فلسطین میں نسل کشی پر خاموش نہیں رہ سکتا

سرفرازاحمدقاسمی حیدرآباد
رابطہ: 8099695186
اسرائیل کی جانب سے مسلسل نہتے شہریوں پر ظلم و بربریت کا سلسلہ تاحال جاری ہے،صیہونی فورسز نے تازہ حملوں کے دوران گھروں،اسکولوں،ہسپتالوں اور امدادی کیمپوں کو نشانہ بنایا ہے،الجزیرہ کے مطابق اسرائیل نے غزہ میں بڑے پیمانے پر بمباری کر کے 85 فلسطینیوں کو شہید کردیا ان میں خوراک کے متلاشی شہری اور اسکولوں میں پناہ لینے والے خاندان بھی شامل ہیں، جبکہ ہسپتالوں میں حملوں کے دوران متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں،گزشتہ 22 ماہ کے دوران غزہ میں متعدد بار ہسپتالوں کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا جاچکا ہے،انسانی حقوق کے گروپوں اور اقوام متحدہ کے ماہرین کے مطابق اسرائیل صحت کے نظام کو منظم طریقے سے تباہ کر رہا ہے،غزہ پٹی کے جنوب اور امدادی کیمپوں کے اطراف بھی اسرائیلی فورسز نے نہتے شہریوں کو نشانہ بنایا،غزہ کی وزارت صحت کی جانب سے جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق وہاں اب تک تقریبا 60 ہزار افراد جان بحق ہو چکے ہیں اور سینکڑوں افراد ہنوز ملبے تلے دبے ہوئے ہیں، جس میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے،نسل کشی کا سلسلہ وہاں روز کا معمول بنا ہوا ہے اور دنیا خاموش تماشائی ہے،ایسا لگتا ہے کہ دنیا سے انسانیت بالکل ختم ہوچکی ہے،عالمی طاقتیں ظلم و بربریت کو روکنے اور لگام دینے میں پوری طرح ناکام ہیں، جس سے نا انصافی،بد امنی اور لاقانونیت بڑھتا چلا جا رہا ہے،اسی درمیان امریکی صدر ٹرمپ کا یہ بیان آیا ہے کہ غزہ میں 60 روزہ جنگ بندی کی شرط پر اسرائیل نے رضا مندی ظاہرکر دی ہے۔
اس بیان کے بعد حماس نے کہا ہے کہ وہ ثالثوں کی طرف سے پیش کی گئی جنگ بندی کی نئی تجاویز پر مشاورت کر رہی ہے۔اس کا مقصد ایک ایسے معاہدے تک پہنچنا ہے جس سے تنازع ختم ہو اور پٹی سے اسرائیلی افواج کے انخلاء کو یقینی بنایا جائے۔حماس کے آفیشل ٹیلی گرام پیج پر ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ہمارے ثالث بھائی فریقین کے درمیان خلیج کو ختم کرنے،فریم ورک معاہدے تک پہنچنے اور مذاکرات کا ایک سنجیدہ دور شروع کرنے کے لئے بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔بیان میں مزید کہا گیا کہ ہم ذمہ داری کے اعلیٰ احساس کے ساتھ کام کررہے ہیں اور اپنے ثالث بھائیوں سے موصول ہونے والی تجاویز پر تبادلہ خیال کرنے کے لئے قومی مشاورت کر رہے ہیں تاکہ ایک ایسے معاہدے تک پہنچ سکیں جو جارحیت کے خاتمے،اسرائیلی فوج کے انخلاء کو حاصل کرے اور غزہ کی پٹی میں ہمارے لوگوں کو فوری ریلیف فراہم کرے۔متعلقہ سیاق و سباق میں سی بی ایس نے اپنے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیلی حکام غزہ میں عارضی جنگ بندی کے لیے تیار ہیں۔امریکی صدر ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد کہ اسرائیل نے غزہ میں 60 روزہ جنگ بندی کی شرائط پر رضامندی ظاہر کر دی ہے سے پٹی میں امیدیں بڑھ گئی ہیں۔ٹرمپ نے اپنے نمائندوں اور اسرائیلی حکام کے درمیان”طویل اور نتیجہ خیز”ملاقات کے بعد منگل کو ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ مصر اور قطر حماس کو”حتمی”تجویز پیش کریں گے۔