اخلاق کی دولت سے ہم کیوں محروم ہو گئے؟

 

مولانا محمد قمر الزماں ندوی……

مدرسہ نور الاسلام، موئی کلاں، کنڈہ، پرتاپ گڑھ 9506600725

 

حفیظ جالندھری کی روایت ھے کہ ایک انتخابی مہم کے دوران ایک روز کسی جلسے سے خطاب کے بعد علامہ اقبال ان کے ساتھ اندرون لاھور کی گلیوں سے ھوتے ھُوئے پیدل واپس آ رھے تھے۔ چونکہ امیدوار تھے، اس لیے راستے میں جو بھی ملتا اُسے سلام کرتے۔

ایک شخص کو علامہ نے سلام کیا۔ وہ شاید ان کے مخالف امیدوار ملک محمد دین کا حمایتی تھا، اس نے جواب میں دھوتی اُٹھا دی اور ننگا ھو گیا۔

اقبال جب تھکے ہارے گھر جا رھے تھے، تو نہایت بجھے ھوئے لہجے میں حفیظ جالندھری سے کہنے لگے: ’’اس قوم کے مصائب کے سبب میری راتوں کی نیند اچاٹ ھے ،لیکن اس کے افراد اخلاق اور مروت کی دولت سے کیوں محروم ھیں؟‘‘

حفیظ جالندھری نے اپنے مخصوص جالندھری انداز میں علامہ کو تسلی دیتے ھوئے جواب دیا , ’’ڈاکٹر صاحب! قوم کے پاس جو کچھ ھے، وہ اس نے آپ کو دکھلا دیا۔ اس میں مغموم ھونے والی کیا بات ھے؟ ‘‘

ڈاکٹر جاوید اقبال نے لکھا ھے کہ حفیظ کی یہ بات سُن کر اقبال کھلکھلا دیے اور ان کی ساری کدورت دُور ھو گئی۔

بحوالہ: (حرفِ بے آمیز روزنامہ خبریں۱۴/ نومبر ۲۰۰۸ء)

ملک محمد دین کے حمایتی کی طرح کا یہ منفی اور افسوس ناک رویہ کا ہر جگہ اور ہر زمانہ کے مخلص لوگوں کو سامنا کرنا پڑا ہے، آج بھی ہم جب اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیتے ہیں ، تو پارٹیوں اور سیاسی جماعتوں کے کٹر حمایتیوں کا رویہ بھی سامنے والے کے لیے کچھ اسی طرح کا ہوتا ہے ، گو دھوتی اور جامہ سے تو باہر نہیں ہوتے، لیکن اخلاق و کردار اور معاملات و سلوک اور برتاؤ میں انسانیت و آدمیت کی حدوں کو توڑ جاتے ہیں۔۔۔۔

جس امت کا امتیاز اور نشان و اعتبار ہی اعلی اخلاق اور عمدہ تہذیب تھی، آج وہی امت اخلاق و کردار اور تہذیب و انسانیت سے دور ہو جائے، باتوں باتوں میں ایک دوسرے کی کردار کشی پر آجائے، بڑے چھوٹوں کا فرق مٹ جائے، چھوٹوں سے شفقت ختم جائے،بڑوں کی عزت مٹ جائے،یہ بہت ہی افسوس اور شرمندگی کی بات ہے۔۔۔

مسلمانوں کے باہمی تعلقات تو بھائیوں کی طرح ہونے چاہئیں، مسلمان باہم ایک دوسرے کی عزت و آبرو کا پاس و لحاظ رکھیں۔ ان کی پوری کوشش یہ ہو کہ ان سے کسی بھائی کو کسی طرح کا نقصان ہرگز نہ پہنچے۔۔۔

آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو مسلمان اپنے بھائی کی ابرو کی حفاظت کے لیے مدافعت کرتا ہے تو لازماً اللہ تعالیٰ پر یہ حق ہوجاتا ہے کہ قیامت کے دن وہ آتش دوزخ سے اس کی حفاظت فرمائے۔۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاوت فرمائی و کان حقا علینا نصر المومنین۔۔ اہل ایمان کی نصرت تو ہم پر ایک حق ہے۔۔ (شرح السنۃ)

آتش دوزخ میں جلنا عذاب کے علاوہ بڑی رسوائی اور ذلت کی چیز بھی ہے۔ جو شخص دنیا میں اپنے بھائی کو بے آبرو ہونے سے بچاتا اور اس کے لیے پوری کوشش صرف کرتا ہے، خدا ایسے نیک اور شریف النفس انسان کو آخرت کی رسوائی اور عذاب سے محفوظ رکھے گا۔۔ لوگوں کو آبرو بخشنے والا کبھی بے آبرو اور ذلیل نہیں ہوسکتا اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جو دوسروں کی آبرو ریزی کے درپے ہوتا ہے وہ بالآخر خود ذلیل و رسوا ہوکر رہتا ہے۔۔

اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب سے بڑھ کر سود یہ ہے کہ مسلمان ناحق آبرو ریزی کے لیے زبان درازی کی جائے۔۔۔ (ابو داود)

زبان درازی حقیقت کے لحاظ سے بدترین قسم کا سود ہے۔ عام سود میں آدمی کو معاشی نقصان پہنچتا ہے، جب کے یہ سود ایسا ہے ، جس میں آدمی کی عزت اور اس کی آبرو مجروح ہوتی ہے۔ معاشی نقصان کے مقابلے میں عزت و آبرو کا نقصان زیادہ سخت اور حد درجہ اذیت بخش ہوتا ہے، اس لئے اگر کسی کی ناحق ابرو ریزی کے کے لیے اختیار کی جانے والی زبان درازی خدا کے رسول ﷺ نے سب سے بڑا اور بدترین قسم کا سود قرار دیا تو یہ صورت حال کی عین اور صحیح ترین تعبیر اور ترجمانی ہے۔۔۔

اذیت، ایذا رسانی اور کردار کشی ہر صورت میں ممنوع اور ناروا ہے، اس سے ہر مومن کو بچنا چاہیے۔۔۔

اسلامی شخصیت کا حامل شخص، جس کے دل میں تواضع کی محبت راسخُ ہوجاتی ہے۔ لوگوں کو حقیر سمجھنے، ان کا تمسخر کرنے اور مذاق اڑانے سے کوسوں دور رہتا ہے، اس لیے کہ قرآنی تعلیمات نے تواضع و فروتنی کی محبت راسخ کرنے اور تعلی،نخوت و تکبر اور غرور و گھمنڈ سے دور رہنے کا حکم دینے کے ساتھ لوگوں کا مذاق اڑانے اور ان کو حقیر سمجھنے سے منع کیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے،،

اے لوگو! جو ایمان لائے ہو نہ مرد دوسرے مرد کا مذاق اڑائیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔۔ (سورہ حجرات۔۔)

یہاں لطیف اشارہ یہ بھی ہے ،کہ اس آیت میں مرد و عورت کو ایک ہی صیغے سے منع نہیں فرمایا ،جیسا کہ عام طور پر قرآن مجید کا طرز اور اسلوب ہے ،بلکہ یہاں عورت و مرد دونوں کو الگ الگ صیغے سے منع کیا ، یہ اس بات کی دلیل و اشارہ ہے کہ استہزاء اور دوسرے کا مذاق اڑانا کتنا بڑا جرم اور گناہ ہے ۔

رسول اللہ ﷺ نے صراحت فرمائی ہے کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کو حقیر سمجھنا سراسر شر ہے۔ آدمی کے لیے اتنی ہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔۔ (مسلم شریف۔۔)

Comments are closed.