مرشد آباد: اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

ڈاکٹر سلیم خان
مرکزی حکومت اور عدالتِ عظمیٰ کے درمیان جاری سرد جنگ مختلف بہانوں سے سر ابھارتی ہے۔ بی جے پی کے ہمنوا وکیل وشنو شنکر جین نے مرشد آباد میں وقف (ترمیمی) ایکٹ کے خلاف احتجاج کے دوران فرقہ وارانہ اور سیاسی تشدد کے بہانے صدر راج اور نیم فوجی دستوں کی فوری تعیناتی کا مطالبہ کیا تو جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح پر مشتمل دو رکنی بنچ نے اسے مسترد کرتے ہوئے ایسا کرنے کو عدلیہ کی انتظامیہ میں دخل اندازی قرار دے کر نائب صدر جگدیپ دھنکر کو ایک زور دار طمانچہ جڑ دیا ۔ مستقبل کے چیف جسٹس گوئی نے پوچھا "آپ چاہتے ہیں کہ ہم صدر کو صدر راج کے نفاذ کا حکم دیں؟ کیا ہم پر قانون ساز اور انتظامی دائرہ اختیار میں مداخلت کا الزام نہیں لگے گا؟‘‘ اسے کہتے ہیں دشمن کی لاٹھی سے اس کے سانپ کا سر کچل دینا۔ ریاستی بلوں پر گورنر اور صدر کوبر وقت عمل کرنے کی ہدایت پر دھنکر چراغ پا تھے مگر بھارتیہ جنتا پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ نشی کانت دوبے اور دنیش شرما کو وقف بل پر عدالتی استفسار سے پریشانی تھی ۔ عدالت میں ان کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کا زبانی ذکرآیا مگراس پر کارروائی سےقبل اٹارنی جنرل کی رضامندی کے بہانے 22؍ اپریل ٹال کر اسے زندہ رکھا گیا۔
مذکورہ بالا مقدمہ میں ممتا بنرجی کی حکومت برخواست کرنے مطالبے نے مرشد آباد فسادات کے حوالے سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے چہرے پر پڑی ہندو نوازی کی نقاب کو نوچ کر پھینک دیا ہے۔ ممتا بنرجی کو اقتدار سے بے دخل کرنے خاطر برپا کیے جانے والے اس فساد میں بی جے پی کی بدولت ہندووں کے ساتھ وہ سب ہوا جو عام طور پر فرقہ وارانہ فسادات کے دوران مسلم طبقہ کے ساتھ ہوتا ہے مثلاًچن چن کر مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جانا۔ ان کے عبادتگاہوں کی بے حرمتی کرنا ۔ انہیں خوف و ہراس کا شکار کرکے نقل مکانی پر مجبور کرنا۔ ریلیف کیمپ کی ضرورت پیش آنا وغیرہ۔ مرشد آباد میں یہ سب اس فرق کے ساتھ ہوا کہ تشدد کا شکار ہونے والے مسلمان نہیں بلکہ ہندو تھے ۔ یہ محض اس لیے نہیں ہوا کیونکہ مرشد آباد میں مسلمانوں کی اکثریت ہے بلکہ ملک میں کئی علاقے مسلم اکثریتی علاقے ہیں مگروہاں ایسی صورتحال نہیں بنتی۔ اس لیے مرشد آباد کے واقعات پر نظر ڈالیں تو اس کا منصوبہ بند ہونا اظہر من الشمس ہوجاتا ہے.