دریں اثنا اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو پر غزہ میں مستقل جنگ بندی کرنے اور تقریباً دو سال پرانی جنگ کے خاتمے کے لئے عوامی دباؤ بڑھ رہا ہے۔جنگ بندی کی حکمراں دائیں بازو کے اتحاد کے ارکان نے سخت مخالفت کی ہے۔اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈون ساعر نے ’’ ایکس‘‘ پر لکھا کہ حکومتی اتحاد میں اکثریت غزہ میں حماس کے زیر حراست باقی یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کی حمایت کرے گی۔اگر ایسا کرنے کا موقع ہے تو ہمیں اسے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔خیال کیا جاتا ہے کہ غزہ میں قید 50 اسرائیلی یرغمالیوں میں سے بیس اب بھی زندہ ہیں۔اسطرح جنگ بندی ہوگی یا نہیں؟ یہ سوال بہرحال قائم ہے،حماس کے عہدیدار طاہر النونو نے کہا ہے کہ انکا گروپ معاہدے کےلئے تیار اور سنجیدہ ہے،حماس کسی بھی ایسی تجویز کو قبول کرنے کےلئے تیار ہے جسکے نتیجے میں مکمل جنگ بندی ہوجائے لیکن یہ جنگ کیسے ختم ہو اس پر اسرائیل اور حماس متفق نہیں ہیں۔
ادھر ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہرگذرتے دن کے ساتھ غزہ ایک بھولتی کہانی بنتی جارہی ہے اورغزہ کےحوالےسےہم غافل ہورہے ہیں،غزہ ہماری ترجیحات کی فہرست سےنکل رہا ہے۔غزہ کومت بھولیں۔غزہ کویاد کریں۔ماہ محرم ہے کربلا کا میدان سجا ہے۔اسرائیل جیسا سرکش اور انتہائی خونخوار بڑا ظالم انسانی تاریخ میں شاید نہیں آیا۔غزہ کو یاد کریں۔غزہ میں وقت کی طاقتور قوتوں کا لےپالک لاکھوں بچوں اور خواتین کو بھوکا پیاسا رکھے ہوئے ہے،خون،آنسو اور خاموش جنازے یہی غزہ کی داستان ہے،غزہ میں طلوع ہونے والی ہر صبح سو گوار اور خون آلود ہے،ہر روز وہاں چیخیں سنائی دیتی ہیں،آنکھوں میں آنسو ہیں،ہر طرف صدموں کا طوفان ہے،امدادی سامان کی تقسیم کے مراکز پر حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے جنازے اٹھائے جارہے ہیں لوگ اپنے پیاروں کو الوداع کہہ رہے ہیں،زخمیوں کو مختلف ہسپتالوں میں لایا جاتا ہے،کسی کو گھوڑا گاڑیوں کے ذریعے لایا جاتا ہے،ایمرجنسی وارڈ میں رکھا جاتا ہے،دواؤں کی قلت، ڈاکٹروں کی کمی کے باعث لوگ وہاں بہت آسانی سے دم توڑ رہے ہیں اور راہی عدم ہورہے ہیں۔ایران۔ اسرائیل جنگ کے دوران کچھ لوگوں کی ہمدردی اگر ایران کے ساتھ تھی تو وہ غزہ ہی کی وجہ سے تھی اگر ایران امریکہ اسرائیل مصالحت میں غزہ جنگ بندی انصاف امن و امان کی شرط شامل نہیں تو ہمیں اس مصالحت اور سیاست میں کوئی دل چسپی نہیں،بھاڑ میں جائے ایسی سیاست جو اسلام اور امت کے نام پر صرف اپنے ذاتی مفادات کو اہمیت دے۔ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بلاشبہ ایران نے پراکسیز کے ذریعے غزہ کے لئے بہت عمدہ کوششیں کی ہیں،مگر حالیہ جنگ فلسطین کی بنیاد پر نہیں لڑی جارہی تھی،یہاں تنازع کا باعث ایران کا ایٹمی پروگرام تھا،اسی لئے جنگ بندی کے دوران اہلِ غزہ کا ذکر نہیں ہوا،اہلِ غزہ اس وقت اکیلے ہیں، تنہا ہیں،اپنی جنگ خود لڑ رہے ہیں،خود ہی اشک بہاتے،خود ہی اشک شوئی کرتے اور خود ہی خود کو تسلی دیتے ہیں،خود ہی گھائل اور خود ہی اپنے رفوگر ہیں،غزہ،اپنے پرائے سبھی کی فراموش کردہ سرزمین ہے۔
