیہ حامدکے حرف ِ آغازاور حمد و مناجات و نعت کے بعد سات ابواب ،نقوش حیات،آئینۂ فکر [تربیتی خدمات]،علمی و ادبی خدمات[ علم و فضل]،سر سید اور اکابرین، ایک مشن[ علی گڑھ تحریک]،مقصد جلیل [علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ]،سر سید مشن،میں منقسم کر کے سرسید کی شخصی، عملی،علمی، ادبی اور فکری جہات پر سیر حاصل بحث کی ہے۔
ڈاکٹر رضیہ حامد نے علی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے سو سال مکمل ہونے پرسہ ماہی ’فکر و آگہی‘ دہلی کاجو علی گڑھ نمبر؍صدی نمبرنکالا ہے،وہ ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ حرف آغاز[ڈاکٹر رضیہ حامد]، مناجات منظوم، مناجات منثور،پُر درد اور عاجزانہ دعا[ سر سیدحمد خاں علیہ الرحمہ]،ترانۂ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ’میرا چمن‘[اسرار الحق مجاز]،سید کی لوح تربت پر[ علامہ محمداقبال] کے علاوہ جن عناوین کے تحت مقتدر اہل علم کے مضامین اس خاص نمبر میں شامل کیے گئے ہیں ان میں: حیات سر سید،خدمات سرسید، افکار سر سید، علی گڑھ تحریک،سر سید اور عالم اسلام،سر سید اور مشاہیر اسلام،علی گڑھ: تعمیرات،علی گڑھ: شعبہ جات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،علی گڑھ: ادبی خدمات ِ ناموراں،علی گڑھ: یادیں، گر تو بُرا نہ مانے، چند نقوش وآراء ، شامل ہیں۔اس پر مستزاد نادر تصاویر ہیں۔ یہ نمبر علی گڑھ کے حوالے سے دستاویزی حیثیت رکھتا ہے۔اس نمبر کی جمع و ترتیب کے مرحلے میںڈاکٹر رضیہ حامد نے سیکڑوں صاحب فضل و کمال سے رابطہ کیا ہوگا، یاد دہانیوں کا بھی سلسلہ رہا ہوگا، لیکن وہ دشورایوں کے تمام مقالات کو ذہن سے نکال دیتی ہیں کہ شاید کام کی یہی دشواریاں اور مشکلیں انہیں حوصلہ بھی بخشتی ہیں، وہ تحریر کرتی ہیں:
’’ علی گڑھ نمبر جیسے ضخیم شمارے کے لیے مواد کی فراہمی، مضامین لکھنے کی درخواست اور پھر یاد دہانی اور وعدہ وفا کرنے والوں کے مسلسل اعتذار ایسے جاں گسل مراحل تھے ،جن سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہمت،قوت ِ برداشت اور جہد مسلسل کے لیے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہوں۔میرا خیال ہے کہ کسی علیگ نے حتی الوسع کوشش سے کبھی بھی انکار نہیں کیا۔ وعدہ کے ایفاء میں تاخیر یقیناً مصروفیت یا خرابی ٔ صحت کی وجوہ سے بھی ہوئی ہوگی‘‘۔
(اظہار تشکر:سہ ماہی فکر و آگہی،دہلی ،علی گڑھ نمبر،جلد11-14،2020ء،ص5)
’فکر و آگہی‘کے اس خصوصی شمارہ کے ’ حرف آغاز‘ میں ڈاکٹر رضیہ حامد تحریر کرتی ہیں:
’’1857ء کی انقلاب ِآزادی کی اوّلین کوشش میں مسلمان پیش پیش تھے، جن کی پاداش میں انگریزوں نے ان کو بری طرح تہس نہس کیا۔انگریز حکومت کی آمد سے مسلمانوں میں ایک احساس کمتری غیر شعوری طور پر پیدا ہوگیا تھا۔دفاتر سے فارسی یک دم ختم کرکے انگریزی زبان رائج کردی گئی تھی۔ ِ مسلمان نہایت درجہ مایوس اور مضطرب تھے۔ہندوستان کے دانش مند طبقوں نے ہوا کا رُخ پہچان کر انگریزی زبان اور جدید علوم کی طرف سبقت شروع کردی تھی،اس وقت مسلمانوں کو بحیثیت قوم سہارا دینے والوںمیں سر سید احمد خاں کا نام سر فہرست ہے۔اس مرحلہ میں انہوں نے قوم کی اصلاح کا بیڑہ اُٹھایا۔سر سید کو مخالفتوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ان کے مخالفین کو ان کے جدید تعلیم کے منصوبہ سے اختلاف تھا۔یہ اختلاف ان کے بعض مذہبی عقائد، بعض سیاسی خیالات اور بعض تعلیمی تجاویز سے تھا۔سر سید قوم کے لیے تعلیم کو ضروری خیال کرتے تھے۔ہزاروں مخالفتوں کے باوجود انہوں نے ہمت نہیں ہاری،ان کا کہنا تھا!