عدالتِ عظمی میں ایک درخواست گزار ششانک شیکھر جھا کی جانب سے دائر رٹ پٹیشن میں ریاست کے اندر جاری تشدد کی عدالتی نگرانی میں تحقیقات کے لیے ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا مطالبہ کیا گیا ۔اسی طرح مغربی بنگال کے رہائشی دیو دتہ ماجد کی طرف سے ایک الگ عرضی میں ان جھڑپوں کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے ایک سابق جج کی سربراہی میں تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی قائم کرنے کی گہار لگائی گئی جو وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ اس طرح غیر جانبدارانہ تحقیق و تفتیش کے بعد اگر اس تشدد کے پیچھے بی جے پی کا ہاتھ ثابت ہوجائے تو یہ حقیقت سامنے آجائے گی کہ اقتدار کے حصول کی خاطر زعفرانی ٹولہ ہندو اور مسلمان میں تفریق و امتیازکرنے کا قائل نہیں ہے ۔ حسبِ ضرورت اس کے اقتدار کی ہوس کا شکار مسلمانوں کے علاوہ ہندو سماج بھی ہوسکتا ہے۔ بی جے پی کے اس تشدد میں ملوث ہونے کے ویسے تو کئی شواہد ہیں لیکن ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ ان فسادات سے اس کا نہ صرف مغربی بنگال بلکہ عنقریب ہم سایہ صوبہ بہار میں منعقد ہونے والے ریاستی انتخاب میں بھی بھرپور فائدہ ہوگا ۔
بی جے پی مرشد آباد فساد میں بنگلا دیشیوں کے ملوث ہونے کا دعویٰ کررہی ہے۔ اس کو اگر درست مان لیا جائے تو سوال یہ ہے کہ اس کی مرکزی حکومت دراندازوں کو سرحد پار سے ملک میں آنے کی اجازت کیوں دی؟ بارڈر سیکیورٹی فورس کی مدد سے تشدد پر قابو پانے کے بجائے ا سے ہوا دے کر گودی میڈیا کے ذریعہ ان آگ کے شعلوں کو ملک بھر میں زور و شور سے پھیلایا گیا۔ مرشد آباد کے دھولیان ضلع میں ہلاکتوں کے اندردو اور ایک کا تناسب ہے مگریہ فرق ملحوظِ خاطر رہے کہ مسلم نوجوان بی ایس ایف کی گولی سے شہید ہوا جبکہ مشتعل بھیڑ نے پجاری بلکہ بت تراش باپ بیٹے کو مار ڈالا ۔ اس ہلاکت کے لیے پجاری کا انتخاب سابرمتی ایکسپریس کے رام بھگتوں کی یاد دلاتا ہے جو ایودھیا سے کارسیوا کرکے لوٹ رہے تھے۔ گودھرا سانحہ میں ریل کے ڈبے کی آگ کا اندر سے لگنا ثابت ہوچکا ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو اس کے لیے موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا پھر بھی کارسیوکوں کا نذرِ آتش ہونا ایک حادثہ ہوسکتا ہے مگر اس میں شک نہیں کہ سابق وزیر اعلیٰ گجرات کا اس آگ کو پورے صوبے میں پھیلا کر نہ صرف ریاستی انتخاب میں کامیابی حاصل کرنا بلکہ وزیر اعظم کی عہدے تک پہنچ جانا ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ تھا.
جمہوری نظام میں اقتدار پر فائز ہوجانا کافی نہیں ہوتا بلکہ اس پر قائم رہنا ایک بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ اپنی پارٹی کا پرچم ان ریاستوں میں لہرا دینا جہاں مخالف جماعتوں کی حکومت ہو ایک بہت بڑا سیاسی ہدف ہوتا ہے۔ اگلے سال مغربی بنگال میں انتخاب ہونے والے ہیں۔ وزیر اعظم اپنے نائب امیت شاہ کی مدد سے دو مرتبہ ممتا بنرجی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا چکے ہیں لیکن ہر مرتبہ انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس کے باوجود مغربی بنگال میں بی جے پی سب سے بڑی حزب اختلاف کی جماعت بن جانا ایک حقیقت ہے۔ اس نے نصف صدی تک صوبے میں حکومت کرنے والی کانگریس اور اشتراکیوں کو حاشیے پر پہنچا دیا ہے اور اب اقتدار سنبھالنے کے لیے پر تول رہی ہے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر اسے وقف قانون کے ساتھ تشدد بھی درکارتھا۔ اس ظالمانہ قانون کی مخالفت ملک بھر کے مسلمانوں نے کی اور دیگر طبقات کے انصاف پسند لوگ بھی ان کے ساتھ آئے مگرتشدد صرف مرشد آباد میں کیوں ہوا؟ اس سوال کا جواب ساری حقیقت کو کھول دیتا ہے۔
