اسلامی دنیا کی سیاسی خودکشی: شام، ابراہام معاہدے اور گولن ہائٹس

مَسْعُود مَحبُوب خان (ممبئی
"وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ”۔ اور تم ان لوگوں کی طرف ہرگز نہ جھکو جنہوں نے ظلم کیا، ورنہ تمہیں بھی آگ آ پکڑے گی۔ (ہود: 113)
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، جو محض عبادات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک فکری، اخلاقی، اور سیاسی نظام بھی پیش کرتا ہے۔ قرآن نے بارہا مسلمانوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ باطل کے ساتھ مصالحت نہ کریں اور نہ ہی ظلم و استبداد کے سامنے خاموش تماشائی بنیں، کیونکہ ظلم کے ساتھ خاموشی، گناہ میں شرکت کے مترادف ہے۔ اُمّتِ مسلمہ ایک ایسا جسم ہے، جس کے کسی ایک حصے کو چوٹ لگے تو پورا جسم تڑپ اٹھتا ہے۔ مگر افسوس کہ آج یہی اُمّت، اپنے وجود پر لگنے والے زخموں کو مصلحت کی پٹیوں سے ڈھانپ رہی ہے، اور اپنے مظلوم بھائیوں کے لہو سے سیاست کی شطرنج کھیل رہی ہے۔
قبلۂ اوّل کی حرمت، فلسطین کی جدوجہد، اور اسلامی وحدت کا تقاضا یہی ہے کہ مسلم قیادتیں ہر اس معاہدے اور سمجھوتے کو رد کریں جو صیہونیت کی بالادستی کو تسلیم کرنے کے مترادف ہو۔ مگر موجودہ منظرنامہ ایک ایسے اخلاقی بحران کی نشاندہی کرتا ہے جس میں ضمیر کی آوازیں خاموش، اور مفادات کی صدائیں بلند ہو چکی ہیں۔ یہ مضمون اسی فکری و اخلاقی بحران پر ایک تفصیلی نگاہ ہے۔ شام جیسے ملک کی طرف سے ابراہام معاہدوں کی حمایت اور گولن ہائٹس پر خاموشی، محض سیاسی حکمتِ عملی نہیں، بلکہ ایک فکری و تہذیبی انحراف کا آئینہ ہے، جو ملّتِ اسلامیہ کے لیے ایک بیداری کا لمحہ ہے۔
سیاست اگر اصولوں سے عاری ہو جائے تو وہ محض چالاکی کا کھیل بن جاتی ہے، اور اگر کسی ملّت کی قیادت بے ضمیر ہو جائے تو وہ ملّت خود فریب میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ شام — وہی ملک جہاں خلافتِ اُمیہ کی عظمت نے جنم لیا، جہاں دمشق کی فضاؤں سے اسلام کی روشنی پھیلی، آج اپنی تاریخ، عقیدے، اور وحدتِ ملّت کے برعکس ایسے فیصلوں کی راہ پر گامزن ہے جو اُمّتِ مسلمہ کی اجتماعی روح کو چور چور کر رہے ہیں۔ شام کی نئی حکومت کی جانب سے ابراہام معاہدوں کی حمایت اور گولن ہائٹس کے مسئلے پر خاموش مفاہمت ایسے اقدامات ہیں جو نہ صرف سیاسی بصیرت کے فقدان کی علامت ہیں بلکہ ایک اخلاقی و تہذیبی زوال کا مظہر بھی۔
