پلوامہ سےپہلگام تک دہشت گردانہ حملہ

ڈاکٹر سلیم خان
پہلگام کے دہشت گردانہ حملے نے پورے ملک کود ہلا کر رکھ دیا کیونکہ اسمیں 8 2 بے قصور سیاحوں کو ہلاک کردیا گیا۔ وزیر اعظم مودی کو اس حملے کے سبب سعودی عرب دورے کو مختصر کرکے لوٹنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ ’جنھوں نے بھی اس بہیمانہ کارروائی کا ارتکاب کیا ہے انھیں انصاف کا سامنا کرنا ہو گا۔ انھیں بخشا نہیں جائے گا۔ اُن کا شیطانی منصوبہ کبھی کامیاب نہیں ہو گا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ہمارا عزم ناقابل تسخیر ہے اور وہ مزید مضبوط ہو گا۔‘ پوری دنیا نے اس دہشت گردی کی بھرپور مذمت کی۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’امریکہ دہشت گردی کے خلاف ہندوستان کی لڑائی میں اس کے ساتھ کھڑا ہے۔‘ روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے بھی پہلگام میں حملے کی مذمت کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ دہشت گردوں کو اُن کے جرم کی سزا ملے گی۔ وزیر داخلہ امت شاہ بارڈر سکیورٹی فورس کے طیارے کے ذریعے سرینگر پہنچے ہیں جہاں انھوں نے گورنر ہاؤس میں گورنر، جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ، فوج، انٹیلیجنس اور پولیس کے اعلیٰ حکام کے ساتھ خطے کی سکیورٹی اور سلامتی کی صورتحال پر بات چیت کی ۔ مہلوکین کی لاشوں کو پہلگام سے سری نگر لاکر وہاں سے جہاز کے ذریعےان کے گھروں کوروانہ کیا جار ہاہےلیکن افسوس کے اس موقع کا فائدہ اٹھانے کے لیے بھی ہوائی کمپنیاں منافع خوری میں زور و شور سے ملوث ہوگئی ہیں۔
جموں و کشمیر کی عمر عبداللہ حکومت میں وزیر سکینہ ایتو نے اس حوالے سے اپنے ایکس پیغام میں لکھا، ’وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر میں نے اس گھناؤنے اور بزدلانہ حملے میں زخمی ہونے والوں کی حالت جاننے کے لیے پہلگام اور جی ایم سی اننت ناگ کا دورہ کیا۔ جن لوگوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا ہےان سے ملنا واقعی دل کو دہلا دینے والا تھا – ان کی آنکھوں میں جو درد اور غم ہے اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ میں اس وحشیانہ دہشت گردانہ حملے کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ میری تعزیت اور دعائیں متاثرین اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں‘‘۔یہ گویا حکومتِ جموں کشمیر کا موقف ہے۔ ایک زمانے میں ریاست کے اندر نظم و نسق قائم رکھنا جموں کشمیرکے ریاستی حکومت کی ذمہ داری ہوا کرتی لیکن اب نہیں ہے ۔ فی الحال وہ مرکز کے تحت ایک علاقہ ہے اس لیے امن و امان برقرار رکھنا اب لیفٹننٹ گورنر کے ذمہ ہے جو وزارتِ داخلہ کے تحت کام کرتے ہیں۔
تقریباًساڑھے پانچ سال قبل آئین میں ترمیم کرکے دفع 370منسوخ کرنے کے بعد ریاست کو تقسیم کرکے اس کا درجہ گھٹایا گیا اور یہ دعویٰ کیا گیا اس طرح دہشت گردی کی بیخ کنی ہوجائے گی لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ حکومت نے عدالتِ عظمیٰ میں جلد ریاست کا درجہ بحال کرنے کا وعدہ تو کیا لیکن اگر حالیہ ریاستی انتخاب کے قبل جموں کشمیر کو دیگر ریاستوں کے مساوی مکمل خود مختاری دے دی جاتی تو ممتا بنرجی کی طرح عمر عبداللہ کو موردِ الزام ٹھہرا کر صدر راج کا مطالبہ کیا جاتا مگر وہاں تو نظم و نسق کے معاملے صدر راج نافذ ہے اس لیے لیفٹننٹ گورنر کو ہٹانے یا وزیر داخلہ کااستعفیٰ طلب کیا جانا چاہیے لیکن حکومت کا نمک خوار میڈیا اس کی جرأت نہیں کرسکتا اس لیے وہ پاکستان کے پیچھے پڑ گیا حالانکہ حکومتِ پاکستان نے بھی اس حملے کی مذمت کی ہے۔ گودی میڈیا پرجوش اینکرز اوردفاعی ماہرین حکومت ہند سےپاکستان پر حملے کا مطالبہ کرتے نظر آئے ۔
