کیجریوال کی ضمانت اور سیاست
ڈاکٹر سلیم خان
دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے ہندوستانی سیاست کا ضابطہ الٹ کر بھارتیہ جنتا پارٹی کو باولا کر دیا یعنی جب جیل جانے سے قبل استعفیٰ کی توقع تھی تو نہیں دیا اورضمانت کے بعد اس کی چنداں ضرورت نہیں تھی تو دے دیا ۔ اس معاملے کو سمجھنے کے لیے پردے کے پیچھے چلنے والے مکر و فریب پر نگاہ ڈالنا ضروری ہے ۔ دہلی کے اندر آپریشن کمل کے تحت وزیر صحت ستیندر جین کو جیل بھیجا گیا تاکہ دیگر ارکان اسمبلی میں خوف و دہشت کا ماحول پیدا کیا جائے۔ یہ کوشش ناکام ہوئی تو نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیہ کو گرفتار کرکے انہیں مہاراشٹر کی طرح وزیر اعلیٰ بننے کی پیشکش کی گئی لیکن بات نہیں بنی کیونکہ سسودیہ نے اس آفر کو بی جے پی کے منہ پر دے مارا اور محل کی عیش کو ٹھکرا کر جیل میں رہنا گوارہ کرلیا ۔ اس بیچ سنجے سنگھ نے ایوان پارلیمان کے اندر اور باہر بی جے پی کے ناک میں دم کررکھا تھا اس لیے انہیں بھی جیل بھیج دیا گیا۔اروند کیجریوال پر اس دوران ہاتھ نہیں ڈالنے سے گریز کیاگیاتا کہ ان کی مقبولیت میں اضافہ نہ ہوجائے ۔ آگے چل کر جب سنجے سنگھ رہا ہوئے تو ایسا لگنے لگا کہ اب منیش سسودیہ بھی جلد ہی باہر آجائیں گے اور سارے کیے دھرے پر پانی پھر جائے گا ۔
اس مرحلے میں بادلِ ناخواستہ وقت کےچانکیہ نے اروند کیجریوال کو گرفتار کروا دیا ۔ بی جے پی نے اپنا آخری ’برہم استر‘ اس لیے چھوڑا تاکہ اروند کیجریوال کے استعفیٰ سے عام آدمی پارٹی انتشار کا شکار ہوجائے۔ اس کے اندر وزارتِ اعلیٰ کی کرسی کے لیے سر پھٹول شروع ہوجائے اور اس کا فائدہ اٹھا کر آپریشن کمل کو کامیاب کردیا جائے لیکن اروند کیجریوال نے استعفیٰ دینے سے انکار کرکے اس سازش کو بھی ناکام کردیا۔ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک وزیر اعلیٰ نے جیل جانے کے باوجود استعفیٰ نہیں دیا تو یہ انکشاف ہوا کہ ایسا کرنے میں کوئی آئینی رکاوٹ نہیں ہے۔ اس فیصلے نے عآپ کو اپنے مشکل ترین دور میں متحد رکھا اور بی جے پی کو اروند کیجریوال کی گرفتاری کے متوقع فائدے سے محروم کردیا ۔ وقت کا پہیہ گھومتا رہا اور منیش سسودیہ بھی ضمانت پر رہا ہوگئے۔ ای ڈی کی تمام تر کوشش کے باوجود سنجے سنگھ اور منیش سسودیہ چونکہ اسی مقدمہ میں رہا ہوئے تھے اس لیے اروند کیجریوال کی رہائی دیوار پر لکھی تحریر تھی۔
اروند کیجریوال کو جب پارلیمانی انتخاب کے دوران مہم چلانے کی اجازت ملی تو یہ کہا گیا پنجاب میں چونکہ کانگریس اور عام آدمی پارٹی میں الحاق نہیں ہوا ہے اس لیے ان کو آپس میں لڑاکر اپنی سیاسی روٹی سینکنے کی خاطر یہ عارضی ضمانت دی گئی مگر اس کے باوجود بیچاری بی جے پی کاکھاتہ بھی نہیں کھلا اور کمل کے لیے زیرو بٹا سناٹا چھایا رہا ۔ پنجاب میں یکساں ووٹ حاصل کرنے کے باوجود کانگریس کو ۷ ؍ اور عآپ کو ۳؍ نشستوں پر کامیابی ملی ۔ اکالی دل نے ایک مقام پر اپنا امیدوار کامیاب کرکے ایوان میں وجود کو باقی رکھا اور دو آزاد امیدوار بھی کامیاب ہوگئے ۔ ان میں سے ایک اندرا گاندھی کے قاتل بینت سنگھ کا بیٹا سربجیت سنگھ خالصہ اور دوسرا امرت پال سنگھ ہے۔ امرت پال سنگھ این ایس اے کے تحت گرفتار ہے۔ اس پر مودی سرکار نے پاکستانی آئی ایس آئی سے ساز باز کرنے کا الزام لگا رکھا ہے مگر خدور کی عوام نے اسے 197,120کے فرق سے کامیاب کرکے دکھا دیا کہ پنجاب کے لوگ بی جے پی کے الزامات کو کتنی اہمیت دیتے ہیں اور اس کی سازش کو کیسے ناکام کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ امرت پال سنگھ کو پانچ دن کی پیرول پر ڈبرو گڈھ سے دہلی لاکر حلف برداری کرانی پڑی۔
اس تفصیل کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس بار پھر اروند کیجریوال کی ضمانت کو ہریانہ کے ریاستی انتخاب سے جوڑ کر یہ دعویٰ کیا جارہاہے کہ اس سے غیر بی جے پی ووٹ تقسیم ہوجائے گا اور وہ پھر ایک بار اقتدار میں آجائے گی کیونکہ ریاست میں کانگریس اور عآپ آمنے سامنے ہیں۔ پنجاب کے انتخابی نتائج شاہد ہیں کہ ایسا ہونا ضروری نہیں ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بی جے پی کا ناراض ووٹر جو کانگریس کو رائے نہیں دیتا عآپ کی جھولی میں چلا جائے اس لیے کہ لوک دل اور جے جے پی اپنی کشش کھو چکے ہیں ۔ ان رائے دہندگان کے سامنے اب کانگریس کے علاوہ عام آدمی پارٹی کا متبادل ہونا اچھی بات ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کو جب اندازہ ہوگیا کہ 13؍تاریخ کو اروند کیجریوال کی رہائی کو روکنا ناممکن ہے تو اس نے دو دن قبل ایک نئی چال چلی ۔ ۱۱؍ ستمبر کو اچانک دہلی میں بی جے پی کے ارکانِ اسمبلی نے صدر مملکت دروپدی مرمو سے ملاقات کرکے ان سے کیجریوال حکومت کو برخاست کرنے کا مطالبہ کردیا۔ صدر کے دفتر نے اس پر بلاتاخیر توجہ دے کر وزارت داخلہ کو مطالباتی خط بھی بھیج دیا۔
بی جے پی یہ حرکت دراصل اس کے اندر موجود ایک خوف کا نتیجہ تھی ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ حالیہ پارلیمانی انتخابات کے دوران دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال دہلی والوں سے کہتے رہے کہ اگر وہ انہیں جیل سے نکالنا چاہتے ہیں تو وہ عام آدمی پارٹی کو ووٹ دیں مگران کو ہمدردی کا ووٹ نہیں ملا ۔ دہلی کے رائے دہندگان نے کانگریس سے الحاق کے باوجود انڈیا کو مسترد کرکے بی جے پی کو کلین سویپ کروا دیا۔ قومی انتخاب میں غیر معمولی کامیابی کے باوجود بی جے پی کو پتہ ہے کہ دہلی کے اندر قومی اور صوبائی انتخاب الگ قسم کے نتائج برآمد کرتا رہا ہے۔ 2019 کے انتخابات میں بھی عام آدمی پارٹی کا صفایا ہو گیا تھالیکن 2020 کے اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو بری طرح شکست سے دوچار کردیا۔ اس بار پھر سے بی جے پی عوام کے پاس جاکر اروند کیجریوال حکومت کے بدعنوانی کا شور مچائے گی تو عآپ کا جواب ہوگا کہ اگر ان کے خلاف ثبوت تھے تو عدالت نے ضمانت کیوں دی ؟ اروند کیجریوال اور دیگر رہنماوں کی ضمانت کو ان کی بے گناہی کا ثبوت بناکر پیش کیا جائے گا۔