ابراہام معاہدہ دراصل اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرنے کا منصوبہ ہے جس کے تحت اسرائیل کو مشرقِ وسطیٰ کی ایک جائز ریاست تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ امریکہ کی سرپرستی میں یہ معاہدہ چند عرب ریاستوں کے ذریعے نافذ کیا گیا، جس کی روح میں فلسطینی مزاحمت کو دبانا، قبلۂ اوّل کی اہمیت کو مٹانا، اور صیہونی عزائم کو تقویت دینا شامل ہے۔ شام، جو خود اسرائیلی جارحیت کا شکار رہا ہے، خاص طور پر جس کی گولن کی پہاڑیاں آج بھی اسرائیل کے قبضے میں ہیں، جب وہ ابراہام معاہدے کی حمایت کرے تو یہ سیاسی منافقت سے بڑھ کر تاریخی بے وفائی کا نشان بن جاتا ہے۔ یہی شام ماضی میں فلسطینی کاز کا علمبردار تھا، جہاں سے "القدس لنا” کی صدائیں اٹھتی تھیں۔ اب اگر یہی ملک صیہونی طاقتوں کے ساتھ مفاہمت کرے تو یہ ضمیر کے دیوالیہ پن کی بدترین مثال ہے۔
شام کی حمایت ایک علامتی اعلان ہے کہ اسلامی وحدت صرف کتابی نعرہ رہ گئی ہے، اور اب مسلمان ممالک قومی مفاد کی آڑ میں استعماری منصوبوں کا حصّہ بننے لگے ہیں۔ جب ایک کے بعد ایک مسلم ریاست اسرائیل کو تسلیم کرے، تو فلسطینی مزاحمت تنہا ہوتی چلی جاتی ہے۔ شام کی حمایت اس تنہائی کو مزید گہرا کرے گی۔ اسرائیل اس حمایت کو ایک سیاسی فتح سمجھ کر اپنے قدم عرب دنیا میں اور مضبوطی سے جما لے گا۔ اس کا براہِ راست اثر قبلۂ اوّل پر پڑے گا، جسے محض ایک سیاحتی مقام بنا دیا جائے گا۔ یہ وقت علماء، مفکرین، اور نوجوان دانشوروں کے لیے آزمائش کا وقت ہے کہ وہ اسلام کی اصل روح — عدل، حریت، مزاحمت اور وفاداری — کو اجاگر کریں اور سیاسی چالاکیوں کے پردے چاک کریں۔
"اگر تمہارے دل میں اُمّت کے زخموں کا درد نہیں، تو تمہاری مسکراہٹ بھی ایک دھوکہ ہے”۔ کبھی کچھ زمینیں صرف جغرافیہ نہیں ہوتیں، وہ ضمیرِ ملّت کا حصّہ بن جاتی ہیں؛ ان کا سودہ فقط سرحدوں کا نہیں، بلکہ غیرت، وفا اور خونِ شہیداں کا سودا ہوتا ہے۔
گولن ہائٹس — شام کی وہ سر زمین جو 1967ء کی جنگ کے بعد اسرائیل کے قبضے میں چلی گئی — آج شام کی نئی حکومت کی خاموشی کے باعث ایک خطرناک سمجھوتے کی علامت بن چکی ہے۔ دنیا نے اس قبضے کو کبھی تسلیم نہیں کیا، مگر آج کی سیاسی مصلحت نے شام کو اس سر زمین سے عملاً دستبردار کرا دیا ہے۔ شام کی خاموشی اسرائیل کو نہ صرف گولن ہائٹس پر مزید حق جتانے کی اجازت دے گی بلکہ اسے پورے خطے میں مزاحمت کے خاتمے کا اشارہ بھی ملے گا۔ غزہ پہلے ہی مصر، اسرائیل اور سمندر سے گھرا ہوا ہے۔ شام کی حمایت مزاحمت کے حلقے سے ایک اور ملک کی کمی کو ظاہر کرتی ہے۔ گولن ہائٹس کا سودا صرف زمین کا نہیں بلکہ اسلامی حمیت، مزاحمت کے اخلاص، اور اُمّت کی غیرت کا سودا ہے۔