جن قوموں میں سب مراتب کے تعلیم یافتہ مناسب تعداد میں موجود نہ ہوں،اُس قوم کی کبھی ترقی نہیں ہوسکتی اور نہ دوسری قوموں کی نگاہ میں وہ قوم کچھ عزت حاصل کرسکتی ہے‘‘۔
(سہ ماہی فکر و آگہی دہلی،علی گڑھ نمبر،2000ء،ص13-14)
ڈاکٹر رضیہ حامد کی یہ پیش کش یقینا ایک بڑا کام ہے۔جس میں سرسید سے متعلق ایسا بہت کچھ یکجا کردیا گیا ہے، جو آنے والی نسلوں کے لیے بہت کام کی چیز ثابت ہوگا۔اس شمارے کے مضمون نگاروں میںعلامہ نیاز فتح پوری سے لے کر ضمیرالدین شاہ تک اکثر معروف و مشہور ہی نہیں بلکہ نہایت ممتاز ہیں۔ محترمہ رضیہ حامد نے یہ کارنامہ تن تنہا تمام گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ انجام دیا ہے۔
سر سید نے اقوام ہند بالخصوص مسلمانوں تعلیم کے فروغ کا کام شروع کیا،اور تعلیم کو وسیع تناظر میں دیکھتے ہوئے اس میں مروج زبانوں کے ساتھ ہی جدید عصری سائنسی علوم پر خاص توجہ دی اور اپنے رفقاء کے ساتھ ساری زندگی اسی میں خرچ کردی۔ ڈاکٹر رضیہ حامد اپنی مرتب کردہ کتاب’ علی گڑھ تحریک‘ (2021ء)کے ’ حرف ِ آغاز‘میں تحریر کرتی ہیں:
’’ تحریک کے ابتدائی عوامل 1857ء میں قوم کی زبوں حالی اور ملک کے حالات میں پنہاں ہیں۔سر سید کو مذہب اور تاریخ سے غیر معمولی دلچسپی تھی۔ان کی شخصیت میں قدیم و جدید دونوں کا امتزاج تھا۔ان کو اندازہ تھا کہ زور زبردستی کسی قوم کی حالت کو بدلا نہیں جاسکتا۔اس لیے انہوں نے جو لائحۂ عمل منتخب کیا وہ تعلیم کا حصول تھا۔انھوں نے مذہبی تعلیم کے ساتھ جدید تعلیم سائنس اور اس کے متعلق علوم و فنون سے واقفیت کو ضروری جانا۔اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے سر سید نے انگریزی تعلیم کے اصول جاننے کے لیے کئی تعلیمی اداروں کا دورہ کیا ۔ مدرسۃ العلوم قائم کرنے کے ساتھ ہی انھوں نے رسالہ ’ تہذیب الاخلاق‘ جاری کیا اور ’ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس‘ قائم کی‘‘۔
(علی گڑھ تحریک، مرتبہ ڈاکٹر رضیہ حامد،ص7)
مدرسۃ العلوم، تہذیب الاخلاق اور محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے ذریعہ سرسید نے اپنی تحریک کو آگے بڑھایا ۔اس تحریک نے قوم کی حالات سنوارنے اورملّت کی ڈوبتی ناؤ کو بچانے کا کام کیا،قوم کو بالعموم اور مسلمانوں کو بالخصوص مایوسی سے اُبارنے اورجہل کی تاریکیوں سے نکالنے کا کام کیا۔اسی حوالہ سے ڈاکٹر رضیہ حامد تحریر کرتی ہیں:
’’ انہوں نے تعلیم پر زور دیا ۔مذہبی اور جدید تعلیم کے لیے راستے ہموار کیے۔وہ مسلمانوں کو علمی اعتبار سے مستحکم کرنا چاہتے تھے۔اس لیے انہوں نے کالج قائم کیا۔ان کو یقین کامل تھا کہ صرف جدید تعلیم یا صرف مذہبی تعلیم سے قوم ترقی نہیں کرسکتی ۔ انہوں نے دونوں طرح کے علوم حاصل کرنے پر زور دیا،اُن کا کہنا تھا!