بی جے پی اور اس کے ہمنوا دن رات ’ہندو خطرے میں ہے‘ کا نعرہ لگاتے پھرتے ہیں لیکن ملک بھر کے واقعات اس جعلی بیانیہ کی تردید کرتے ہیں۔ حقیقت حال تو یہ ہے کہ کہیں مسلمانوں کا خطرہ لاحق ہے اور کہیں عیسائی خطرے میں ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال اترپردیش اور منی پور میں جاری و ساری تشدد ہے۔ بودھ سماج اپنے مہابودھی مندر کے لیے بہار میں کشمکش کررہا ہے۔ ملک بھر میں دلتوں پر ہونے والے حملوں کے اندر بے شمار اضافہ ہوگیا ہے ۔ اب تو بے ضرر سمجھا جانے والا بی جے پی کا حامی جین سماج بھی ہندوتوا نواز طاقتوں کے نشانے پر آچکا ہے ۔ کہیں ان کے راہبوں کو مارا پیٹا جاتا ہے ، کہیں ان کا مسلمانوں سے موازنہ کرکے جینیوں میں راون کے جنم لینے کی پیشنگوئی کی جاتی ہے۔ اب تو ان کے مندر پر بھی بلڈوزر چلا نے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ یہ سارےمظالم ڈبل انجن سرکاروں مثلاًاترپردیش ، مدھیہ پردیش ، راجستھان اور مہاراشٹر میں کھلے عام ہورہے ہیں ۔ اس لیے عام ہندو کے لیے اپنے آپ کو خطرے میں محسوس کرکے بی جے پی کو اپنا مسیحا سمجھنے میں دقت محسوس ہوتی ہے۔
پچھلے قومی انتخاب میں خود وزیر اعظم نے انہیں ڈرانے کے لیے منگل سوتر سے لے کر بھینس اور ٹونٹی تک چھِن جانے کا خوف دلایا مگر بات نہیں بنی اور وہ اپنے بل پر اکثریت جٹانے میں ناکام رہے ۔ مرشد آباد فساد کی مثال بی جے پی کی حکمت عملی کے لیے معاون ہے۔ یوگی ادیتیہ ناتھ نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ بنگال جل رہا ہے لیکن وہاں کی وزیر اعلیٰ خاموش ہیں۔ وہ فسادیوں کو امن پسند کہتی ہیں۔ ان کے مطابق سیکولرازم کے نام پر فسادیوں کو کھلی چھٹی دے دی گئی ہےمگر کانگریس اور سماج وادی پارٹی بنگال تشدد پر خاموش ہیں۔ ممتا بنرجی نے اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی شرانگیزی کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’خو ف پھیلا کر حکومت نہیں کی جاتی ہے۔کمبھ میں کتنے لوگوں کی موت ہوئی اس کی شناخت نہیں کی جارہی ہے۔اترپردیش میں کسی کو احتجاج کرنے کا حق نہیں ہے۔ بنگال میں سب کو اظہار حق کی آزادی ہے ۔یہاں کوئی بھی احتجا ج کرسکتا ہے۔‘‘ انہوں نے بجا طور پر یوگی آدتیہ ناتھ کو’ سب سےبڑےبھوگی‘ کے لقب سے نوازہ ۔ممتا بنرجی کا مہلوکینِ فساد کے لیے دس لاکھ معاوضے کا اعلان قابلِ ستائش ہےلیکن وہ بذاتِ خود اگر تینوں مہلوکین کے گھر جاکر اہل خانہ کے زخموں پر مرہم رکھتیں تو بہتر تھا ۔ ممتا بنرجی اگر اپنی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعہ معلومات حاصل کرکے ٹھوس شواہد کی بنیاد پر بی جے پی کا فساد میں ملوث ہوناثابت کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو سنگھ پریوار ملک ہندووں کو منہ دِ کھانے لائق نہیں بچے گا۔اس مقصد میں ممتا بنرجی کی کامیابی پر ان کے سیاسی مستقبل کا دارومدار ہےکیونکہ ہندو سماج کو پتہ چل جائے گا کہ؎
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
Comments are closed.