جنگ بندی ایران۔اسرائیل کی ہو یا لبنان کی حزب اللہ اوراسرائیل کی۔جنگ کو ٹائٹل تو سب نے غزہ کا ہی دیا لیکن جنگ بندی میں غزہ کسی کو یاد نہیں رہا۔غزہ کی قربان گاہ کی بات کسی نے نہیں کی۔ آج لبنان میں بھی شانتی ہے اور تہران کے کوہ ودمن میں بھی سکون لوٹ آیا ہے۔لیکن کٹنے اورمرنے والے صرف اہل غزہ اکیلے رہ گئے ہیں۔اس صورتحال نے یہ ثابت کردیا کہ تمہیں لڑائی میں ڈھکیلنے کے لئے تو لوگ مدد بھی دیتے ہیں اور حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں لیکن جنگ کے دلدل میں پھنس جا نے کے بعد تمہاری پشت پر کوئی نہیں رہتا۔لہذا دوسروں کے کہنے پر جنگیں اپنے سر لینا کسی بھی طور پر دانشمندی نہیں ہے۔رب کریم اہل غزہ کے لیے آسانیاں پیدا کرے۔
ایران اسرائیل جنگ بندی کے موقع پر شہر عزیمت غزہ کے ایک مظلوم بھائی نے سوشل میڈیا پرلکھا کہ” میں غزہ سے ہوں! جب ایران غزہ کا ذکر کئے بغیر جنگ بندی پر بات کرتا ہے تو مجھے اب مت بتانا کہ ایران غزہ کا دفاع کر رہا ہے،غزہ اکیلا کھڑا ہے اور ساری دنیا نے اسے تنہا چھوڑ دیا ہے” ایک خاتون صحافی شروق العیلا نے لکھا کہ”ایران کو جیت مبارک ہو! ہمیں یہ معلوم ہو گیا کہ جب مسلمان ممالک کی اپنی سالمیت پر حملہ ہوتا ہے تو اکیلے بھی اسرائیل کے ساتھ لڑ جاتے ہیں لیکن اگر غزہ کے معصوم فلسطینی روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں شہید ہورہے ہوں تو سارے مسلمان ممالک مل کر بھی ان کے لئے نہیں لڑ سکتے” کسی اور صاحب نے لکھا کہ” تقریبا دو سال سے جاری غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور ظلم و بربریت کو روکنے میں ٹرمپ اور اقوام متحدہ ناکام ہے، کیونکہ یہاں سیاسی اور مادی مفاد ایک طرفہ ہے،اس پر مستزاد یہ کہ غزہ کے لوگ مسلمان ہیں اور اس وقت روزانہ بھوک سے پریشان حال غزہ کے لوگ مدد کی امید میں جاتے ہیں مگر واپس ان کی لاشیں آتی ہیں،یہاں نہ ٹرمپ کا اختیار ہے اور نہ اقوام متحدہ کا، نہ ہی ایران کا کوئی کردار ہے یہ دوہری پالیسی منافقت اور دوغلہ پن کی بدترین مثال ہے”۔ان سب کے باوجود شہر عزیمت غز-ہ کے جانباز،شجاعت وبہادری اور جوانمردی کی نئی تاریخیں رقم کر رہے ہیں،دو سال کے طویل عرصے سے تن تنہا دنیا کی ظالم ترین ریاست کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں اور روزانہ کی بنیادوں پر دشمن کی ٹیکنالوجی اور انکے غرور کو خاک میں ملارہے ہیں۔کاش کہ کوئی ایک مسلم ملک بھی مخلصانہ انداز میں ان کے ساتھ کھڑا ہوجائے تو یہ اسرائیل کو تہس نہس کرکے رکھ دیں گے۔ان شاءاللہ
دو چار دن پہلے کولمبیاء کے صدر پیٹرو کا عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے والا بیان اخباروں میں دیکھا جس میں انہوں نے مشرق وسطی میں کشیدگی میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سب فلسطینی بچوں پر بمباری سے شروع ہوا جو غزہ کے عوام کی نسل کشی ہے،ہم ایک عالمی جنگ کے دہانے پر ہیں،اس کا حل کہاں سے شروع ہوتا ہے نتن یاہو کو فلسطین پر بمباری بند کرنی چاہیے،جنگ بندی کا اعلان کرنا چاہیے اور تمام انسانیت کو خطرے میں ڈالنا بند کرنا چاہیے، کولمبیا کے صدر اسرائیلی پالیسیوں کے مستقل ناقد رہے ہیں اور انہوں نے غزہ میں حملوں کے آغاز