بہار میں جاری ووٹر تصدیقی مہم کو فوراً روکاجائےالیکشن کمیشن سے امارت شرعیہ کا مطالبہ

 

کروڑوں رائے دہندگان کے حقِ رائے دہی کو خطرہ لاحق

 

پٹنہ (پریس ریلیز)

مفتی محمد سعید الرحمن قاسمی قائم مقام ناظم امارتِ شرعیہ بہار، اڈیسہ ،جھارکھنڈ و مغربی بنگال نے ریاستِ بہار میں جاری خصوصی ووٹر نظرثانی مہم 2025 (Special Intensive Revision – SIR) پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اگرچہ الیکشن کمیشن آف انڈیا (ECI) اس مہم کو شفاف اور جامع ووٹر لسٹ تیار کرنے کی بات بتا کر کے پیش کر رہا ہے، لیکن زمینی حقائق اس عمل کی سنگین خامیوں کو ظاہر کر رہے ہیں، جو بالخصوص غریب، محروم، پسماندہ اور پچھڑے طبقات، جیسے درج فہرست ذات (SC)، درج فہرست قبائل (ST)، دیگر پسماندہ طبقات (OBC)، اقلیتوں، خواتین اور دیہی آبادی کو ووٹ دینے کے آئینی حق سے محروم کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔

 

موجودہ فریم ورک کے مطابق، ہر شہری خواہ وہ ووٹر لسٹ میں پہلے سے درج ہو یا نہ ہوسے یہ تقاضا کیا جا رہا ہے کہ وہ نیا انومریشن فارم (Enumeration Form – EF) پُر کرے یا کم از کم اس کی تصدیق کرے۔ متعدد صورتوں میں شہریت اور جائے پیدائش کے ثبوت بھی مانگے جا رہے ہیں۔ یہ تقاضے نہ صرف نئے درخواست دہندگان پر لاگو ہو رہے ہیں بلکہ اُن پر بھی جو برسوں سے ووٹ ڈال رہے ہیں۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ شہریت ثابت کرنے کی ذمہ داری ریاست کی بجائے شہری پر ڈال دی گئی ہے، جو کہ آئینِ ہند کی دفعہ 326 کی صریح خلاف ورزی ہے، جس کے تحت ہر بھارتی شہری جو 18 برس کی عمر کو پہنچ چکا ہو، اسے ووٹ دینے کا غیر مشروط حق حاصل ہے۔ مزید برآں، یہ دفعہ 14 (مساوات کا حق) اور دفعہ 21 (وقار کے ساتھ جینے کا حق) کی بھی خلاف ورزی ہے، کیونکہ یہ طریقہ کار اُن افراد کو نشانہ بنا رہا ہے جو تعلیمی، دستاویزی اور ڈیجیٹل وسائل سے محروم ہیں۔

 

اس عمل کا سب سے تکلیف دہ پہلو بہار سے باہر دوسری ریاستوں میں کام کے لئے جانے والے مزدور طبقے کا نقصان ہے جو اس پروسیس سے بالکل باہر رہ جائے گا، بہار ملک کی اُن ریاستوں میں شامل ہے جہاں سے سب سے زیادہ مزدور دوسری ریاستوں میں مزدوری کرتے ہیں۔ لاکھوں افراد دہلی، ممبئی، سورت، بنگلور جیسے شہروں میں رہتے اور کام کرتے ہیں اور صرف تہوار یا ہنگامی حالات میں گاؤں آتے ہیں۔ ان میں سے اکثر انومریشن فارم پر دستخط کی شرط پوری نہیں کر پائیں گے، کیونکہ یہ فارم ان کی ذاتی موجودگی کا تقاضا کرتا ہے۔ مزید یہ کہ بہار کی ایک بڑی آبادی خلیج، یورپ، آسٹریلیا اور امریکہ جیسے ممالک میں روزگار کے سلسلے میں مقیم ہے۔ ان غیرمقیم بھارتیوں (NRIs) کی اکثریت غریب اور نیم خواندہ ہے۔ ان کی غیر موجودگی میں فارم پر دستخط ممکن نہیں، خواہ ان کے نام برسوں سے ووٹر لسٹ میں موجود ہوں اور وہ ووٹ دیتے آرہے ہوں ۔ یہ صورتحال اُن کے آئینی اور جمہوری حق پر براہِ راست حملہ ہے، اور بہار کی اقتصادی حقیقتوں اور مہاجرت کی فطرت سے لاعلمی کا مظہر ہے۔

 