اے شام! جب تُو نے گولن ہائٹس کی مٹی کو سوداگروں کے حوالے کیا، تو غزہ کی ماؤں نے اپنے بیٹوں کو قبروں میں دفناتے وقت پوچھا ہوگا: یہ خون کس قیمت پر بیچا گیا؟ غزہ کے وہ بچّے، مائیں، اور نوجوان جو صیہونی جارحیت کے خلاف ڈٹے رہے، اب ایک بار پھر تنہائی، بے بسی اور دھوکے کے سائے میں آ گئے ہیں۔ یہ وقت صرف نعرے بازی کا نہیں، بلکہ عمل، اتحاد اور بیداری کا ہے۔ فلسطین کا مسئلہ صرف فلسطین کا نہیں، بلکہ پوری ملّتِ اسلامیہ کا اجتماعی ضمیر ہے۔ جو قومیں اپنے شہیدوں کے خون کی قیمت پر سیاسی مفاد اٹھاتی ہیں، وہ تاریخ میں کبھی سرخرو نہیں ہوتیں۔ "گولن ہائٹس کا سودا ایک ایسی دستاویز ہے جس پر خون سے نہیں، ضمیر کی مردنی سے دستخط ہوئے ہیں”۔
وقت آ چکا ہے کہ ملّتِ اسلامیہ کے نوجوان، مفکرین اور اہلِ علم سیاسی حقیقتوں کو بے نقاب کریں، اسلامی اخوت کی روح کو زندہ کریں، اور ان معاہدوں کے خلاف آواز بلند کریں جو ہمیں دشمنوں کے قدموں میں گرانے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ شام کا فیصلہ صرف شام کا نہیں، بلکہ پوری اُمّت کی آئندہ نسلوں کے مقدر کا فیصلہ ہے۔ "کیا وہ اُمّت، جو اپنے شہیدوں کے لہو کی قدر نہ کرے، حق کی پاسبانی کا دعویٰ کر سکتی ہے؟” آج جب شام جیسے تاریخی اور مزاحمتی مرکز نے استعمار کے دباؤ میں آ کر اپنی سمت بدل لی ہے، تو یہ صرف ایک ملک کا فیصلہ نہیں، بلکہ اُمّتِ مسلمہ کے اجتماعی شعور کا امتحان ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم جذباتی غفلت، لسانی تفرقے اور قومی خود غرضی سے باہر نکل کر اُمّتِ واحدہ کے اس تصور کو عملی شکل دیں جس کی بنیاد نبی کریمﷺ نے مدینہ کی گلیوں میں رکھی تھی۔
ہمیں سوچنا ہوگا کہ اگر قبلۂ اوّل کی حرمت، فلسطینی مزاحمت کا حق، اور شہیدوں کے خون کی قیمت ہم نے عالمی سیاست کی میز پر رکھ دی، تو ہم تاریخ میں اپنی کوئی جگہ نہ پا سکیں گے، نہ اللّٰہ کے حضور، نہ آنے والی نسلوں کے سامنے۔ یہ وقت شعور کی بیداری، قومی غیرت کی واپسی، اور فکری و دینی استقامت کا ہے۔ ہمیں وہی زبان، وہی قلم، وہی سچائی، اور وہی مزاحمت دوبارہ زندہ کرنا ہوگی جو سید قطب شہید کی پھانسی گاہ پر بولی گئی، جو شہید اسماعیل ہانیہ کی آنکھوں میں چمکتی تھی، اور جو غزہ کے بچّوں کی مٹھیوں میں بند کنکریوں میں اب بھی سانس لیتی ہے۔ اب فیصلہ اُمّت کے باشعور افراد کے ہاتھ میں ہے! وہ اہلِ علم، اہلِ قلم، اور اہلِ درد، جو صرف تقریر نہیں، تحریر نہیں، بلکہ کردار کی طاقت سے وقت کی کج روی کو سیدھا کر سکتے ہیں۔
ہمیں اپنے ربّ کے اس فرمان کو یاد رکھنا ہوگا: اے ایمان والو! اللّٰہ کے لیے قائم رہنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بنو۔ (المائدہ: 8)۔ اگر ہم آج بھی خاموش رہے، تو تاریخ ہم پر خاموش نہیں رہے گی۔ اور اگر ہم نے سچ کا ساتھ نہ دیا، تو جھوٹ ہمارے بچوں کا مقدر بن جائے گا۔ اے اُمّتِ مسلمہ! اب جاگنے کا وقت ہے، بصیرت کا چراغ جلانے کا وقت ہے، اور وفا کے عہد کی تجدید کا وقت ہے۔
Comments are closed.