سے اسرائیل کے خلاف کئی اہم اقدامات کئے ہیں،اگست 2024 میں پیٹرو نے اسرائیل کو کولمبیا سے کوئلہ کی برآمد پر پابندی عائد کردی تھی،اپنے بیان میں انھوں نے کہا کہ کولمبین کوئلہ ان بموں کے لئے استعمال ہوتا ہے جو فلسطینی بچوں کو مارتے ہیں،فروری 2024 میں غزہ میں ایک قتل عام کے بعد جس میں 118 فلسطینی شہید ہوئے،پیٹرو نے اسرائیل سے اسلحہ کی خریداری معطل کر دی تھی،مئی 2024 میں پیٹرو نے اسرائیل کے ساتھ کولمبیا کے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا،یوم مزدور کے موقع پر ایک جلسہ سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ کل ہم اسرائیل سے تعلقات ختم کر دیں گے کیونکہ اسرائیلی حکومت اور وزیراعظم نسل کشی کے مرتکب ہو رہے ہیں،پیٹرو عالمی برادری سے مسلسل مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ اسرائیل کا احتساب کرے،انصاف کو یقینی بنائے اور فلسطینی عوام کے حقوق کی حفاظت کرے،انہوں نے امریکہ پر بھی تنقید کی کہ وہ اسرائیل کی غیر مشروط حمایت کرتا ہے اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کے فیصلوں کونظر انداز کرتا ہے۔
کولمبیا یونیورسٹی کے گریجویٹ اور فلسطینی کارکن محمود خلیل نے گزشتہ ہفتہ امریکی شہر نیویارک میں منعقدہ فلسطین کے حق میں ایک بڑے مظاہرے اور ریلی میں شرکت کی،اس مظاہرے کی قیادت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں فلسطین میں نسل کشی دیکھ کر خاموش نہیں رہ سکتا،اپنی رہائی کے فوری بعد محمود خلیل نے جذباتی انداز میں کہا کہ میں خاموش رہنے سے انکار کرتا ہوں،جبکہ میرے سامنے فلسطین میں ایک پوری قوم کو ختم کیا جا رہا ہے،خلیل ان سینکڑوں طلباء میں شامل تھے جنہیں امریکی جامعات میں فلسطین کے حق میں مظاہروں کے دوران گرفتار کیا گیا تھا،اس موقع پر انہوں نے غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی کے خلاف مظاہرے جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا اور نہ صرف کولمبیا یونیورسٹی بلکہ ٹرمپ انتظامیہ کی فلسطین نواز سرگرمیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کی بھی شدید مذمت کی،جمعہ کو ایک وفاقی جج نے حکم دیا تھا کہ خلیل پر نہ تو فرار ہونے کا خطرہ ہے اور نہ ہی وہ اپنی کمیونٹی کے لئے کسی قسم کا خطرہ ہیں،اسی بنیاد پر ان کی امیگریشن کی کاروائیوں کے دوران انہیں رہا کر دیا گیا،جج نے کہا کہ یہ انتہائی غیر متوقع ہے کہ قانونی مستقل رہائشی کو اس باقی الزام کی بنیاد پر حراست میں رکھا جائے گا،یہ کوشش تھی کہ امیگریشن کے الزامات کو ایک احتجاج کرنے والے کو سزا دینے کے لیے استعمال کیا جائے،محمود خلیل 2024 کے موسم بہار میں کولمبیا یونیورسٹی میں فلسطین کے حق میں ہونے والے احتجاجات کا مرکزی چہرہ تھے اور ان کی آٹھ مارچ کو آئی سی ای کے عہدے داروں کے ہاتھوں گرفتاری نے نیویارک اور واشنگٹن ڈی سی میں وسیع پیمانے پر مذمت اور مظاہروں کو جنم دیا تھا،ہفتہ کو نیوجرسی پہنچنے کے بعد انہوں نے کہا کہ اگر یہ مجھے دوبارہ حراست کی دھمکی دیں یا حتی کہ مجھے مارنے کی کوشش کریں،تب بھی میں فلسطین کے حق میں آواز بلند کرتا رہوں گا،میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ میں واپس جا کر وہی کام