الیکشن کمیشن کی جانب سے 2003 کی ووٹر لسٹ کو شہریت کے ثبوت کے طور پر استعمال کرنا شدید طور پر ناقابلِ قبول اور غیرمنصفانہ ہے۔ اگرچہ 2003 کی فہرست میں موجود افراد کو دستاویزات سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، مگر بہار کی اکثریتی نوجوان آبادجو 1987 یا 2004 کے بعد پیدا ہواس فہرست میں شامل نہیں۔ ایسے افراد سے خود اور بعض اوقات والدین میں سے ایک یا دونوں کے لیے بھی شناخت و پیدائش کی دستاویزات مانگی جا رہی ہیں، جو لاکھوں افراد کے لیے ناممکن بوجھ ہے۔ پاسپورٹ، برتھ سرٹیفکیٹ، یا میٹرک سرٹیفکیٹ جیسے دستاویزات کی عدم موجودگی میں ان کا اخراج طے شدہ ہے۔ مزید بدتر یہ کہ آدھار، پین کارڈ اور پرانا ووٹر کارڈ جیسے عام دستاویزات کو سرکاری ہدایات کے مطابق شہریت کے لیے ناقابلِ قبول قرار دیا گیا ہے۔ دی ہندو، انڈین ایکسپریس، اور نیشنل ہیرالڈ جیسے معتمد ذرائع نے اس مہم کے اخراجی فطرت پر سخت خبردار کیا ہے اور کہا ہے کہ تقریباً ڈھائی کروڑ رائے دہندگان اس مہم کے نتیجے میں ووٹ دینے کے حق سے محروم ہو سکتے ہیں۔

 

یہ عمل مزید اس لیے غیرآئینی ہے کہ بظاہر غیرجانبدار ہونے کے باوجود، اس کا عملی اثر تاریخی طور پر پسماندہ طبقات پر بہت شدید ہوگا۔ آئینِ ہند کی دفعہ 15 کے مطابق، کسی بھی شہری سے ذات، مذہب، جنس یا جائے پیدائش کی بنیاد پر امتیاز نہیں برتا جا سکتا۔ مگر اس نظام کے نتیجے میں دلت، آدیواسی، مسلمان اور دیگر غریب طبقات، جو پہلے ہی دستاویزات سے محروم ہیں، غیر ارادی طور پر محروم ہو رہے ہیں۔

 

جمہوری شراکت داری کو فروغ دینے کے بجائے، یہ مہم عدم اعتماد، افسر شاہی کی رکاوٹوں، اور بڑے پیمانے پر اخراج کے ایک آلے میں تبدیل ہو چکی ہے۔ شہریوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنی شہریت اور ووٹ دینے کے حق کو ثابت کریں۔ ایسی کٹھن شرائط کے درمیان، یہاں تک کہ تعلیم یافتہ شہری بھی پیچیدگیوں میں پھنس سکتے ہیں۔ ایسے میں جب ریاستِ بہار شرح خواندگی، غربت، مہاجرت اور بیرونِ ملک مزدوری کے حوالے سے انتہائی حساس ہے، پوری آبادی سے ثبوت کا تقاضا ایک غیرجمہوری، غیرمنصفانہ، اور غیر انسانی قدم ہے۔

 

امارتِ شرعیہ مطالبہ کرتی ہے کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا فوراً SIR 2025 کے تحت جاری ووٹر لسٹ کی نظرثانی کا عمل معطل کرے۔ ہم حکومتِ ہند سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس جمہوری بحران میں مداخلت کرے، اس سے قبل کہ ناقابلِ تلافی نقصان ہو جائے۔ ہم پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ موجودہ ووٹرلسٹ میں درج تمام ناموں کو مستند مانا جائے، اور آدھار، EPIC اور راشن کارڈ جیسے عام دستاویزات کو از سرِ نو تصدیق کے لیے کافی تسلیم کیا جائے۔ سب سے بڑھ کر، ہم درج فہرست ذاتوں، درج فہرست قبائل، پسماندہ طبقات، معذور افراد، مہاجر مزدوروں اور خواتین جیسے کمزور طبقات کے لیے ایک خصوصی تحفظاتی نظام کی تشکیل کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ کوئی بھی بھارتی شہری صرف کاغذی تکنیکی خرابی، جغرافیائی غیرموجودگی یا دستاویزی کمی کی بنیاد پر اپنے ووٹ کے حق سے محروم نہ ہو،اس لئے کہ جمہوریت کا آغاز عوام پر اعتماد سے ہوتا ہے۔

Comments are closed.