منیش سسودیا تو ابھی سے کہنے لگے ہیں کہ ’’اب یہ ثابت ہو گیا ہے ، اروند کیجریوال جیسا سچا، ایماندار اور محنتی رہنما اس ملک میں نہیں ہے‘‘۔ انہوں نے الزام لگایا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی کیجریوال کو جیل بھیجنے کی سازشیں ناکام ہوگئی ہیں۔ کیجریوال کو ضمانت دیتے وقت جسٹس اجول بھوئیاں کے تبصرے بھی عام آدمی پارٹی کے لیے اسلحہ کا کام کریں گے ۔ انہوں سی بی آئی کو پھر ایک بارطوطے کا پنجرہ کہہ کر وزیر اعظم کے اس بیان کی قلعی کھول دی جو انہوں نے ایوان پارلیمان میں دیا تھا۔ نریندر مودی نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ نے یوپی اے کے زمانے میں سی بی آئی کو پنجرےکا طوطا کہا تھا لیکن گیارہ سال بعد وہی بات پھر سے کہہ دی گئی۔ اس کے علاوہ جسٹس اجول بھوئیاں نے یہ بھی کہا کہ ای ڈی مقدمہ میں ضمانت کے بعد ۲۲؍ ماہ بعد سی بی آئی صرف اورصرف اروند کیجریوال کو جیل میں رکھنے کی خاطر حرکت میں آئی تھی یعنی یہ الزام لگا دیا کہ وہ گرفتاری بدنیتی کی بنیاد پر تھی۔ اس کے باوجود سرکاری دباو میں جسٹس سوریہ کانت نے ای ڈی کی ضمانت کے وقت لگائی جانے والی پابندیوں کو جاری رکھنے کا حکم دیا اور جسٹس بھوئیاں نے خاموش رہ کر اس کی تائید کردی۔
اروند کیجریوال کو سپریم کورٹ سے ضمانت تو مل گئی مگر وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے کام کرنے کی اجازت نہیں ملی ۔ یہی پابندی ان کے لیے استعفیٰ کا جواز بن گیا۔ کیجریوال نومبر کے اندر انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کررہے ہیں تاکہ جیل چھوٹ کر آنے سے حاصل ہونے والی ہمدردی کافائدہ اٹھایا جاسکے ۔ ان کے بقول عوام کی عدالت میں کامیاب ہوجانے سے کیا ان پر لگی پابندیاں ختم ہوجائیں گی؟ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال پر جو پابندیاں لگائی گئی ہیں اس کا انتخاب سے کیا تعلق ہے؟ عوام نے تو شیخ رشید اور امرت پال سنگھ کو بھی تقریباً ڈیڑھ سے دو لاکھ ووٹ کے فرق سے کامیاب کیا لیکن اس کے باوجود ان پر لگے الزامات اپنی جگہ موجود ہیں۔ وہ لوگ جب تک ان سے بری نہیں ہوجاتے اس وقت تک وہ کسی عہدے پر فائز ہونا تو درکنار ایوان کے اجلاس میں شرکت بھی نہیں کرسکتے ۔ اس لیے کہ انتخابی عمل کوئی بہتی گنگا تو ہے نہیں کہ اس میں ڈبکی لگاتے ہی سارے پاپ دھُل جاتے ہوں ۔ کسی انسان کو اگر بیجا الزامات میں بھی پھنسا دیا جائے اور اس پر مقدمہ چلنے لگے تو اسے سزا سے بچنے کی خاطر عدالت سے بری ہونا پڑے گا اور انتخابی کامیابی اس کا نعم البدل نہیں ہوسکتی ۔ اس لیے فی الحال وزیر اعلیٰ کے بجائے عام آدمی کی حیثیت سے انتخاب لڑنا اروند کیجریوال کو سیاسی فائدہ تو پہنچا سکتا ہے مگر وہ دوبارہ وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہونے کی راہ نہیں ہموار کرسکتا ۔ اروند کیجریوال کے مطابق جیل کی دیواروں نے ان کے حوصلے میں 100گنا اضافہ کیا ہے لیکن اس سے ووٹ کتنے بڑھیں گے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
Comments are closed.