علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں چندروز معصوم مرادآبادی
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی مسلمانوں کی آرزوؤں اور تمناؤں کا مرکز ہے۔محسن قوم سرسیداحمد خاں کی قائم کردہ اس دانش گاہ کی اہمیت وافادیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اس کے وسیع وعریض کیمپس کا ماحول ہرایک کو متاثر کرتا ہے۔ یہاں اتنی کشش اور جادو ہے کہ اسے دیرتک دیکھنے اور دیکھتے ہی رہنے کو جی چاہتا ہے۔ اتنا روحانی سکون اور علمی ماحول کسی اور دانش گاہ میں نہیں جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہے۔یہ ان عظیم انسانوں کی قربانیوں کا فیض ہے جنھوں نے بے لوث ہوکر قوم کی تعلیم وتربیت میں حصہ لیا۔ سرسیداحمد خاں اس کے سرخیل تھے۔انھوں نے اب سے ڈیڑھ سوسال پہلے جو خواب دیکھا تھاوہ آج ایک زندہ اور تابندہ ادارے کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ ہرچند کہ سرسید کے اس چمن کو نقصان پہنچانے کی کوششیں برسوں سے جاری ہیں، لیکن تمام یورشوں کے باوجود سرسید کا یہ چمن ایک صدقہ جاریہ کے طورپر زندہ وتابندہ ہے۔
یوں تو علی گڑھ آنا جانا لگا ہی رہتا، لیکن اس بار یوم سرسید کی تقریبات کے موقع پر میں نے علی گڑھ کو ذرا ٹھہر کر دیکھا۔ اپنے چند دن کے قیام کے دوران مجھ پر علی گڑھ کی ایسی بہت سی خوبیاں منکشف ہوئیں، جن سے میری نگاہ آشنا نہیں تھی۔اس بار میرا قیام بھی یونیورسٹی کیمپس ہی میں تھا، اس لیے اس دانش گاہ کی بہت سی خوبیوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ میرے لیے سب سے زیادہ متاثر کرنے والا یہاں کا پاکیزہ ماحول تھا۔حالانکہ دیگر دانش گاہوں کی طرح یہاں بھی مخلوط تعلیم کا ہے۔ لڑکے لڑکیاں ایک ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہیں، لیکن مشرقی تہذیب اور معاشرت کا جو عکس مجھے یہاں نظر آیا، وہ کسی دوسری دانش گاہ میں نظر نہیں آتا۔مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ یوم سرسید کی تقریب میں شرکت کے لیے طلباء اور طالبات کو پارکنگ کی علاحدہ علاحدہ سہولت فراہم کی گئی تھی، جو میں نے اس سے پہلے کہیں نہیں دیکھی۔’گرلز پارکنگ‘ اور’بوائز پارکنگ‘ کے بورڈ دیکھ کر مجھے حیرانی ضرور ہوئی لیکن میں نے یہ جانا کہ یہ طریقہ احسن ہے۔یہاں تک کہ یوم سرسید پر جب مجھے وائس چانسلرکی رہائش گاہ پر ظہرانے میں شریک ہونے کا موقع ملا تو وہاں بھی خواتین اور مردوں کے لیے کھانے کا الگ الگ انتظام تھا۔یہ باتیں آپ کو موجودہ دور میں کچھ اٹ پٹی ضرور لگیں گی، لیکن ایک صالح معاشرے کی تشکیل میں ان باتوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔یونیورسٹی کی صاف وشفاف شاہراؤں پرآج بھی کثیر تعداد میں کالی شیروانیوں اور برقعوں میں ملبوس طلباء اور طالبات کو گھومتے پھرتے دیکھا جاسکتا ہے۔مخلوط تعلیم کے باوجود طلباء اور طالبات کے درمیان ایک پاکیزہ لکیر محسوس کی جاسکتی ہے۔ یوں بھی پروفیسر نعیمہ خاتون نے یونیورسٹی کی پہلی خاتون وائس چانسلر بننے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خاں کا یوم پیدائش علی گڑھ میں ایک جشن کی طرح منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر پورے کیمپس میں چراغاں ہوتا ہے اور اسے دیکھنے کے لیے پورا علی گڑھ شہر امڈ آتا ہے۔ یہاں کی رونقیں قابل دیداور قابل داد ہوتی ہیں۔