جاری رکھوں،فلسطینی حقوق کی وکالت ایک ایسی تقریر جو سزا کے بجائے سزا ہی ہونی چاہیے،کولمبیا یونیورسٹی سے چند بلاک کے فاصلے پر اپنی اہلیہ نور عبداللہ کے ساتھ دوبارہ ملنے کے بعد خلیل نے اپنے حامیوں،وکلا اور تمام انقلابی طلباء کو سلام پیش کیا جو کولمبیا اور پورے ملک میں احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں،میڈیا اور حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے سوال کیا کہ جانتے ہو! محمود خلیل کون ہے؟ پھر خود ہی اس کا جواب دیا کہ محمود خلیل انسانی حقوق کا محافظ ہے،محمود خلیل آزادی کا سپاہی ہے،محمود خلیل ایک پناہ گزیں ہے، محمود خلیل ایک شوہر اور باپ ہے اور سب سے بڑھ کر محمود خلیل ایک فلسطینی ہے،انہوں نے واضح کیا کہ رہائی کے بعد اب ان کا ہدف کولمبیا یونیورسٹی کے ان شرمناک ٹرسٹیوں کے خلاف جدوجہد ہوگا جو مزید 15 طلباء کو یونیورسٹی سے نکالنے اور درجنوں کو معطل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یا ان کے مستقبل،ان کی ڈگریوں اور ان کی محنت کو داؤ پر لگا رہے ہیں،صرف اس لیے کہ وہ فلسطین کے لیے کھڑے ہونے سے نہیں ڈرتے۔ یونیورسٹی ہر وہ حربہ آزما رہی ہے،تاکہ فری فلسطین کے الفاظ اس کے آس پاس بھی نہ سنائی دیں لیکن جب تک ہم یہاں ہیں فری فری فلسطین کہتے رہیں گے،اس پر مجمع نے نعرے بلند کئے،خلیل نے مزید کہا کہ کولمبیا یونیورسٹی نے ریالی کو اپنے حدود کے قریب ہونے سے روکنے کی کوشش کی صرف اس لیے کہ ہم انہیں یاد نہ دلاسکیں کہ وہ غزہ میں قتل عام کی مالی معاونت کررہے ہیں،پریس کانفرنس کے بعد محمود خلیل نے سینکڑوں حامیوں کے ہمراہ ایک pro palestine مارچ میں شرکت کی،جہاں مظاہرین نے کفایے پہنے، فلسطینی پرچم لہرائے، نسل کشی مخالف نعرے لگائے اور کولمبیا یونیورسٹی کی فلسطینی نواز طلبہ کے خلاف کاروائیوں کے خلاف احتجاج کیا۔
سوال یہ ہے کہ آج جب کہ فلسطین پر ظلم وبربریت کا ننگا ناچ ہورہا ہے،معصوم جانیں خاک وخوک میں تڑپ رہی ہیں اور بیت المقدس پر دشمن قابض ہے تو عرب دنیا کی قیادتیں اپنی عیاشیوں،ذاتی مفادات اور مغرب کی خوشنودی کے حصول میں اس قدر ڈوب چکی ہے کہ ان مظلوم مسلمانوں کے درد پر ذرہ برابر بھی انھیں افسوس نہیں ہے،یہ کتنے بے حس ہوچکے ہیں؟بلکہ بعض مواقع پر تو دشمن کے حملوں پر خاموش تماشائی نہیں بلکہ خوشی کا اظہار کرتی نظر آتی ہے،یہ وہی عرب دنیا ہے،جسکے پاس تیل کی دولت،افرادی قوت،بے پناہ وسائل اور سب سے بڑھکر قبلہ اول کی ذمہ داری ہے،لیکن انکی ترجیحات میں نہ دین باقی ہے،نہ امت اور نہ انسانیت انکی خاموشی دراصل انکی مردہ ضمیری کا اعلان ہے،کیا ہم اور آپ بھی ضمیر فروشی کا شکار ہوچکے ہیں یا ہمارے اندر ابھی ایمان کی کچھ رمق باقی ہے؟ اور کیا ہم محمود خلیل کی طرح یہ آواز اٹھانے کی پوزیشن میں ہیں کہ میں فلسطین میں نسل کشی پر خاموش نہیں رہ سکتا،غزہ اسوقت عہد جدید کا معرکہ کربلا ہے،جب ہم اس کربلا کو یاد رکھ سکتے ہیں تو پھر اس کربلا کو کیونکر بھلادیا جائے؟کربلا میں جوکچھ ہوا اس سےکئی گنا زیادہ غزہ میں ہورہاہے،توپھراسے کیسے بھلادیاجائے؟ ذرا غور تو کیجیے!
(مضمون نگار،معروف صحافی اورکل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری)
Comments are closed.