ریل گَن کی انقلابی دریافت : چین کے مہلک ترین ہتھیار سے دنیا حیران و ششدر

 

ازقلم : ڈاکٹر محمّد عظیم الدین (اکولہ،مہاراشٹر)

 

——————————

 

جدید عسکری تاریخ کے اُفق پر ایک ایسا مہلک اور انقلابی ہتھیار نمودار ہوا ہے جس نے جنگی حکمتِ عملی اور طاقت کے توازن کی پرانی بساط کو یکسر اُلٹ کر رکھ دیا ہے۔ یہ کوئی روایتی میزائل یا بارود سے چلنے والا توپ خانہ نہیں، بلکہ خالص برقی قوت اور مقناطیسی میدان کی ناقابلِ تصور طاقت کا شاہکار ہے، جسے ’’ریل گن‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی، جو کبھی سائنس فکشن اور تخیل کی دنیا تک محدود سمجھی جاتی تھی، آج ایک ٹھوس اور لرزہ خیز حقیقت بن کر چین کے بحری بیڑے کی زینت بن چکی ہے۔ یہ ایک ایسی پیش رفت ہے جس نے نہ صرف مغربی دفاعی اداروں، بالخصوص ریاست ہائے متحدہ امریکہ، کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے بلکہ مستقبل کی بحری جنگوں کا نقشہ بھی ہمیشہ کے لیے تبدیل کر دیا ہے۔

 

اس ہتھیار کی سب سے بڑی دہشت اس کی رفتار، خاموشی اور تباہی کی بے پناہ صلاحیت میں پوشیدہ ہے۔ آواز کی رفتار سے سات گنا زیادہ تیزی سے سفر کرنے والا ایک دھاتی گولہ، جو بغیر کسی دھماکے کے محض اپنی حرکی توانائی (Kinetic Energy) سے بحری جہازوں، بنکروں اور دفاعی تنصیبات کو ملیامیٹ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، بلاشبہ اکیسویں صدی کا سب سے بڑا عسکری انقلاب ہے۔ اس کہانی کا آغاز مغرب کے خوابوں سے ہوا لیکن اس کی تعبیر مشرق کے ہاتھوں میں لکھی تھی۔

 

اس داستان کا پہلا باب دو دہائی قبل ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی بحریہ کی راہداریوں میں لکھا گیا، جہاں دنیا کی پہلی فعال ریل گن بنانے کی دوڑ کا آغاز ہوا۔ امریکی انجینئروں نے ایک ایسے ہتھیار کا خواب دیکھا تھا جو برقی مقناطیسی توانائی کا استعمال کرتے ہوئے دھات کے ایک ٹکڑے کو ہائپر سانک رفتار سے داغ سکے۔ اس منصوبے پر اربوں ڈالر خرچ ہوئے اور ابتدائی تجربات کامیاب بھی رہے۔ لیکن جلد ہی اس خواب پر عملی مشکلات کے گہرے بادل چھانے لگے۔ اس نظام کو چلانے کے لیے توانائی کی جس بے پناہ مقدار کی ضرورت تھی، وہ کسی چھوٹے شہر کو روشن کرنے کے لیے کافی تھی، اور اسے کسی روایتی بحری جنگی جہاز پر نصب کرنا تقریباً ناممکن تھا۔ اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ہر فائر کے بعد پیدا ہونے والی شدید حرارت اور توانائی کی لہر خود ریل گن کی دھاتی پٹریوں کو پگھلا کر ناکارہ کر دیتی تھی۔ بالآخر، 2021 میں، پینٹاگون نے خاموشی سے اس منصوبے کو سرد خانے کی نذر کر دیا، اور یہ ایک مہنگے اور ناکام خواب کا اختتام تھا۔

 

لیکن جہاں مغرب میں ایک خواب بکھرا، وہیں مشرق میں ایک حقیقت جنم لے رہی تھی۔ چین، جو خاموشی سے امریکہ کی اس دوڑ پر نظر رکھے ہوئے تھا، نے امریکی ناکامیوں سے گہرا سبق سیکھا۔ انہوں نے وہی غلطی نہیں دہرائی۔ امریکیوں کے برعکس، چینیوں نے ریل گن کو کسی موجودہ ڈسٹرائر میں فٹ کرنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ انہوں نے پہلے اس عفریت کو توانائی فراہم کرنے والے ’’دل‘‘ کی تیاری پر توجہ مرکوز کی۔ انہوں نے اس وقت تک انتظار کیا جب تک وہ ایک ایسا طاقتور اور مستحکم توانائی کا منبع تیار نہ کر لیں جو ریل گن کی نہ ختم ہونے والی بھوک کو مٹا سکے، اور وہ حل تھا: بحری جہازوں پر نصب کیے جانے والے کمپیکٹ نیوکلیئر ری ایکٹرز۔ جلد ہی، سیٹلائٹ تصاویر کے ذریعے دنیا کو چین کے جدید ترین Type-055 ڈسٹرائر کے ایک نئے ویرینٹ کی جھلک ملی، جس پر نصب دیو ہیکل برج دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق چین کی پہلی آپریشنل ریل گن ہے۔