یوں تو مجھے کئی بار ان تقریبات میں شریک ہوکر ان سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا ہے، لیکن اس بار کافی دنوں بعدیہ موقع مل پایا۔ مجھے یاد ہے کہ آخری بار غالباً تیس برس پہلے یوم سرسید کی تقریب میں شریک ہوا تھا۔ تب یہ تقریب کینڈی ہال میں منعقد ہوتی تھی، لیکن اب اس کو زیادہ وسیع پیمانے پر اتھلیٹک گراؤنڈ میں منعقد کیا جاتا ہے۔ یہ گراؤنڈ اتنا وسیع ہے کہ اسے بوقت ضرورت ہیلی پیڈ کے طورپر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔اس عظیم الشان تقریب میں بڑی تعداد میں طلباء، طالبات، اساتذہ اور مہمان شریک ہوتے ہیں۔
یوم سرسید کی تقریبات کا آغاز 17/اکتوبر کوحسب دستور سرسید کی تربت پر قرآن خوانی اور ایصال ثواب سے ہوا۔اس کے بعد سرسید ہاؤس میں نوادرات کی نمائش کا افتتاح تھا اور اس کے ساتھ سرسید اکیڈمی کی شائع کردہ بعض اہم کتابوں کا اجراء عمل میں آیا، ان میں خاکسار کی کتاب (سرسید کا قیام میرٹھ)بھی شامل تھی۔اس سلسلہ کی دیگر تصنیفات میں ’سرسید کا قیام بنارس(ڈاکٹر اسعد فیصل فاروقی)’سرسید کا قیام مرادآباد(ڈاکٹر راحت ابرار)بھی شامل ہیں۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ سرسید اکیڈمی نے ان شہروں پر مونوگراف شائع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جہاں سرسید مختلف کاموں سے مقیم رہے۔ ان شہروں کی تعداد 9 ہے۔ ابھی مزید مونوگراف منظرعام پر آئیں گے۔
اجراء ہونے والی کتابوں میں سب سے اہم کتاب تھی ’حیات جاوید‘، جس کا جدیدایڈیشن سرسید اکیڈمی نے شائع کیا ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ خواجہ الطاف حسین حالی کی یہ تصنیف سرسید کی ایسی سوانح ہے جس پر سرسید شناسی کی عمارت تعمیر ہوئی ہے۔1901میں اس کی اولین اشاعت عمل میں آئی تھی اور یہ کتاب سرسید پر کام کرنے والوں کے لیے بنیادی حوالے کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کی اشاعت کے بعد ہی مطالعات سرسید کو نئی جہات ملی ہیں۔اب تک اس کے درجنوں ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں، لیکن سرسید اکیڈمی نے اس کا تصحیح شدہ ایڈیشن مکمل حواشی، تعلیقات اور اشاریہ کے ساتھ شائع کیا ہے۔ نئے ایڈیشن میں ’حیات جاوید‘پر مولوی ذکاء اللہ، وحیدالدین سلیم، حبیب الرحمن خاں شیروانی، سرعبدالقادراورمولانا ابوالکلام آزاد جیسی عبقری شخصیات کے تبصرے بھی شامل کئے گئے ہیں،جن سے اس کتاب کی اہمیت دوچند ہوگئی ہے۔ 780 صفحات کی یہ کتاب طباعت اور تدوین کے اعتبار سے بھی اہمیت کی حامل ہے۔ اس اہم کام کے لیے سرسید اکیڈمی کے ڈائریکٹر پروفیسر شافع قدوائی مبارکباد کے مستحق ہیں جن کے دور میں سرسید اکیڈمی کو نئی جہت ملی ہے۔ وہ ایک ذہین علمی شخصیت ہیں۔
علی گڑھ میں قیام کے آخری روز مولانا آزاد لائبریری میں ڈاکٹر عطا خورشید کی مرتب کردہ ”کلیات خطبات سرسید“ کے انگریزی تراجم کے اجراء میں بھی شرکت کا موقع ملا۔ ترجمہ کا یہ کام امریکہ میں مقیم علی گڑھ کے ہی ایک فرزند عارف انصاری نے انجام دیا ہے۔وہ اس سے قبل بھی کئی اہم اردو کتابوں کا انگریزی ترجمہ کرچکے ہیں، جن میں قاضی عدیل عباسی کی ”تحریک خلافت“ بھی شامل ہے۔علی گڑھ میں کئی روز قیام کے باوجود تشنگی باقی ہے۔ بقول شاعر
تشنگی جم گئی پتھر کی طرح ہونٹوں پر
ڈوب کربھی تیرےدریا سےمیں پیاسانکلا
Comments are closed.