خلع کی حقیقت اور بعض ضروری وضاحتیں

شمع فروزاں
فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ العالی
صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ
ابھی چند دنوں پہلے مؤرخہ: ۲۴؍جون ۲۰۲۵ء کو تلنگانہ ہائی کورٹ نے محمد عارف علی بنام سیدہ افسر النساء کے مقدمہ میں خلع سے متعلق ایک فیصلہ دیا ہے، یہ جسٹس موسمی بھٹا چاریہ اور جسٹس بی آر مدھو سودن راؤ پر مشتمل دو رکنی بینچ کا فیصلہ ہے، عدالت نے اپنے خیال کے مطابق مظلوم خواتین کو آسانی پہنچانے کی کوشش کی ہے؛ لیکن عدالتوں کی معلومات چوں کہ شرعی معاملات میں ثانوی اور بالواسطہ ہوتی ہیں؛ اس لئے اس کی وضاحت میں کئی جگہ چوک ہوئی ہے، اس فیصلہ سے بنیادی طور پر جو بات واضح ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ خلع پوری طرح بیوی کے اختیار میں ہے، جیسے شوہر طلاق دے سکتا ہے، اسی طرح بیوی اپنے شوہر کو خلع دے سکتی ہے، نہ یہ کسی وجہ پر موقوف ہے، نہ شوہر کی منظوری پر، اس بنیاد پر خلع کو بلا شرکت ِغیر بیوی کا حق مانا گیا ہے، اور یہ بھی کہ خلع میں شوہر کی طرف سے معاوضہ کا مطالبہ صحیح نہیں ہے۔
اس سلسلہ میں تین باتیں اہم ہیں: اول یہ کہ کیا شریعت میں خلع تنہا عورت کا فیصلہ ہے یا شوہر اور بیوی کی باہمی صلح اور مفاہمت پر مبنی عمل ہے؟ دوسرے: خلع میں عورت کی طرف سے کسی عوض کے ادا کرنے کی کیا حیثیت ہے؟ تیسرے: اگر خلع تنہا بیوی کے اختیار میں نہیں ہے تو ان خواتین کی مشکلات کا حل کیا ہے، جن کے شوہر ان کا حق ادا نہیں کرتے اور باوجود مطالبہ کے طلاق بھی نہیں دیتے؟ اس سلسلہ میں نکاح اور اس کے بعد علیحدگی کے سلسلہ میں اسلام کے پورے تصور کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
شریعت میں بحیثیت مجموعی علیحدگی کی چھ صورتیں ہیں: طلاق، خلع، متارکہ، لعان، ایلاء اور فسخ نکاح، یہ چھ صورتیں مختلف نوعیتوں کے اعتبار سے ہیں، ورنہ تو بنیادی طور پر علیحدگی کی دو ہی صورتیں ہیں، ایک: طلاق، دوسرے: فسخ نکاح، نکاح کبھی قاضی کے ذریعہ فسخ ہوتا ہے اور کبھی مانع ِنکاح کے پیدا ہو جانے کی وجہ سے از خود فسخ ہو جاتا ہے، طلاق کی متعدد شکلوں میں سے ایک خلع ہے، خلع میں دو باتیں وہ ہیں، جو اِس کو علیحدگی کی دوسری شکلوں سے ممتاز کرتی ہیں، ایک یہ کہ اس میں شوہر ہی طلاق دیتا ہے؛ لیکن دونوں فریق کی رضامندی شامل ہوتی ہے، دوسرے: بیوی طلاق کے عوض یا تو کوئی مال ادا کرتی ہے یا اپنے کسی مالی حق سے دستبردار ہوتی ہے۔ (البنایہ شرح الہدایہ:۵؍۵۰۷، کتاب الطلاق، باب الخلع) اُصولی طور پر اس کے درست ہونے پر فقہاء کا تفاق ہے۔
اس سلسلہ میں سورۂ بقرہ کی آیت نمبر:۲۲۹؍ بہت واضح ہے:
’’طلاق دو مرتبہ ہے، پھر یا تو بھلے طریقہ پر روک رکھنا ہے، یا بہتر طریقہ پر چھوڑ دینا ہے‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے طلاق کے احکام َ واضح فرما دئیے ہیں، اور نکاح کن حالات میں فسخ کیا جائے اس کی طرف بھی اشارہ کر دیا گیا ہے، طلاق کا حکم یہ بیان کیا گیا ہے کہ طلاق ایک یا دو دفعہ ہی دینا چاہئے؛ کیوں کہ اس صورت میں گزشتہ نکاح کو باقی رکھنا ممکن ہے، اور دونوں کے لئے غور وفکر کا موقع باقی رہتا ہے، اگر کوئی مرد تیسری طلاق دے دے تو پھر دوبارہ رشتہ نکاح استوار کرنے کا موقع نہیں ہے، سوائے اس کے کہ اتفاق سے عورت کا دوسرا نکاح ہوا، اور سوئے اتفاق اس دوسرے شوہر سے بھی اس کا رشتہ قائم نہیں رہ سکا، تو اب وہ دونوں دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں، آگے قرآن مجید نے کہاہے:
’’ تمہارے یعنی مردوں کے لئے یہ بات جائز نہیں کہ جو کچھ تم ان کو دے چکے ہو، ان میں سے کچھ لے لو، سوائے اس کے کہ دونوں کو خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے،( یعنی مزاج میں موافقت قائم نہیں رہ سکے گی اور اندیشہ ہو کہ شریعت نے شوہر وبیوی کے ایک دوسرے پر جو حقوق رکھے ہیں، وہ ادا نہیں کر سکے گا) تو اُن دونوں پر اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ عورت فدیہ ادا کر دے،( یعنی کچھ دے کر اپنے آپ کو رشتہ نکاح سے آزاد کر لے) اور جو اللہ تعالیٰ کی حدوں سے تجاوز کریں گے، وہی ہیں ظلم کرنے والے‘‘
اس آیت میں خلع کا حکم آیا ہے اور خلع کے سلسلہ میں تین احکام دئیے گئے ہیں، اول یہ کہ خلع کا تعلق شوہر اور بیوی کے آپسی معاہدہ سے ہے ، اگر یہ دونوں محسوس کریں کہ وہ نکاح کے تقاضوں کو پورا نہیں کر سکیں گے تو وہ خلع کے ذریعہ علیحدگی کا فیصلہ کر سکتے ہیں؛ اس لئے اس میں شوہر اور بیوی دونوں سے متعلق کہا گیا ہے ’’ اگر وہ محسوس کریں کہ وہ اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو اُن کے الگ ہو جانے میں کوئی حرج نہیں ہے‘‘ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جیسے شوہر کے لئے کسی معقول سبب کے بغیر طلاق دینا درست نہیں ہے اور یہ گناہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو مبغوض حرکت قرار دیا ہے، طلاق اسی وقت دینی چاہئے ، جب اس کی کوئی معقول وجہ ہو، اسی طرح عورت کا بھی کسی مناسب سبب کے بغیر خلع کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے؛ بلکہ خلع ایسی صورت حال میں ہونا چاہئے جب زوجین کو اندیشہ ہو کہ وہ ایک دوسرے کے حقوق کو صحیح طور پر ادا نہیں کر سکیں گے، تیسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ باہمی رضامندی سے علیحدگی کی ایک صورت تو یہ ہے کہ شوہر کی طرف سے کسی عوض کا مطالبہ نہیں ہو، یہ بھی جائز ہے، فقہی اعتبار سے یہ علیحدگی طلاق کہلائے گی، اور باہمی رضامندی سے علیحدگی کی دوسری صورت یہ ہے کہ شوہر طلاق کا معاوضہ چاہتا ہو، اور بیوی اس کو قبول کر لے، جیسے مہر باقی ہو اور شوہر کہے کہ مہر معاف کر دیا جائے، یا نفقہ کی کچھ رقم اس کے ذمہ باقی ہو اور وہ اس کی معافی چاہتا ہو، یا نکاح کے وقت شوہرنے بیوی کو زیور دیا ہو اور وہ اس کی واپسی کا طلبگار ہو، یا مالی مطالبہ کی کوئی اور صورت ہو، یہ تمام صورتیں خلع کہلائیں گی، جس کو اس آیت میں ’’افتدت بہ‘‘ ( کچھ دے کر قید نکاح سے آزاد کرے)کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے، اس کی بھی گنجائش ہے؛ لیکن بہر حال شوہر کی طرف سے طلاق کا عوض طلب کرنا اچھا عمل نہیں ہے؛ چنانچہ ایک اور موقع پر قرآن نے کہا ہے ’’ اگر تم نے اپنی بیوی کو بے شمار مال دے دیا ہے تب بھی تم اس میں سے کسی چیز کی واپسی کا مطالبہ نہیں کرو؛ بلکہ قرآن نے اس کو کھلا ہوا گناہ ’’ اثم مبین‘‘ قرار دیا ہے، (نساء: ۲۰) اور شوہر کو نہایت مؤثر نصیحت کی گئی ہے کہ تم ایک دوسرے سے فائدہ اٹھا چکے ہو اور نکاح کی صورت میں بیوی سے مؤکد وعدہ کر چکے ہو، اس کے بعد کیا تم کو یہ بات زیب دیتی ہے کہ تم اپنی دی ہوئی کسی چیز کی واپسی کا مطالبہ کرو؟ (دیکھئے: نساء، آیت نمبر: ۲۱) اس سے معلوم ہوا کہ خلع عوض کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے، اس سلسلہ میں فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر خلع کی وجہ شوہر کی زیادتی ہو تو بیوی سے کسی عوض کا مطالبہ مکروہ تحریمی یعنی قریب بہ حرام ہے اور اگر عورت کی زیادتی کی وجہ سے یہ نوبت آئی ہو تب بھی شوہر کو جو مہر اس نے ادا کیا ہے، اس سے زیادہ کا مطالبہ کرنا مکروہ تحریمی ہے، مشہور فقیہ علامہ سمرقندی نے اسے بہت واضح طور پر لکھا ہے:’’ اگر شوہر کی طرف سے زیادتی ہو تو اس کے لئے جائز نہیں کہ اس میں سے بیوی سے وصول کرے ……… اور اگر زیادتی بیوی کی طرف سے ہو تو اس کے لئے اس حد تک لینا جائز ہے، جو اس نے بیوی کو دیا تھا، یعنی مہر کی مقدار اور مرد کے لئے اس سے زیادہ لینا جائز نہیں، یہی ظاہر روایت ہے، ( تحفۃ الفقہاء، باب الخلع:۲؍۲۰۰)
عوض کی بنیاد پر علیحدگی کی ایک اور صورت بھی ہے، جس کو اصطلاح میں ’’ مبارأت‘‘ کہتے ہیں، یعنی شوہر وبیوی کی باہمی رضامندی سے طلاق ہو جائے اور دونوں طے کر لیں کہ ایک دوسرے پر اُن کے جو حقوق اور بقایا ہیں، وہ اس سے بری ہو جائیں گے، اگر بیوی کا شوہر کے ذمہ کچھ باقی ہو تو شوہر بری ہو جائے گا اور شوہر کا بیوی کے ذمہ کچھ باقی ہو تو بیوی بری ہو جائے گی، اسلام سے پہلے باہمی معاہدہ کے ساتھ رشتۂ نکاح کو ختم کرنے کا یہ بھی ایک طریقہ تھا، اور اسلام نے اس کو کو باقی رکھا، یہ بھی اپنے مقصد کے اعتبار سے خلع ہی کی ایک صورت ہے، حاصل یہ ہے کہ اگر شوہر وبیوی کے درمیان ناموافقت پیدا ہو جائے اور دونوں مل کر طے کریں کہ بیوی اپنے بعض حقوق معاف کر دے گی ، یا شوہر کو کچھ دے دے اور شوہر اس کو طلاق دے دے تو اس کی گنجائش ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ بعض اوقات شوہر طلاق دینے کو تیار نہیں ہوتا، اسبابِ فسخ یا تو موجود نہیں ہوتے یا بیوی اس کو ثابت کرنے کے موقف میں نہیں ہوتی، اس کے نتیجہ میں سخت اختلاف اور نفرت کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے، رشتۂ نکاح باقی رہتا ہے؛ لیکن نکاح کے مقاصد فوت ہو جاتے ہیں، ایسی صورت میں مسئلہ کو حل کرنے کے لئے کیا تدبیر اختیار کی جا سکتی ہے؟ اس سلسلہ میں اوپر سورہ بقرہ آیت نمبر ۲۲۰؍ کے ضمن میں یہ اشارہ ملتا ہے کہ بیوی کو زور زبردستی کے ساتھ روک کر رکھنا اور اس پر ظلم وزیادتی کرنا جائز نہیں، قرآن نے ’’ امساک بالمعروف اور تسریح باحسان ‘‘ کہا ہے، یعنی بھلے طریقہ پر رشتہ کو قائم رکھنا یا بہتر طریقہ پر رشتہ کو ختم کر دینا واجب ہے، اگر شوہر ایسا نہیں کرتا ہے تو وہ ظلم کا مرتکب ہے، اور جہاں کوئی شخص دوسرے کے ساتھ ظلم کرے تو قاضی کا کام ہے کہ وہ ظالم کو ظلم کرنے سے روک دے اور مظلوم کو اس سے بچائے، یہ فریضہ شرعی عدالت کا ہے، یہی صورت ’’ فسخ نکاح ‘‘ کی ہے، یعنی شوہر سے اجازت لئے بغیر انصاف قائم کرنے اور ناانصافی کو روکنے کے لئے عدالت شوہر وبیوی کے درمیان علیحدگی کا فیصلہ کردے۔