 

ریل گن کا طریقۂ کار طبیعیات کے بنیادی اصولوں پر مبنی ہے۔ اس میں دو متوازی دھاتی پٹریاں (Rails) ہوتی ہیں جن میں بے پناہ برقی وولٹیج دوڑایا جاتا ہے۔ جب ان پٹریوں کے درمیان ایک دھاتی گولہ (Slug) رکھ کر کرنٹ گزارا جاتا ہے تو ایک شدید مقناطیسی میدان پیدا ہوتا ہے۔ یہ میدان اور گولے میں بہنے والا کرنٹ ایک دوسرے پر جوابی قوت ڈالتے ہیں، جسے ‘لورینٹز فورس’ (Lorentz Force) کا اصول کہا جاتا ہے، اور یہی ناقابلِ تصور قوت گولے کو پٹریوں پر آگے کی طرف دھکیل کر آواز سے چھ یا سات گنا تیز رفتار عطا کرتی ہے۔ اس کا نتیجہ قیامت خیز ہے۔ یہ گولہ دھماکہ نہیں کرتا، بلکہ اپنی بے پناہ حرکی توانائی کی بدولت فولاد کی موٹی چادروں کو کاغذ کی طرح چیرتا ہوا گزر جاتا ہے۔ تصور کیجیے کہ 200 میل دور سے داغا گیا ٹنگسٹن کا ایک گولہ ایک بحری جنگی جہاز کے ڈھانچے میں ایک بڑا سوراخ کرتا ہوا اس کے اندرونی نظام کو تباہ کر دے۔

 

اس ٹیکنالوجی کے تزویراتی مضمرات ایک زلزلے سے کم نہیں۔ بحیرۂ جنوبی چین میں کسی ممکنہ تصادم کا منظر نامہ تصور کریں: ایک امریکی کیریئر اسٹرائیک گروپ گشت کر رہا ہے اور چین اپنے نئے ایٹمی طاقت سے لیس ڈسٹرائر کو میدان میں اتارتا ہے۔ ریڈار امریکی بحری بیڑے کو ٹریک کرتا ہے اور پھر۔۔۔ مکمل خاموشی۔ نہ کوئی دھواں، نہ میزائل کی لکیر، بس ایک لمحے کے لیے روشنی کا جھماکا۔ چند سیکنڈ کے اندر، پہلا گولہ ایک امریکی کروزر کے ایجس ڈیفنس سسٹم کو ناکارہ بنا دیتا ہے۔ دوسرا گولہ، اس سے پہلے کہ کوئی ردِعمل دے سکے، اس کے میزائل لانچنگ سسٹم کو تباہ کر دیتا ہے۔ اس جنگ میں، اصول صرف ایک ہے: جس نے پہلے گولی چلائی، وہی جیتا۔ ریل گن کا حملہ اتنا تیز اور چھوٹا ہوتا ہے کہ موجودہ میزائل دفاعی نظام اسے روکنے سے قاصر ہیں، جس سے یہ ایک فیصلہ کن برتری فراہم کرتا ہے۔

 

تاہم، اس تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھنا ضروری ہے۔ اگرچہ چین کی پیش رفت غیر معمولی ہے، لیکن یہ سمجھنا کہ اس نے تمام تکنیکی چیلنجز پر مکمل طور پر قابو پا لیا ہے، شاید قبل از وقت ہو۔ ریل گن کی پٹریوں کا طویل مدتی استعمال سے فرسودہ ہونا (barrel erosion)، انتہائی طویل فاصلے پر ہدف کواچوک نشانہ بنانے کی صلاحیت، اور شدید جنگی حالات میں اس کی قابلِ اعتمادی وہ پہلو ہیں جن پر شاید اب بھی تحقیق اور بہتری کی ضرورت ہو۔ چین نے توانائی کا مسئلہ نیوکلیئر ری ایکٹر سے حل کر لیا ہے، لیکن اس نظام کی پائیداری اور مسلسل آپریشنل تیاری اب بھی ایک سوالیہ نشان ہو سکتی ہے۔ ہر نئی ٹیکنالوجی کی طرح، ریل گن بھی میدانِ جنگ میں اپنی اصل آزمائش سے گزرے گی۔