اس کالج سے فارغ التحصیل طالب علم کے دائیں ہاتھ میں قرآن ہوگا اور بائیں ہاتھ میں فلسفہ اور نیچرل سائنس اور سر پر لاالٰہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کا تاج ہوگا‘‘۔
(علی گڑھ تحریک، مرتبہ ڈاکٹر رضیہ حامد،ص8)
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ایک تعلیمی ادارہ ہی نہیں،تربیت گاہ اورایک تحریک ہے۔یہاں کی اقامت گاہوں کی اپنی ایک روشن تاریخ ہے۔مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا تعلیم یافتہ اپنے طرز گفتگو ، مشاشرتی فہم اور علم کی وجہ سے پہچان لیا جاتا ہے۔ڈاکٹر رضیہ حامد اسی جہت پرتحریر کرتی ہیں:
’’ کسی بھی یونیورسٹی کی شناخت اس کے طلباء کی علمی، ادبی اور ثقافتی زندگی کے ذریعہ متعین کی جاسکتی ہے۔بر صغیر ہندوپاک میں سیکڑوں یونیورسٹیاں موجود ہیں اور ہر ایک کسی نہ کسی مضمون میں انفرادیت قائم کیے ہوئے ہے۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی انفرادیت صرف اس کانصاب تعلیم ہی نہیں ہے،بلکہ اس کی اقامتی زندگی بھی ہے۔ یہاں طلباء میں علمی و ادبی شوق پیدا کیا جاتا ہے۔اس کے ساتھ ہی اقامتی زندگی کی غیر نصابی تربیت اور برسہا برس سے چلی آرہی روایات کی روشنی میں کی گئی ٹریننگ کی کھراد،ان کی زندگی کے اُتار چڑھاؤ سے نبر آزما ہونے اور سرخ رو زندگی گزارنے کے قابل بنا دیتی ہے‘‘۔
[حرف آغاز:سہ ماہی فکر و آگہی،دہلی ،علی گڑھ نمبر،جلد11-14،2020ء،ص13]
بلاشبہ سر سید تحریک نے نہ صرف ہندوستان بلکہ اکناف عالم کو علم کی روشنی سے منور کیا، اقوام کی روشن تقدیر لکھی اور مسلم قوم کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے ساتھ ان کے ماضی سے انہیں روشناس کرایا،حال کی اہمیت کا احساس کرایا اور روشن مستقبل کامژدہ سنایا۔علی گڑھ اور علی گڑھ تحریک سے متعلق سہ ماہی ’’فکر و آگہی‘‘کے خصوصی شمارے ڈاکٹر رضیہ حامد کی علم دوستی اور ادارتی صلاحیتوں کا بہترین نمونہ ہیں۔ یہ تمام شمارے سیرسید احمد خاں جیسے محسن ملت کو بہترین خراج عقیدت بن گئے ہیں۔سر سید کی اس تحریک کو آگے بڑھانے میں ڈاکٹر رضیہ حامد کی کاوشیں لائق صد تحسین ہیں۔