البتہ فسخ نکاح کے لئے کوئی مناسب سبب اور اس کو ثابت کرنا ضروری ہے، جیسے شوہر بیوی کو مارپیٹ کرتا ہو، یا ایسی بیماری میں مبتلا ہو کہ بیوی کے حقوق ادا نہیں کر پاتا ہو، یا نفقہ نہیں دیتا ہو وغیرہ، دوسری صورت یہ ہے کہ شوہر کی طرف سے ظلم کا ارتکاب نہیں ہو ؛ لیکن دونوں کے درمیان بہت زیادہ ناموافقت ہو، ایسی صورتوں میں قرآن مجید نے کہا ہے کہ عدالت دو مناسب افراد کو اُن کے مسائل کو سننے اور ان کے معاملات کو حل کرنے کے لئے حَکَم بنائے، یہ دونوںحضرات اس نتیجہ پر پہونچیں کہ خوش گوار طریقہ پر یہ رشتہ نہیں چل سکتا تو پھر امام مالکؒ کے نزدیک اس رشتہ کو خود حَکمین ختم کر سکتے ہیں، جس کے لئے شوہر کی اجازت ضروری نہیں ہے، اس طریقہ کا سورہ نساء: ۳۵؍ میں ذکر آیا ہے، اور اس کی کئی نظیریں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ملتی ہیں، حضرت ثابت ابن قیسؓ کی بیوی حضرت جمیلہؓ نے بارگاہ ِنبوی میں اپنی درخواست پیش کی کہ وہ حضرت ثابتؓ سے علیحدگی چاہتی ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صورت حال کا جائزہ لے کر اُن کے درمیان تفریق کر دی؛ البتہ حضرت ثابتؓ نے ان کو اپنی طرف سے ایک باغ دیا تھا، وہ چاہتے تھے کہ اُن کو اُن کا باغ واپس مل جائے، حضرت جمیلہؓ نے اس کو قبول کر لیا اور باغ واپس کر دیا، (فتح الباری: ۱۰؍۵۵، دار قطنی:۳؍۲۵۵، باب المہر، سنن بیہقی، حدیث نمبر: ۳۱۴۳۷، باب الوجہ الذی تحل بہ الفدیہ)
بہر حال اس فیصلہ میں دو باتیں اہم ہیں، اول یہ کہ محترم جج صاحب نے قانون شریعت کا حوالہ دیا تو ہے؛ لیکن قانون شریعت کی ترجمانی میں ان سے غلطی ہوئی ہے، انھوں نے خلع کو پوری طرح بیوی کے اختیار میں دے دیا ہے، یہ بات نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں اور یہ سماجی حکمتوں اور مصلحتوں کے بھی خلاف ہے، اللہ تعالیٰ نے خواتین کی فطرت میں جذباتیت اور جلد متأثر ہونے کی کیفیت رکھی ہے اور یہ کوئی عیب نہیں؛ بلکہ ایک اچھی ماں اور محبت کرنے والی بیوی کے لئے ضروری ہے، جذبات کی فراوانی ہی اس کو اپنی اولاد اور اپنے شوہر کے لئے سب کچھ برداشت کرنے کا حوصلہ دیتی ہے؛ اس لئے اگر عورت کو یک طرفہ طور پر خلع کا اختیار دے دیا جائے تو ازدواجی رشتے کمزور ہو جائیں گے، خاندانی نظام بکھر کر رہ جائے گا،یہ چیز پورے سماج کے لئے نقصان دہ ہوگی، مردوں کے لئے بھی، عورتوں کے لئے بھی اور بچوں کے لئے بھی، اس کے نتیجہ میں مغربی ملکوں میں جو صورت حال ہے، وہ پوری دنیا کے سامنے ہے، مردوں کے اندر جذبات پر کنٹرول کرنے کی اور سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کی صلاحیت نسبتاََ زیادہ ہے؛ اس لئے اسلام نے اس کو طلاق کا حق دیا ہے اور احتیاط کے ساتھ اس کو استعمال کرنے کی تلقین کی ہے،پھر بھی سماج میں اس حق کا جس طرح غلط استعمال ہو رہا ہے، وہ ہمارے سامنے ہے، اگر خواتین کو رشتہ نکاح کو ختم کرنے کی بلا قید اجازت دے دی جائے تو یہ بے حد نقصان دہ بات ہوگی۔
یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ قانون کسی گروہ کے مجموعی مزاج کو سامنے رکھ کر بنایا جاتا ہے، ایسا ہو سکتا ہے کہ بعض خواتین تعلیم ، سمجھداری، دینی اور اخلاقی تربیت کی وجہ سے ایسی نہ ہوں کہ اپنے اس حق کا غلط استعمال کریں، اور یقیناََ ایسی بہت سی خواتین موجود ہیں؛لیکن ایسی استثنائی صورتوں پر سماج کے لئے بنائے گئے عمومی قانون کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔
دوسرا پہلو علماء کے لئے اہم ہے کہ ایسی مظلوم عورتوں کے لئے خلع کو آسان کیا جائے، کتاب وسنت کی تعلیمات اور فقہاء کی تشریحات کو سامنے رکھ کر خلع کے لئے ایک جامع قانون کا خاکہ مرتب کیا جائے؛ تاکہ خدا نا ترس شوہر اپنے حق کو ظلم وزیادتی کا ذریعہ نہ بنائیں اور شریعت کی بدنامی کا سبب نہ بنیں، حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے نکاح فسخ کرنے کے اسباب میں فقہ مالکی کی رائے سے استفادہ کرتے ہوئے اسباب فسخ کی رہنمائی کی ہے، جس کو امت کے علماء نے قبول کیا، انھوں نے ۵؍ اسباب فسخ پیش کئے، حضرت مولانا عبدالصمد رحمانیؒ —جو ایک بڑے فقیہ تھے اور ان کو کارِ قضاء کا وسیع تجربہ تھا—نے اس سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے ۱۴؍ اسباب فسخ بیان کئے، اور اس موضوع پر بڑی عمدہ کتاب ’’ کتاب الفسخ والتفریق‘‘ کے نام سے لکھی، جس پر آج ہندوستان بھر میں دارالقضاؤں اور محاکم شرعیہ کا عمل ہے، پھر جب آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے ’’ مجموعہ قوانین اسلامی ‘‘مرتب کیا تو اس میں بعض اضافوں کے ساتھ ۱۶؍ اسباب فسخ کی نشاندہی کی ہے، ان ساری کوششوں کا مقصد مظلوم عورتوں کی داد رسی ہے، اسی سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے خلع سے متعلق علماء اور اصحاب افتاء کی طرف سے ایک ایسا مسودہ مرتب ہونا چاہئے، جو عورتوں کو ظلم سے بچانے کا ذریعہ ہو سکے، جو شریعت کے دائرہ میں ہو اور موجودہ سماجی حالات سے ہم آہنگ ہو۔
فی الحال اس کا ایک حل یہ ہے کہ ملک بھر میں وقف بورڈ کے تحت یا آزادانہ طور پر جو نکاح نامے مروج ہیں، ان میں یہ شرط بڑھا دی جائے کہ اگر ہم دونوں کے درمیان کوئی اختلاف ہو تو فلاں ادارہ اس میں فیصلہ کرنے کا مجاز ہوگا، چاہے وہ علیحدگی کا فیصلہ ہو اور ہم دونوں اس کے ماننے کے پابند ہوں گے، جس کمیٹی کو حَکَم بنایا جائے، وہ کسی ذمہ دار اور متفق علیہ ادارہ جیسے’’ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ‘‘ وغیرہ کی نگرانی میں ہو، اور اس کمیٹی میں ایسے معتبر اصحاب علم ہوں، جو غیر جانب داری کے ساتھ شریعت کے مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کریں، یہی کمیٹی تحکیم کا فریضہ انجام دے اور جن معاملات میں رشتوں میں بہت تلخی پیدا ہوگئی ہو، وہاں بحیثیت حَکَم خلع کا فیصلہ کرے، اس صورت میں ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ معاملہ کی نوعیت کے اعتبار سے یہ کمیٹی بیوی کے واجبات کو معاف کر دے، اور شوہر کی طرف سے طلاق دے دے (راقم الحروف نے اپنی تالیف جدید فقہی مسائل کے چوتھے حصہ میں اس موضوع پر تفصیل سے بحث کی ہے)
بہر حال یہ ایک اہم مسئلہ ہے، یہ بھی درست نہیں ہے کہ خلع کے سلسلہ میں عورتوں کو مکمل اختیار دے دیا جائے، جس سے خاندانی نظام میں فرق آجائے اور یہ بھی ضروری ہے کہ خواتین کو ظلم وزیادتی سے بچایا جائے اور خواہی نخواہی ان کو ایک ناپسندیدہ رشتہ کی زنجیر میں باندھ کر نہ رکھا جائے۔
Comments are closed.