 

اس کے ساتھ ساتھ، عسکری تاریخ گواہ ہے کہ ہر مہلک ہتھیار کا جواب ضرور تیار کیا جاتا ہے۔ یہ سمجھنا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی اس نئے خطرے کے سامنے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے، درست نہیں۔ ہتھیاروں کی یہ دوڑ اب ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ اس کا جواب دینے کے لیے مغربی طاقتیں نئی جوابی حکمتِ عملی پر کام کر رہی ہیں۔ ان میں ڈائریکٹڈ انرجی ویپنز (لیزر)، جو ہائپر سانک رفتار سے آنے والے گولوں کو فضا میں ہی ناکارہ بنا سکیں، جدید ترین سینسر گرڈز جو ریل گن کے پلیٹ فارم کو فائر کرنے سے پہلے ہی ٹریک کر لیں، اور خود اپنے ہائپر سانک ہتھیاروں کی تیاری شامل ہے۔ یہ ایک ایسی شطرنج کی بساط ہے جہاں ہر چال کا جواب ایک نئی اور زیادہ مہلک چال سے دیا جاتا ہے۔

 

ریل گن کی صلاحیتیں صرف بحری جنگ تک محدود نہیں۔ چین اسے زمین پر نصب کر کے سیٹلائٹ شکن ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کر سکتا ہے۔ آواز سے سات گنا تیز رفتار گولہ دو منٹ سے بھی کم وقت میں زمین کے نچلے مدار تک پہنچ کر کسی بھی سیٹلائٹ کو تباہ کر سکتا ہے، جس سے جی پی ایس اور مواصلاتی نظام مفلوج ہو سکتے ہیں۔ شہری علاقوں کو نشانہ بنانے یا بیلسٹک میزائلوں کو روکنے کے لیے اس کا استعمال بھی نظریاتی طور پر ممکن ہے، جس میں مصنوعی ذہانت کلیدی کردار ادا کرے گی، ایک ایسا شعبہ جس میں چین دنیا کی قیادت کر رہا ہے۔

 

حاصلِ کلام یہ ہے کہ ریل گن محض ایک ہتھیار نہیں، یہ جنگ کے ایک نئے فلسفے کا نام ہے۔ یہ ایک ایسی تزویراتی تبدیلی ہے جہاں بحری برتری کا انحصار اب میزائلوں کی تعداد پر نہیں، بلکہ توانائی کی رسد پر ہے۔ جو ملک بڑے پیمانے پر بجلی پیدا کرنے، ذخیرہ کرنے اور اسے فوری طور پر خارج کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، وہی مستقبل کی جنگوں کی رفتار کو کنٹرول کرے گا۔ چین کا ریل گن انقلاب اس بات کی یاد دہانی ہے کہ یہ سرد جنگ کا دور نہیں، بلکہ ایک نیا عہد ہے جہاں سوال یہ ہے کہ کون زیادہ تیزی سے، زیادہ سستے داموں، اور زیادہ دیر تک فائر کر سکتا ہے۔

 

آج ہم ایک ایسے موڑ پر کھڑے ہیں جہاں امریکہ نے ایک پروٹوٹائپ بنایا، اور چین نے ایک حقیقی اور فعال ہتھیار تیار کر لیا ہے۔ جو چیز کبھی نظریاتی طبیعیات اور سائنس فکشن کے دائرے میں تھی، وہ آج چینی جنگی جہازوں کے ڈیک پر سوار ہے، بارود سے نہیں بلکہ خالص برقی مقناطیسی قہر سے بھری ہوئی۔ اب دنیا کے سمندر اس کا میدانِ جنگ بن سکتے ہیں۔ یہ صرف ایک ہتھیار نہیں، بلکہ اس بات کی علامت ہے کہ طاقت کا توازن کس طرف اور کتنی تیزی سے منتقل ہو رہا ہے، اور ہتھیاروں کی دوڑ ایک ایسے نئے باب میں داخل ہو چکی ہے جہاں ہر تاخیر ایک ناقابلِ تلافی خطرہ ہے۔

Comments are closed.