ڈاکٹر رضیہ حامد[جنہیں میں رضیہ آپا کے نام سے پکارتا ہوں]سے میرا پہلا تعارف2017ء میں ہوا۔ فیس بک کے ذریعہ ان سے رسم و راہ کا سلسلہ استوار ہوا۔ اسی برس ندائے ملت کے ’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نمبر‘ کا عکسی ایڈیشن شائع ہوا تھا۔ 17؍اکتوبر2017ء کو’سرسید ڈے‘ کے موقع پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن لکھنؤ کے زیر اہتمام منعقدہ تقریب میںاس خاص شمارے کا اجراء عمل میں آیا۔ اس تقریب کی چند تصاویر فیس بک پر بھی شیئر کی گئیں تو رضیہ آپا نے اس شمارے کی ایک کاپی بھیجنے کو کہا۔1965ء میں ضبط ہونے والے ایڈیشن کی کاپی اس زمانے میں انھوں نے اپنے گھر میں دیکھی تھی، خیر! عکسی اڈیشن کی ایک کاپی انھیں بھیج دی گئی۔اس کے بعد رضیہ آپا نے اپنے دستخط کے ساتھ سہ ماہی فکر و آگہی کے علی گڑھ نمبر کی ایک کاپی مجھے بھیجی۔668؍صفحات پر مشتمل یہ ایک قیمتی دستاویز ہے ۔ سہ ماہی فکر و آگہی کا ’بیکل اتساہی نمبر‘ بھی خاصے کی چیز ہے ۔ڈاکٹر عمیر منظر کے توسط سے اس شمارے کو دیکھنے کا موقع ملا تھا ۔ 436؍صفحات پر مشتمل اس شمارے میں ڈاکٹر سعادت علی صدیقی کا مضمون ’جذبۂ لازوال [حب الوطنی] کے آئینہ دار: بیکل اتساہی‘دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہے۔ فوراً رضیہ آپا کو میسج میں لکھا کہ ’’مجھے فکر و آگہی کے بیکل اتساہی نمبر کی ایک کاپی چاہئے‘‘۔میسج کاجواب دیتے ہوئے انھوں نے لکھا کہ:’’دہلی سے رخصت ہوتے وقت بیکل صاحب کی بیٹی نے تقریباًتمام کاپیاں لے لی تھیں، دیکھتی ہوں ، شاید کوئی کاپی میرے پاس مل جائے‘‘۔ اگلے روز ان کا میسج آیا ۔اپنا ایڈریس دوبارہ بھیج دیں۔ میں نے شمارے کی قیمت دریافت کی تو رضیہ آپا نے لکھا کہ ’’ایک ہی کاپی ہے۔ بہت قیمتی ہے۔ سنبھال کر رکھیں۔ آپ کا کام ہوجائے تو دعائے خیر کریں۔اس کا اکائونٹ اللہ کے پاس ہے‘‘۔ ان کی محبت کہ یہ شمارہ بھی مجھے مل گیا۔ 3؍ اکتوبر2023ء کو تو ایسا محسوس ہوا کہ علم و عرفان کی بارش ہورہی ہے کہ رضیہ آپا کی تالیفات کے بیشتر نسخے ڈاک سے مل گئے۔یہ ان کی ذرہ نوازی ہے۔
مجھے خوشی ہے کہ میرے ساتھ ان کا رویہ ہمیشہ مشفقانہ رہا۔علمی و ادبی تعاون کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں صحت و عافیت کے ساتھ سلامت رکھے۔ آمین
٭٭٭
Mohd Ovais Sambhli
178/157, Barood Khana, Near Lal Masjid, Golaganj, Lucknow – 226018 (U.P.) INDIA
Mobile: 7905636448 Email: [email protected]
Comments are closed.