کیا یہی ضابطۂ اخلاق ہے؟

راحت علی صدیقی قاسمی
پارلیمانی انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی ضابطۂ اخلاق نافذ ہو چکا ہے، جس کو تقریباً ایک ماہ ہونے والا ہے، ضابطۂ اخلاق کا نفاذ ہندوستان کے تمام باشندوں پر کچھ پابندیاں عائد کرتا ہے، کچھ حدود قائم کرتا ہے، جن کو توڑنا قانوناً جرم ہے، اور اس طرح کے اعمال کو انجام دینے والا سزا کا مستحق ہوجاتا ہے،ضابطۂ اخلاق نافذ ہونے کے بعد عوام کے مال کا استعمال کسی پارٹی کی ترقی اور کامیابی کے لئے قانوناً جرم ہے، کوئی بھی سیاسی لیڈر عوام کے مال سے اس دوران انتخابی سرگرمیوں میں استفادہ نہیں کرسکتا ہے، انتخابی تشہیر کے لئے سرکاری اشیاء کا استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے، کسی بھی سیاسی جماعت یا سیاستی لیڈر کو انتخابی ریلی منعقد کرنے سے قبل انتظامیہ سے اجازت لینا ضروری ہوتا ہے، انتخابی ریلیوں میں گفتگو کرتے وقت مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے سے بھی احتراز ضروری ہے، انتخابی کاروائی کی تکمیل تک ہندوستان کے ہر باشندہ پر یہ تمام پابندیاں عائد ہوتی ہیں، وہ کسی بھی عہدہ کسی بھی طبقہ اور کسی بھی فکر کا حامل ہو اسے اپنی زبان اور اپنے کاموں کو اس دائرہ سے باہر نکالنے کی اجازت نہیں ہے، چونکہ انتخابات جمہوریت کی اساس ہوتے ہیں، ان میں شفافیت حد درجہ ضروری ہے تاکہ جمہوری نظام کا وقار قائم رہے۔ اِس پر موقع پر اہم ترین سوال یہ ہے، کیا ضابطۂ اخلاق کے نفاذ کے بعد ہم اس کے تئیں سنجیدہ ہیں؟ کیا تمام سیاسی جماعتیں اور ان سے متعلق افراد ان ضابطوں پر عمل پیرا ہیں؟ کیا ہماری زبانیں ان ضابطوں کی پابند ہیں، اگر جواب اثبات میں ہو تو ہر ہندوستانی اور تمام سیاسی جماعتیں قابل مبارکباد ہیں ، لیکن جواب اثبات میں ہوگا یا نفی میں اس بات کا اندازہ کرنے کے لئے ہمیں ضابطۂ اخلاق کے نفاذ کے بعد ہونے والی سیاسی سرگرمیوں کا جائزہ لینا چاہیے تاکہ ہمیں اس کے تئیں سنجیدگی اور غیر سنجیدگی کا علم ہو جائے، ریلوے ٹکٹس پر وزیراعظم نریندر مودی کی تصاویر موجود تھیں، جن کو ضابطۂ اخلاق کے نفاذ کے بعد ہٹا لیا گیا ہے، ترنمول کانگریس نے اس معاملے میں الیکشن کمیشن سے شکایت کی تھی اور اس طرح کے کے ٹکٹس کے چلن کو ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی بتایا تھا، اس کے بعد ریلوے کا کہنا ہے، کہ انہوں نے خود ہی اس جانب توجہ دیتے ہوئے، اُن ٹکٹس کو بند کردیا ہے،الیکشن کمیشن نے انہیں اس سلسلے میں کوئی سرزنش یا ہدایت نہیں کی ہے، اس سے قبل ہی ریلوے نے اس جانب مؤثر قدم اٹھایا ہے، لیکن اس کے لئے ترنمول کانگریس کی جانب سے تحریک کی ضرورت پیش آئی ہے،اور اس کے علاوہ چائے کے کپ پر(میں بھی چوکیدار ہوں)کا سلوگن رقم کرنے پر الیکشن کمیشن نے وزارت ریل سے ناراضگی کا اظہار کیا ہے، اور اس عمل کی وجہ دریافت کرنے کے لئے نوٹس جاری کیا ہے۔ اسی طرح ائیر انڈیا نے ضابطۂ اخلاق کے نفاذ کے بعد بورڈنگ پاس پر وزیراعظم کی تصاویر شائع کیں، جن کی وجہ سے الیکشن کمیشن نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے، اور اس ادارے کو خط لکھ کر جواب طلب کیا ہے،ضابطۂ اخلاق کے نفاذ کے بعد ’’نمو‘‘ ٹی وی لانچ کیا گیا ہے، جس کے’’لوگو‘‘ میں وزیراعظم کی تصویر ہے اور یہ چینل وزیر اعظم کی انتخابی ریلیاں اور بیانات براہ راست نشر کرتا ہے، اس کا افتتاح 31 مارچ کو کیا گیا، اس سلسلے میں الیکشن کمیشن نے وزارت ذرائع ابلاغ سے وجہ دریافت کرنے کے لئے خط لکھا ہے۔ راجستھان کے گورنر کلیان سنگھ کے تعلق سے خبر موصول ہوئی ہے کہ انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کو دوبارہ سے وزیراعظم بنانے کی اپیل کی اور ساتھ ہی ساتھ علی گڑھ میں بی جے پی لیڈروں کے درمیان آپسی تنازع کو حل کرانے کی کوشش کی، کلیان سنگھ ریاست راجستھان کے گورنر ہیں، انہوں نے بی جے پی کی محبت میں اپنے عہدے کے وقار کو بالائے طاق رکھ کر سیاسی سمندر میں ڈبکی لگائی ہے، ظاہر ہے ان کا یہ عمل ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی ہے، اور اس عظیم عہدے کے وقار کی توہین ہے جس پر وہ فائز ہیں ، الیکشن کمیشن نے بھی اسے ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی تسلیم کیا ہے، اور اس سلسلے میں صدر جمہوریہ کو شکایتی مکتوب روانہ کیا گیا ہے، اِس معاملے میں کیا فیصلہ ہوتا ہے، عنقریب اس کا علم ہوجائے گا، اس سے قبل ہماچل پردیش کے گورنر گلشیر احمد نے اپنے بیٹے کے لئے سیاسی تشہیر میں حصہ لیا تھا، تو انہیں اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑا تھا، کلیان سنگھ کے معاملے میں فیصلہ چاہے جو بھی ہو لیکن ضابطۂ اخلاق کے تحت ان کی غیر سنجیدگی واضح ہے۔ ان واقعات کے ضمن میں واضح ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں اور سیاسی افراد کی نظر میں ضابطۂ اخلاق کوئی حیثیت نہیں رکھتا ہے، وہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے کسی بھی حدتک جاسکتے ہیں، چاہے اُس میں ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی ہی کیوں نہ پائی جائے، لیکن افسوس کی بات یہ کہ جو ادارے حکومت کے تحت کے کام کرتے ہیں، وہ بھی اس طرح کے کاموں میں ملوث ہیں، حالانکہ ان اداروں کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے، چونکہ ان کو تو ملک کی خدمات انجام دینا ہے، ان کو سیاسی موشگافیوں سے کیا مطلب ہے، لیکن اُن کے اِن کاموں سے اندازہ ہوتا ہے، کہ وہ ضابطۂ اخلاق کی اہمیت سے بے بہرہ ہیں اور موجوہ وزیراعظم سے حد درجہ متاثر ہیں، جو جمہوریت کے لئے بہتر نہیں ہے، اس کے علاوہ اور بھی اس طرح کے واقعات ہیں، جو اخلاقی قدروں کی پامالی کی طرف اشارہ کرتے ہیں، اور الیکشن کمیشن بھی ان معاملات میں جانچ پڑتال کررہا ہے، یہ واقعات بہت زیادہ سطحی ہیں، سطحیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے فوج کو مودی کی سینا قرار دے دیا ہے،وزیر اعلیٰ نے بی جے پی سے وفادری اس حدتک نبھائی ہے کہ اپنے کے وقار کو بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھا، وہ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ ہیں، انہیں اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے تھا، فوج کسی شخص واحد کی غلام نہیں ہے، وہ ملک کی وفادار ہے، دیش کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں، فوجیوں کے لئے اس طرح کے جملے کا استعمال فوج کی توہین ہے، اس معاملہ میں الیکشن کمیشن کو شکایت پہنچ چکی ہے، فیصلہ چاہے جو بھی ہو، فوج کی خدمات کو بھی انتخابی تناظر میں دیکھا جارہا ہے، جو تکلیف دہ بات ہے،وزیر اعظم نریندر مودی بھی انتخابی ریلیوں میں دہشت گردی، پاکستان، ہندو مسلم منافرت کو موضوع گفتگو بنارہے ہیں، اور سب کا ساتھ اور سب کا وکاس کا نعرہ اب ان کے ذہن سے محو ہوہوچکا ہے، اب ان کی زبان پر اس طرح کے جملے ہیں کہ کوئی ہندو دہشت گرد نہیں ہوسکتا ہے، کانگریس بھی اسی طرز پر کوشاں ہے اور وہ مسلمانوں کو لبھانے کے لئے کوشش کر رہی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو اس سلسلے میں غور و فکر کرنا چاہئے کہ جمہوریت مقدم ہے، اسی کے تحفظ لئے انتخابات ہیں، اور اگر ہم قوانین توڑتے ہیں، جمہوریت کے وقار کو ٹھیس پہنچاتے ہیں، تو عوام بھی اس سے متاثر ہوگی اور ملک بھی متاثر ہوگا، لہٰذا ملک کے وقار کو مدنظر رکھتے ہوئے ضابطۂ اخلاق کے تئیں سنجیدگی کا عملاً اظہار ضروری ہے، اور ملک کی ترقی کو انتخاب کا موضوع بنائیں، ملکی مسائل پر ہی انتخاب لڑا جائے،تو ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا، نفرت و تعصب کے عنوان پر انتخابات ہوںگے، تو ملک کی فضاء زہریلی ہوگی، جس میں جمہوریت اور سیکولرازم کا دم گھٹتا چلا جائے گا۔
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.