این ڈی ٹی وی پر سابق لیفٹیننٹ جنرل سید عطا حسین نے اس حملہ کو اسرائیل پر سات اکتوبر کے حماس حملے کی نقل تو بتادیا مگر فوراً خود کی تردید کرتے ہوئے کہہ دیا کہ یہ حملہ سکیورٹی فورسز پر نہیں ہوا بلکہ غیر مسلح سیاحوں پر کیا گیا اس لیے پورے ملک پر حملے کی مانندہے۔ یہ بات درست ہو تب بھی کاپی کیسے ہوگیا؟ سابق میجر جنرل سنجے میسٹن نے امید جتائی کہ ’انڈیا کی جانب سے جوابی کارروائی تو ضرور ہو گی۔ لیکن اس بار حکومت کو فوج کو کُھلا ہاتھ دینا چاہیے۔‘ اس طرح گویا مودی سرکار پر فوج کے ہاتھ باندھنے کا الزام لگا دیا گیا ۔’ٹائمز ناؤ‘ نے اسے مذہب کا تڑکہ لگاتے ہوئے سرخی لگائی کہ ہلاک شدگان ’اپنے مذہب کی وجہ سے مارے گئے۔‘وہیں دورانِ بحث سوشانت سرین نے پڑوسی ملک کی فوج اور پنجابی مسلمانوں پر ہندوؤں سے نفرت کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’یہ علیحدگی پسندی کی تحریک نہیں۔ یہ ایک خالص جہادی اسلامی تحریک ہے۔ وہ (حملہ آور) نفرت انگیز جہادی نظریے پر یقین رکھتے ہیں۔‘ٹائمز ناؤ کی پرجوش میز بان ناویکا کمار نے دھمکی آمیز اندازمیں کہا کہ ‘اب بات حد سے نکل چکی ہے۔ آج ہندوستان کی روح پر حملہ کیا گیا ہے۔ آج پورے ملک پر حملہ ہوا ہے۔ انھیں (پاکستان) اس کی قیمت چکانی ہو گی۔‘’
نیوز 18‘ پر سابق فوجی میجر گورو آریہ نے دور کی کوڑی لاتے ہوئےالزام لگایا کہ ’وہ (پاکستان) کشمیر میں نظام مصطفیٰ چاہتے ہیں۔ ہمارا دشمن حافظ سعید نہیں ہے، ہماری دشمن پاکستانی فوج ہے، جب تک ہم وہاں داخل ہو کر فوج کو نقصان نہیں پہنچاتے تب تک کچھ نہیں بدلے گا‘‘ لیکن سوال یہ ہے کہ جن لوگوں نے خود اپنے ملک میں نظام ِمصطفیٰ نہیں قائم کیا تو دوسری جگہ یہ کیوں کریں گے؟ زی ٹی وی نے تو یہ سرخی لگادی کہ ’کیا پہلگام حملے کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے؟‘آج تک پر سابق میجر اے کے سیوائج نے دعویٰ کیا کہ ’یہ انڈیا کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۰۰۰ جب تک ہم اسے (پاکستان کو) برباد نہیں کریں گے تب تک یہ سلسلہ بند نہیں ہو گا۔‘ سابق میجر سنجے مینسٹن کا کہنا تھا ’وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، اب اور کوئی چارہ نہیں بچا۔‘سبکدوش میجر جنرل وشنبھر دیال نے رائے دی کہ ’انڈیا کی فوجی طاقت پاکستان سے زیادہ ہے۔ اب اس کی فوجی طاقت کو تباہ کرنے کی ضرورت ہے۔‘
ٹیلی ویژن چینل کے ائیر کنڈیشنڈ اسٹوڈیو میں جنگ کا شور مچانے والوں کو روس اور یوکرین کے تنازع سے سبق لینا چاہیے ۔ یوکرین میں مرنے اور زخمی ہونے والوں کو جملہ تعداد دس لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے اور یہی حال روس کا ہے۔ تین سال بعد بھی تمام تر تباہی و بربادی کے باوجود روس جیسی عالمی طاقت یوکرین کو زیر نہیں کرسکی ۔برصغیر کا جہاں تک تعلق ہے نہ ہندوستان روس جتنا طاقتور ہے اور نہ پاکستان یوکرین سے کمزور ہے ۔ یہ دونوں جوہری اسلحہ سے لیس ہیں۔ یہ عام سی بات ہے کہ پاکستان کے بلوچستان میں جب دہشت گردانہ حملہ ہوتا ہے تو اس کے لیے ہندوستان کو موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے نیز کشمیر یا پنجاب کے حملوں کا الزام پاکستان پر لگایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان دونوں حکومتوں کو اپنے گریبان میں جھانک کر نہیں دیکھنا چاہیے؟ کیا دوسروں پر الزام دھر دینے یا میڈیا میں شور شرابہ کردینے سے مسائل حل ہوجائیں گے؟ یہ نہایت افسوسناک صورتحال ہے کہ دونوں ممالک کا میڈیا پڑوسی ملکوں میں مارے جانے والے بے قصور لوگوں پر زیر لب خوشی محسوس کرتا ہے۔ دی ہندو کے مطابق ڈیڑھ ماہ کے اندر325نکسلی مارے گئے۔ یہ بہت بڑی تعداد ہے مگر کسی آنکھ سے ایک آنسو نہیں گرتا؟ کیا وہ ہم وطن باشندے نہیں ہیں؟
پہلگام پر یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکہ کے نائب صدر جے ڈی وینس ہندوستان کے دورے پر تھے۔ ماضی میں بھی امریکی صدور کی آمد کے وقت یا کچھ دن بعد ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں ۔ 20 مارچ 2000 کو جب سابق امریکی صدر بل کلنٹن ہندوستان کے دورے پر تھے تو کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں چٹھی سنگھ پورہ کے مقام پر ایک دہشت گرد حملہ ہوا جس میں 35 سکھ موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے۔ آگے چل کر اس پر شکوک و شبہات کے بادل چھا گئے ۔یکم مارچ 2006 کو امریکی صدر جارج بش بھارت کے دورے پر آئے تو اس کے کچھ دن بعد 7 مارچ کو وارانسی کے مختلف مندروں میں بم حملے ہوئے اور لشکر طیبہ کو مورد الزام ٹھہرایا گیا۔نومبر 2010 میں امریکی صدر باراک اوباما نے دورہ کیا اور اس کے بعد دسمبر 2010 میں پھر وارانسی کے اندر بم دھماکے میں 37 لوگوں کی موت ہوئی۔2020میں ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ ختم ہوتے ہی دہلی کا فساد ہوگیا ۔ ان واقعات کی تحقیق و تفتیش کرکے باہمی تعلق جاننےکی کوشش ہونی چاہیے مگر جس حکومت نے پلوامہ حملے کی ۶؍ سال بعد تک اپنی تحقیق پیش نہیں کی اس سے بھلا کیا توقع کی جائے؟
اس موقع پر کل جماعتی حریت کانفرنس نے بھی پہلگام میں پیش آنے والے حملے کو ”انسانیت سوز اور قابل نفرت“ قرار دیتے ہوئے شدید مذمت کی ہےنیزکہا کہ یہ واقعہ کشمیری تحریکِ آزادی کو بدنام کرنے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے ۔حریت رہنما غلام محمد نےخفیہ ایجنسیوں پر الزام لگاکر کہا کہ ” اس کا مقصد کشمیری عوام کی پرامن جدوجہد کو دہشت گردی سے جوڑنا ہے۔“ حریت کانفرنس نے پہلگام حملے کو چھٹی سنگھ پورہ سانحہ سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پہلگام میں بھی ماضی کی طرح فوج کی شمولیت کا ثبوت ہو سکتا ہے اس لیےحقائق کی تہہ تک پہنچنےکے لیےغیرجانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا ۔ حریت رہنماؤں نے زخمی سیاحوں کی جلد صحتیابی کے لیے دعا کرتے ہوئے جاں بحق افراد کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار بھی کیا ۔ اس طرح دہشت گردی کے حوالے سے حریت اور موجودہ حکومت کے موقف میں یک گونہ مماثلت بھی ہے۔امید ہے حقائق کے بے نقاب ہونے کے بعد ایسے بزدلانہ حملوں کی بیخ کنی ہوجائے گی۔
Comments are closed.